سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(360) منی پاک ہونے کے بارے میں تحقیق

  • 21253
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 2498

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک مسئلہ جو بریلوی ودیوبندی حضرات بڑا اچھا لتے ہیں کہ"اہلحدیث کے نزدیک منی پاک ہے۔"منی کے بارے میں مسلک اہلحدیث واضح فرمائیں اور دلائل بھی ذکر کریں؟(ایک سائل)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

منی کے بارے میں محمد رئیس ندوی لکھتے ہیں۔

"ہم کہتے ہیں کہ فرقہ بریلویہ اور فرقہ دیوبندیہ کے پیران شیر شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا :

"وَهُوَ ( أي المني) طَاهِرٌ في أَشْهَرُ الرِّوَايَتَيْنِ"

یعنی ہمارے مذہب میں مشہور ترین روایت کے مطابق منی پاک ہے۔(غنیۃ الطالبین مترجم70)

اور حنبلی مذہب کی کتاب الانصاف فی معرفۃ الراجح من الخلاف میں صراحت ہے کہ:

"ومني الاآدمي طاهر هذا المذهب مطلقا وعليه جماهير الاصحاب

یعنی حنبلی مذہب میں مطلقاًآدمی کی منی طاہر ہے اور جمہور اصحاب کا یہی مذہب ہے۔

(الانصاف فی معرفۃ الراجح من الخلاف 1/340۔341)

امام نووی نے کہا:

"ذهب كثيرون إلى أن المني طاهر . روي ذلك عن علي بن أبي طالب وسعد بن أبي وقاص وابن عمر وعائشة وداود وأحمد في أصح الروايتين وهو مذهب الشافعي وأصحاب الحديث "

"یعنی بہت سارے اہل علم منی کو طاہر کہتے ہیں حضرت علی مرتضی رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  وسعد بن ابی وقاص وابن عمر  رضی اللہ  تعالیٰ عنہ وعائشہ رضی اللہ  تعالیٰ عنہا    جیسے صحابہ سے یہی مروی ہے اور امام داودظاہری کا یہی مسلک ہے امام احمد رحمۃ اللہ علیہ  کی صحیح ترین روایت یہی ہے کہ منی پاک ہے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  و اہل حدیث کا یہی مذہب ہے کہ منی پاک ہے"

(شرح مسلم للنووی باب حکم المنی ج1ص140والمجموع للنووی ابواب  الطہارۃ )

بعض علمائے اہل حدیث طہارت منی کے قائل ہیں اور ان کے اختیار کردہ موقف کی موافقت خلیفہ راشد علی مرتضیٰ رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  اور متعدد صحابہ و تابعین وآئمہ دین کیےہوئے ہیں انھوں نے اپنی ذاتی تحقیق سے اسی موقف کو صحیح سمجھا ہے لیکن امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ  ونواب صدیق اور متعدد محقق سلفی علماء نجاست منی ہی کے قائل ہیں۔

(نیل الاوطارج1 ص67، تحفہ الحوزی شر ح ترمذی ج1ص114۔115ومرعاۃ شرح مشکوۃ کتاب الطہارۃ ج2ص196وغایۃ المقصود ج1)

دریں صورت فرقہ بریلویہ ودیوبندیہ کا علی الاطلاق اسے غیر مقلدوں کا مذہب قراردینا محض تقلید پرستی تلبیس کاری و کذب بیانی ہے پھر جو مسئلہ صحابہ سے لے کر فرقہ دیوبندیہ و بریلویہ کی ولادت سے پہلے اہل علم کے یہاں مختلف فیہ رہا۔ اس میں اپنی تحقیق کےمطابق اسلاف کے کسی بھی موقف کو اختیار کرنے والوں کو نئے مذہب کی طرف دعوت دینے والا قراردینا جبکہ اسے مذہب کی دعوت قرار دینے والے بذات خود چودھویں صدی میں پیدا ہوئے کون سا طریقہ ہے؟

ہم بھی اس مسئلہ میں امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ  وعام محقق سلفی علماء سے متفق ہیں کہ منی ناپاک و نجس ہے۔(ضمیر کا بحران ص309،310)

میں بھی یہی کہتا ہوں کہ منی ناپاک اور نجس ہے۔اسے پاک کہنا غلط ہے یاد رہے کہ جماہیر الاصحاب سے امام احمد رحمۃ اللہ علیہ  کے شاگرد اور حنابلہ مراد ہیں۔اور ندوی صاحب کی نقل کردہ عبارات میں مذکور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  میں سے کسی صحابی سے بھی طہارت منی کا قول ثابت نہیں ہے۔

یہ سوال و جواب آپ لوگوں کی خدمت میں دوبارہ پیش کر دیا گیا ہے لہٰذا جھوٹے پروپیگنڈے کر کے اہل حدیث کو بدنام کرنے کی کوشش نہ کریں۔

5۔سائل کا قول "وہ فاتحہ خلف الامام بھی پڑھتے ہیں۔"ہمارے خلاف نہیں بلکہ ہمارے عمل کی ترجمانی ہے جس پر ہم دلائل و براہین اور بصیرت کے ساتھ عمل پیرا ہیں۔ والحمد للہ۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ اور قرآن میں سے جو میسر ہو پڑھو۔(سورۃ المزمل:20)

اس آیت کریمہ سے ابو بکر الجصاص اورملا مرغینانی نے نماز میں قرآءت کی فرضیت پر استدلال کیا ہے۔(دیکھئے احکام القرآن (ج5ص367)اور الہدایہ (اولین ج1ص98)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"لاصَلاة لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ"

"اس کی نماز نہیں ہوتی جو سورۃ فاتحہ نہ پڑھے"(صحیح بخاری:756صحیح مسلم :394)

تفصیل کے لیے دیکھئے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  کی کتاب جزء القراءۃ (بتحقیقی نصر الباری)اور میری کتاب "الکواکب الدریہ فی وجوب الفاتحہ خلف الامام فی الصلوٰۃ الجہریہ"والحمدللہ۔

آئمہ کرام میں سے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:

کسی آدمی کی نماز جائز نہیں ہے جب تک ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھ لے۔ چاہے وہ امام ہو یا مقتدی ، امام جہری قرآءت کر رہا ہو یا سری، مقتدی پر لازم ہے کہ سری اور جہری (دونوں )نمازوں میں سورۃ فاتحہ پڑھے۔

(معرفۃ السنن والآثار للبیہقی 2/58ح928وسندہ صحیح)

اس قول کے راوی امام ربیع بن سلیمان المرادی  رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:

"یہ (امام) شافعی رحمۃ اللہ علیہ  کا آخری قول ہے جو ان سے سنا گیا۔"(ایضاًص58)

امام اوزعی رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:

امام پر یہ حق ہے کہ وہ نماز شروع کرتے وقت تکبیر اولیٰ کے بعد سکتہ کرے اور سورۃ فاتحہ کی قرآءت کے بعد ایک سکتہ کرے تاکہ اس کے پیچھے نماز پڑھنے والے سورۃ فاتحہ پڑھ لیں اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو وہ (مقتدی )اسی کے ساتھ سورۃ فاتحہ پڑھے اور جلدی پڑھ کر ختم کرے۔پھر کان لگا کر سنے۔(کتاب القراء للبیہقی ص106ح 247وسندہ صحیح نصر الباری ص117)

اتنے دلائل اور عظیم الشان اماموں کے عمل اور اقوال کے باوجود اگر کوئی شخص فاتحہ خلف الامام کے مسئلے میں اہل حدیث کو مطعون قراردیتا ہے تو وہ اپنے ایمان کی فکر کرے۔!

فاتحہ خلف الامام پر بحث کرنے سے پہلے میری دونوں کتابوں نصر الباری اور الکواکب الدریہ کا مکمل جواب ضروری ہے۔

6۔اہل حدیث کے نزدیک دو شرطوں کے ساتھ جرابوں پر مسح جائز ہے۔

اول: "ثخينين" (جرابیں موٹی ہوں)

دوم: "لايشفان"(ان جرابوں میں جسم نظر نہ آئے)

یہ شرائط قرآن حدیث سے نہیں بلکہ بعض سلف صالحین سے ثابت ہیں اور ہم کتاب و سنت کو سلف صالحین کے فہم سے ہی سمجھتے ہیں لہٰذا ہمیں ان دونوں شرطوں کا اقرارہے۔

یاد رہے کہ بعض دیوبندیوں کا یہ شرط لگانا کہ بغیر جوتی کے بارہ ہزار قدم چلنا ممکن ہو۔

اس قسم کی تمام شرائط بے دلیل اور بے ثبوت ہونے کی وجہ سے مردود ہیں۔

فقہ حنفی کی بعض کتابوں میں مذکور ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  نے (جرابوں کے مسئلے میں) صاحبین کے قول پر رجوع کر لیا تھا(کہ جرابوں پر مسح جائز ہے)اور اسی پر فتویٰ ہے۔دیکھئے الہدایہ(ج1ص61)

امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  کی ولادت سے پہلے امام سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  نے پیشاب کیا پھر وضو کیا اور جرابوں پر مسح کیا(دیکھئے امام ابن المنذرکی کتاب الا وسط ج1ص462وسندہ صحیح)

دیگر دلائل وآثار کے لیے دیکھئے میری کتاب "ہدیۃ المسلمین "(حدیث نمبر4)

امام ترمذی  رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:سفیان ثوری  رحمۃ اللہ علیہ ، ابن المبارک رحمۃ اللہ علیہ ،شافعی رحمۃ اللہ علیہ ،احمد رحمۃ اللہ علیہ ،اوراسحاق(بن راہویہ رحمۃ اللہ علیہ )جرابوں پر مسح کے قائل تھے۔

بشرطیکہ وہ موٹی ہوں۔دیکھئے سنن الترمذی(ح99)جرابوں پر مسح درج ذیل صحابہ و تابعین سے ثابت ہے۔

سیدنا علی رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  ،سیدنا ابوا مامہ رضی اللہ  تعالیٰ عنہ ،سیدنا براءبن عازب رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  سیدنا عقبہ بن عمر رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  ، سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  ،ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ  سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ  اور عطاء بن ابی رباح رحمۃ اللہ علیہ  دیکھئے علمی مقالات (ج1ص37۔38)

اگر کوئی شخص یہ کہے کہ جرابوں پر مسح کرنے والے کے پیچھے اس کی نماز نہیں ہوتی تو اسے اپنے ایمان کی خیر منانی چاہیے۔کیا سیدنا علی رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  اور تابعین عظامرحمہم اللہ اجمعین کے پیچھے بھی اس شخص کی نماز نہیں ہوتی؟!!

بعض مسائل واحکام میں تحقیقی اختلاف کی وجہ سے نماز نہ پڑھنے کا فتوی لگانا ہر لحاظ سے باطل ہے۔

7۔اس وقت حنفیوں کی جو کتب فقہ ہیں مثلاً قدوری،ہدایہ ، فتاویٰ شامی ، الجراالرائق، منیۃ المصلی، نور الایضاح اور فتاویٰ عالمگیری وغیرہ ان میں سے ایک کتاب بھی باسند صحیح امام ابو حنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ  سے ثابت نہیں ہے اور اس پر ناراض ہونے کی کیا بات ہے؟

محمد بن الحسن فرقد الشیبانی کی مروجہ کتابیں بھی ابن فرقد سے باسند صحیح ثابت نہیں ہیں۔ دیکھئے ماہنامہ الحدیث حضرو: 55ص36)

اگر کوئی شخص ان مروجہ کتابوں کو ثابت مانتا ہے توا صول حدیث اور اسماء الرجال کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کتابوں کی صحیح سند پیش کرے۔

8۔عہد قدیم میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  کے بارے میں محدثین کرام کا آپس میں اختلاف تھا جمہور ایک طرف تھے اور بعض دوسری طرف تھے لیکن ہمارے دور میں اہل حدیث تو امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  کو عالم سمجھتے اور مانتے ہیں مثلاً ہمارےاستاذمولانا ابو محمد بدیع الدین شاہ الراشدی السندھی رحمۃ اللہ علیہ  نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  کو عزت واحترام کے ساتھ"امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ  "لکھاہے۔

دیکھئے تنقید سدید بررسالہ اجتہاد تقلید(ص24)

اگر کوئی پوچھے کہ کیا امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  پر جبریل رحمۃ اللہ علیہ  نازل ہوتے تھے؟تو اس کا آسان جواب یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ   پر جبریل علیہ السلام  نازل نہیں ہوتے تھے۔

آئمہ ثلاثہ کو ماننے یا نہ ماننے کے بارے میں فقرہ نمبر1 کا جواب دوبارہ پڑھ لیں۔

9۔ سائل نے عہد حاضر کے اہل حدیث پر یہ الزام لگایا ہے کہ"یہ لوگ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ   کو گمراہ سمجھتے ہیں"اس کا جواب یہ ہے کہ یہ الزام باطل ہے جس کا سائل نے کوئی حوالہ اور ثبوت پیش نہیں کیا۔

رہا تقلید کو گناہ کبیرہ سمجھنا تو عرض ہے کہ سرفراز خان صفدر دیوبندی تقلیدی نے کہا:

"ان آیات کریمات میں جس تقلید کی تردید کی گئی ہے وہ ایسی تقلید ہے جو اللہ تعالیٰ اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے حکم کے مدمقابل ہو ایسی تقلید کے حرام شرک مذموم اور قبیح ہونے میں کیا شبہ ہے؟اور اہل اسلام اور اہل علم میں کون ایسی تقلید کو جائز قرار دیتا ہے؟اور ایسے مقلدوں کوکون مسلمان کہتا اور حق پر سمجھتا ہے۔"(الکلام المفید فی اثبات التقلید ص298طبع 1413ھ)

سرفراز خان صفدر نے اپنے اشرف علی تھانوی سے نقل کیا کہ" بعض مقلدین نے اپنے امام کومعصوم عن الخطا ومصیب وجوباً مفروض الاطاعت تصور کر کے عزم بالجزم کیا کہ خواہ کیسی ہی حدیث صحیح مخالف قول امام کے ہو اور مستندقول امام کا بجز قیاس امر دیگرنہ ہو پھر بھی بہت سے علل اور خلل حدیث میں پیدا کر کے یا اس کی تاویل بعید کر کے حدیث کو رد کر دیں گے۔ ایسی تقلید حرام اور مصداق قوله تعاليٰ:"اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ"الایہ اور خلاف وصیت آئمہ مرحومین ہے۔"(الکلام المفید ص305بحوالہ فتاوی امدادیہ ج4ص88)

سرفراز خان صفدر نے مزید کہا:

"کوئی بد بخت اور ضدی مقلددل میں یہ ٹھان لے کہ میرے امام کے قول کے خلاف اگر قرآن و حدیث سے بھی کوئی دلیل قائم ہو جائے تو میں اپنے مذہب کو نہیں چھوڑوں گا تو وہ مشرک ہے ہم بھی کہتے ہیں کہ "لاشک فیہ"(الکلام المفیدص310)

بس یہی وہ تقلید ہے جسے اہل حدیث اپنی تحقیق کے مطابق گناہ کبیرہ (یعنی شرک) کہتے ہیں اور اس میں ناراض ہونے کی کیا بات ہے؟!

10۔امامت النساء للنساء کے سلسلے میں عرض ہے کہ ریطہ الحنفیہ رحمہااللہ نے فرمایا:

ہمیں عائشہ( رضی اللہ  تعالیٰ عنہا  )نے فرض نماز پڑھائی تو آپ عورتوں کے درمیان کھڑی ہوئیں۔(سنن الدارقطنی 1/1429، وسند حسن آثار السنن :514وقال النیموی :"واسنادہ صحیح")

ایک حدیث میں آیا ہے۔کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اُم ورقہ( رضی اللہ  تعالیٰ عنہا  )کو اس کی اجازت دی تھی کہ ان کے لیے اذان اور اقامت کہی جائے اور وہ اپنی عورتوں کی امامت کریں۔(سنن الدارقطنی ج 1،ص 279،ح1071وسند حسن )

مشہور تابعی امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:عورت عورتوں کو رمضان کی نماز پڑھائے (تو )وہ ان کے ساتھ صف میں کھڑی ہو جائے۔(مصنف ابن ابی شیبہ2/89ح4955وسند صحیح عنعنہ ہشیم عن حصین محمولہ علی السماع انظر شرح علل الترمذی لا بن رجب2/562)

مشہور ثقہ تبع تابعی ابن جریج  رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا:عورت جب عورتوں کی امامت کرائے گی تو وہ آگے کھڑی نہیں ہو گی بلکہ ان کے برابر(صف میں ہی)کھڑی ہو کر فرض اور نفل پڑھائے گی۔(مصنف عبدالرزاق 3/140ح5080وسندہ صحیح)

امام معمر بن راشد رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا عورت عورتوں کو رمضان میں نماز پڑھائے اور وہ ان کے ساتھ صف میں کھڑی ہو۔(مصنف عبدالرزاق 3/140ح5085وسندہ صحیح)

ان احادیث و آثار سے ثابت ہوا کہ عورت عورتوں کی امامت کر سکتی ہے۔

یاد رہے کہ عورت مردوں کی امامت نہیں کر سکتی کیونکہ اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔دیکھئے میری کتاب " تحقیقی اصلاحی اور علمی مقالات"(ج1ص247)

معترض کا یہ کہنا:"حتیٰ کہ اقتداء الرجال خلف النساء بھی درست ہے"اہل حدیث پر بہتان ہے جس سے اہل حدیث بری ہیں۔

11۔یہ بات بالکل سچ اور حق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی کسی صحیح حدیث میں "وضع الیدین تحت السرہ" یعنی نماز میں ناف سے نیچے ہاتھ باندھنا ثابت نہیں ہے۔

دیکھئے میری کتاب "نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام"

بلکہ دوسری طرف یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے نماز میں اس(یعنی ہاتھ کو) سینے پر رکھاتھا۔ دیکھئے مسند الامام احمد(ج5ص226ح22313وسندہ حسن محفوظ)

امام سعید بن جبیرتابعی  رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا کہ نماز میں ناف سے اوپر ہاتھ باندھنے چاہئیں ۔

(امالی عبدالرزاق2،الفوئدلابن مندہ/234ح1899وسندہ صحیح)

تقی عثمانی دیوبندی نے کہا:"امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  کے نزدیک ایک روایت میں تحت الصدر اور دوسری روایت میں علی الصدر ہاتھ باندھنا مسنون ہے۔"(درس ترمذی ج3ص19)

12۔نماز میں رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد اٹھتے وقت رفع یدین کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے ثابت ہے یہ سنت متواترہ اور غیر متروکہ ہے۔ تفصیلی دلائل کے لیے میری مشہور کتاب "نور العین فی مسئلہ رفع الیدین " کا مطالعہ کریں۔

فی الحال مسئلہ سمجھانے کے لیے چند دلائل پیش خدمت ہیں۔

اول:

سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ  تعالیٰ عنہ (جلیل القدر صحابی اور نیک مرد)سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو دیکھا آپ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو دونوں ہاتھ اپنے کندھوں تک اٹھاتے تھے اور رکوع کی تکبیر کے وقت بھی رفع یدین کرتے تھے اور جب رکوع سے سر اٹھا تھے تو اسی طرح رفع یدین کرتے تھے سجدہ میں ایسا نہیں کرتے تھے۔(صحیح بخاری ج1ص102ح736)

دوم:

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  سے اس حدیث کے راوی سالم بن عبد اللہ بن عمر رحمۃ اللہ علیہ  (فقیہ تابعی) فرماتے ہیں کہ میرے ابا بھی ایسا ہی کرتے تھے ۔یعنی سیدنا ابن عمر رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  شروع نماز رکوع کے وقت سے اٹھتےوقت رفع یدین کرتے تھے۔

(دیکھئے حدیث السراج ج2ص35ح115،وسندہ صحیح ولہ شاہد صحیح عندالبخاری فی صحیحہ:739وسندہ صحیح مرفوع)

سوم:

سالم بن عبد اللہ رحمۃ اللہ علیہ  سے اس حدیث کے ایک راوی امام سلیمان (بن ابی سلیمان )الشیبانی رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:میں نے دیکھا سالم بن عبد اللہ جب نماز شروع کرتے تو رفع یدین کرتے جب رکوع کرتے تو رفع یدین کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع یدین کرتے تھے۔(حدیث السراج 2/34،35ح115وسندہ صحیح)

چہارم:

سالم بن عبد اللہ تابعی کے علاوہ امام محمد بن سیرین  رحمۃ اللہ علیہ ،ابو قلابہ رحمۃ اللہ علیہ  ، وہب بن منبہ رحمۃ اللہ علیہ  ، قاسم بن محمد رحمۃ اللہ علیہ ،عطاء رحمۃ اللہ علیہ  مکحول رحمۃ اللہ علیہ ، نعمان بن ابی عیاش رحمۃ اللہ علیہ  ، طاؤس رحمۃ اللہ علیہ  اور حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ (تابعین )بھی رفع یدین کرتے تھے۔دیکھئے میری کتاب نور العین (ص174)

ان آثار کی سند یں صحیح یا حسن لذاتہ ہیں۔

پنجم :

 تبع تابعین میں سے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ (سنن الترمذی مع عارضۃ الاحوذی 2/57ح256)تاریخ دمشق لابن عساکر ج55ص134،وسندہ حسن)امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ  (الطبری بحوالہ التمہید 9/226وسندہ الطبری صحیح)اور معتمر بن سلیمان التیمی(جزء رفع الیدین للبخاری :121وسندہ صحیح)وغیرہم ایک جماعت سے رکوع سے پہلے اوربعد والا رفع یدین ثابت ہے۔

ششم :

تبع تابعین کے بعد امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  ،امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ  ،امام یحییٰ بن سعید القطان رحمۃ اللہ علیہ ، امام عبد الرحمٰن بن مہدی  رحمۃ اللہ علیہ اور اسماعیل بن علیہ رحمۃ اللہ علیہ  وغیرہم رفع یدین قبل الرکوع وبعدہ پر عامل تھے۔(دیکھئےجزء رفع الیدین للبخاری :121اور کتاب الام للشافعی ج1ص103،104من قولہ وامرہ)

بعد میں تو امام بخاری  رحمۃ اللہ علیہ  جیسے کبار علماء نے اس عظیم الشان مسئلے پر کتابیں لکھی ہیں۔

ثابت ہوا کہ رفع یدین کی سنت متواترہ پر عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانے میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کے زمانے میں تابعین عظام کے زمانے میں تبع تابعین کے دور میں اور تیسری صدی ہجری میں مسلسل جاری و ساری رہا ہے لہٰذا اس پیارے عمل کو منسوخ اور متروک سمجھنایا سرکش گھوڑوں کی دُموں سے تشبیہ دینا غلط ہے۔

رفع یدین کے اس مقدس عمل کی فضیلت میں ایک حدیث بھی مروی ہے۔

سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  صحابی نے فرمایا:نماز میں جو شخص اشارہ کرتا ہے اسے ہر اشارے کے بدلے میں ایک انگلی پر ایک نیکی یا درجہ ملتا ہے۔

(المعجم الکبیر للطبرانی ج17ص29ح819وسندہ حسن مجمع الزوائد للبیہقی ج2ص103وقال:"واسنادہ حسن)

امام اسحاق بن راہویہ  رحمۃ اللہ علیہ  مشہور ثقہ فقیہ نے اس موقوف حدیث سے رکوع سے پہلے اور بعد والا رفع یدین مراد لیا ہے۔

دیکھئے معرفۃ السنن والآثار للبیہقی(قلمی ج1ص225،مطبوع،ج1 ص562ح792)

ان دلائل صحیحہ اور حجج قاہرہ کی وجہ سے کسی اہل حدیث نے اگر یہ کہہ دیا ہے کہ رفع یدین کے بغیر نماز سنت کے مطابق نہیں ہے لہٰذا درست نہیں ہے۔ اور رفع یدین کے بغیر والی کا اعادہ کر لینا چاہیے تو اس میں ناراض ہونے والی کیا بات ہے؟

مشہور متبع سنت صحابی جب کسی شخص کو دیکھتے کہ رکوع سے پہلے اور بعد رفع یدین نہیں کرتا تو اسے کنکریوں سے مارتے تھے۔ دیکھئے جزء رفع یدین (15،سندہ صحیح)

13۔معترض سائل کا یہ اعتراض تو اہل حدیث پر بہتان ہے۔

سیدہ اُم حبیبہ رضی اللہ  تعالیٰ عنہا   سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو فرماتے ہوئے سنا:

"مَنْ صَلَّى اثْنَتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً فِي يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ بُنِيَ لَهُ بِهِنَّ بَيْتٌ فِي الْجَنَّةِ"

جس شخص نے دن رات میں بارہ(نفل)رکعتیں پڑھیں اس کے لیے جنت میں گھر بنادیا گیا۔

سیدہ اُم حبیبہ رضی اللہ  تعالیٰ عنہا   نے فرمایا:میں نے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم سے اسے سنا ہےان رکعتوں کو کبھی نہیں چھوڑا۔

عنبسہ بن ابی سفیان رحمۃ اللہ علیہ  (تابعی)نے فرمایا:میں نے جب سے اُم حبیبہ رضی اللہ  تعالیٰ عنہا   سے اسے سناہے، ان رکعتوں کو کبھی نہیں چھوڑا۔

عمرو بن اوس رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:میں نے جب سے عنبسہ سے اسے سنا ہے ان رکعتوں کو کبھی نہیں چھوڑا۔

نعمان بن سالم رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:میں نے جب سے عمرو بن اوس  رحمۃ اللہ علیہ سے اسے سنا ہے۔ ان رکعتوں کو کبھی نہیں چھوڑا۔

(صحیح مسلم 728،ترقیم دارالسلام :1694،باب فضل السنن الراتبۃ قبل الفرائض و بعدھن وبیان عددھن )

اتنی عظیم الشان فضیلت اور مسلسل عمل والی روایت کوکوئی سچا اہل حدیث ترک نہیں کر سکتا الایہ کہ بعض اوقات کسی شرعی عذر سے انھیں چھوڑ دے مثلاً سفر میں سنتیں نہ پڑھنا وغیرہ ۔

عصر حاضر میں نماز کے موضوع پر اہل حدیث کی ایک مشہور کتاب"صلوٰۃ الرسول" میں حکیم صادق سیالکوٹی  رحمۃ اللہ علیہ  نے لکھا ہے۔"رات اور دن کی موکدہ سنتیں بارہ ہیں۔"دیکھئے صلوٰۃ الرسول(مطبوعہ نعمانی کتب خانہ ص282تخریج والا نسخہ القول المقبول ص561)

اس صراحت کے باوجود یہ پروپیگنڈا کرنا کہ اہل حدیث کے نزدیک کوئی سنت ثابت نہیں۔"صریح جھوٹ اور بہتان ہے۔

14۔اہل حدیث کے نزدیک صحیح بخاری رحمۃ اللہ علیہ  اور صحیح مسلم  رحمۃ اللہ علیہ کی تمام مرفوع مسند متصل احادیث صحیح ہیں اور ان کے علاوہ تمام معتبر کتب حدیث مثلا صحیح ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ ، صحیح ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ ، صحیح ابن الجارود رحمۃ اللہ علیہ ، المستدرک للحاکم  رحمۃ اللہ علیہ ، المختارہ للمقدسی رحمۃ اللہ علیہ  ، سنن الترمذی رحمۃ اللہ علیہ ، سنن ابی داود رحمۃ اللہ علیہ ، سنن النسائی رحمۃ اللہ علیہ ،سنن ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ ،مؤطا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ، کتاب الامام شافعی  رحمۃ اللہ علیہ ،مسند الامام احمد رحمۃ اللہ علیہ ، سنن دارقطنی  رحمۃ اللہ علیہ ، السنن الکبری للبیہقی رحمۃ اللہ علیہ  ،مصنف ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ  اور مصنف عبدالرزاق  رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کی وہ تمام احادیث مرفوعہ حجت ہیں۔جن کی سندیں اصول حدیث کی روسےصحیح یا حسن (لذاتہ) ہیں والحمدللہ۔

یہ کہنا اہل حدیث صحیح بخاری رحمۃ اللہ علیہ  کو مانتے ہیں بالکل جھوٹ اور افتراء ہے۔ نیز دیکھئے میری کتاب "علمی مقالات "(ج1ص176،177)

اہل حدیث یہ نہیں کہتے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  غیر مقلد تھے بلکہ اہل حدیث تو یہ کہتے ہیں کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  مجتہد مطلق تھے اہل حدیث تھے بلکہ اہل حدیث کے اماموں میں سے ایک بڑے امام تھے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  کی تعریف اور دفاع کے لیے دیکھئے میری کتاب"صحیح بخاری رحمۃ اللہ علیہ  پر اعتراضات کا علمی جائزہ"(ص10،11)اور مجموع فتاوی لا بن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  (ج20ص40)

باقی معتبر کتب حدیث کی صحیح اور حسن روایات کو ہم بسرو چشم قبول کرتے ہیں اور اعلان کرتے ہیں کہ ان کتابوں کے مصنفین میں سے ایک بھی مقلد نہیں دیکھئے میری کتاب"دین میں تقلید کا مسئلہ"(ص50، 51)اور الکلام المفید فی اثبات التقلید(2)تصنیف سر فراز خان صفدر دیوبندی (ص127،طبع 1413ھ)

کذاب و مفتری سائل کا یہ کہنا:کہ" اہل حدیث کے نزدیک صحیح بخاری کے علاوہ جملہ کتب احادیث مفتریات وتصنعات ہیں "بالکل جھوٹ اور افتراء ہے جس سے تمام اہل حدیث بری ہیں۔

15۔اہل حدیث کے نزدیک قرآن و حدیث کے دلائل کے ساتھ اگر شرعی عذر مثلاً سفر، حج(یوم عرفہ)اور بارش وغیرہ ہوتو جمع بین الصلوٰتین جائز و مسنون ہے ورنہ نہیں ہے۔میں نے کئی مہینے پہلے لکھا تھا:

"بعض لوگ شرع عذر کے بغیر حضر (اپنے گھر ،گاؤں اور شہر )میں دونماز یں جمع کرتے رہتے ہیں ۔یہ عمل کتاب و سنت سے ثابت نہیں ہے بلکہ سراسر مخالف ہے لہٰذا ایسے امور سے ہمیشہ اجتناب کرنا چاہیے۔وما علینا الاالبلاغ۔

(10/ مئی 2008ء)(ماہنامہ الحدیث:52ص25۔

اس اعلان کے باوجود جو شخص ہمارے خلاف پرو پیگنڈا کرتا ہے وہ قیامت کے دن کے لیے جواب سوچ لے۔

16۔دیوبندی تبلیغی جماعت والےزکریا یوبندی صاحب کی غلط عبارات پر تنقید کرنا حد سے تجاوز نہیں بلکہ امر بالمعروف اور النہی عن المنکر کے باب میں سے ہے۔

زکریاصاحب نہ تو نبی تھے اور نہ صحابی ،تابعی تبع تابعی یا امام تھے؟ وہ ایک دیوبندی صوفی تھے جنھوں نے خلیل احمد سہارنپوری دیوبندی کی صوفیا نہ بیعت کی تھی۔

دیکھئے سوانح محمد زکریا، تصنیف ابو الحسن علی ندوی صوفی دیوبندی(ص62)

ان زکریا صاحب نے بطور رضا مندی واقرار بعض شرکیہ اشعار کا ترجمہ لکھا تھا۔

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  حد نگاہ کرم فرمائیے اے ختم المرسلین رحم فرمائیے۔

عاجزوں کی دستگیری ،بیکسوں کی مدد فرمائیے اور مخلص عشاق کی دلجوئی ودلداری کیجئے۔"(تبلیغی نصاب ص806،فضائل درود ص128)

ان اشعار میں اللہ تعالیٰ کے بجائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو مدد اور دستگیری کے لیے پکارا گیا ہے اور رحم کی درخواست کی گئی ہے۔ حالانکہ ایسے عقائد رکھنے والے بریلویوں کےبارے میں دیوبندی حضرات مشرک اور بدعتی کا فتوی لگانے سے کبھی نہیں چوکتے۔

زکریا دیوبندی کے بارے میں تفصیلی تحقیق کے لیے دیکھئے میری کتاب اکاذیب آل دیوبند (مخطوط ص139۔162)کا مطالعہ از حد مفید ہے والحمد للہ۔

17۔اہل حدیث کا دعوی یہ ہے کہ نماز جمعہ سے پہلے سنت کی کوئی متعین تعداد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے ثابت نہیں۔

اس سلسلے میں تقلیدی حضرات جو شبہات پیش کرتے ہیں ان کا جواب درج ذیل ہے۔

پہلی روایت :

سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  چار رکعات جمعہ سے پہلے پڑھتے تھے اور چار جمعہ کے بعد اور سلام آخری(چوتھی)میں پھیرتے تھے۔"(معجم طبرانی اوسط بحوالہ نصب الرایہ ج2ص206حدیث اور اہلحدیث ص823،824)

عرض ہے کہ اس روایت کی سند درج ذیل ہے۔

"حدثنا أحمد قال : نا شباب العصفري قال : نا محمد بن عبد الرحمن السهمي قال : نا حصين بن عبد الرحمن السلمي ، عن أبي إسحاق ، عن عاصم بن ضمرة ، عن علي"

(معجم طبرانی اوسط بحوالہ نصب الرایہ ج2ص328ح640)

المعجم الاوسط کے علاوہ یہ روایت المعجم لا بن الاعرابی (874)اور الاثرم کی کتاب میں بھی محمد بن عبد الرحمٰن السہمی کی سند سے موجود ہے۔ دیکھئے فتح الباری(2/426)تحت حدیث 937)

زیلعی حنفی نے اسے نصب الرایہ میں نقل کیا ہے مگر اس نقل میں زیلعی یا ناسخین سے نقل در نقل کی کئی غلطیاں ہوئی ہیں مثلاً:

 (1)ابو اسحاق البسیعی کا واسطہ گر گیا ہے ۔

2۔شباب العصفری کے بجائے سفیان العصفری چھپ گیا ہے۔

3۔محمد بن عبد الرحمٰن السہمی کے بجائے محمد بن عبد الرحمٰن التیمی لکھا گیا ہے۔

روایت مذکورہ کئی وجہ سے ضعیف ہے۔

اول:

ابو اسحاق السبیعی طبقہ ثالثہ کے مدلس تھے۔دیکھئے طبقات المدلسین(بتحقیقی الفتح المبین91/3ص58اور یہ روایت عن سے ہے ۔اصول حدیث کا مشہور مسئلہ ہے کہ صحیح بخاری  رحمۃ اللہ علیہ اور صحیح مسلم رحمۃ اللہ علیہ  کے علاوہ دوسری کتابوں میں مدلس کی عن والی روایت ضعیف ہوتی ہے۔

مثلاً دیکھئے مقدمہ نووی ص18،فتح المغیث ص77اور تدریب الراوی ص144،بحوالہ خزائن السنن تصنیف سرفراز خان صفدر دیوبندی (ج1ص1)

دوم:

محمد بن عبد الرحمٰن السہمی جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف راوی ہے۔ حافظ ابن حجر  رحمۃ اللہ علیہ نے اس سہمی کے بارے میں فرمایا:امام بخاری وغیرہ کے نزدیک سہمی ضعیف ہے اور اثرم نے کہا:یہ کمزور حدیث ہے(فتح الباری2/426)

میری مفصل تحقیق کے لیے دیکھئے ماہنامہ شہادت اسلام آباد (جولائی2001ء)

سوم:

ابو اسحاق آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہو گئے تھے اور یہ روایت اختلاط سے پہلے کی نہیں ہے۔

دوسری روایت:

سیدنا ابن عباس رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  چار رکعات جمعہ سے پہلے پڑھتے تھے اور چار رکعات جمعہ کے بعد۔

(مجمع الزوائد ج2ص195بحوالہ حدیث اور اہلحدیث ص824)

عرض ہے کہ اسے حافظ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ  نے "رواہ الطبرانی فی الکبیر" کہہ کر امام طبرانی  رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب المعجم الکبیر سے نقل کیا ہے۔

المعجم الکبیر للطبرانی(12/129ح12674)میں یہ روایت :

"حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، عَنْ مُبَشِّرِ بْنِ عُبَيْدٍ، عَنْ حَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاةَ، عَنْ عَطِيَّةَ الْعَوْفِيِّ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ"

"کی سند سے موجود ہے اور اسی سند کے ساتھ یہ روایت سنن ابن ماجہ (1129)میں موجود ہے بوصیری نے کہا:

"ﻫﺬﺍ ﺇﺳﻨﺎﺩ ﻣﺴﻠﺴﻞ ﺑﺎﻟﻀﻌﻔﺎﺀ ﻋﻄﻴﺔ ﻣﺘﻔﻖ ﻋﻠﻰ ﺗﻀﻌﻴﻔﻪ ﻭﺣﺠـﺎﺝ ﻣﺪﻟـﺲ. ﻭﻣﺒﺸﺮ ﺑﻦ ﻋﺒﻴﺪ ﻛﺬﺍﺏ ﻭﺑﻘﻴﺔ ﻫﻮ ﺍﺑﻦ ﺍﻟﻮﻟﻴﺪ ﻳﺪﻟﺲ ﺗﺪﻟﻴﺲ ﺍﻟﺘﺴﻮﻳﺔ"

یہ سند ضعیف راویوں کے ساتھ مسلسل ہے عطیہ(العوفی)کے ضعیف ہونے پر(بوصیری کے نزدیک )اتفاق ہے حجاج (بن ارطاۃ)مدلس ہے اور مبشر بن عبید کذاب(جھوٹا)ہے اور بقیہ بن الولید تدلیس شیوخ (یعنی تدلیس تسویہ)کرتے تھے۔(زوائد ابن ماجہ ص175،ح373)

معلوم ہوا کہ یہ روایت مبشربن عبید کذاب کی وجہ سے موضوع ہے۔

لطیفہ:

ظفر احمد تھانوی دیوبندی نے ہیثمی کے کلام پر ضرب تقسیم کرتے ہوئے یہ جھوٹا دعویٰ کر دیا ہے کہ طبرانی کی سند میں حجاج بن ارطاۃ اور عطیہ العوفی کے علاوہ دوسرا کوئی متکلم فیہ راوی نہیں ہےدیکھئے اعلاء السنن (7ص14ح1763)

دیوبندی تقلیدی بیچارے کیا کریں؟ ان کے پاس اہل حدیث کے خلاف صرف موضوع اور مردود روایتوں کے علاوہ اور کیا ہے؟

تیسری روایت:

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"جمعہ کے دن جو نماز پڑھے وہ چار رکعات جمعہ سے پہلے پڑھے اور چار رکعات جمعہ کے بعد۔ (النجاربحوالہ کنزالعمال ج7ص749، حدیث اور اہل حدیث ص824)

یہ روایت بالکل بے سند ہے لہٰذامردود ہے۔سرفراز خان صفدر دیوبندی نے ایک روایت کے بارے میں کہا:"اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنے استدلال میں ان کے اثر کی کوئی سند نقل نہیں کی اور بے سند بات حجت نہیں ہو سکتی ۔"(احسن الکلام ج1ص327،دوسرانسخہ ج1ص403)

اگر بے سند بات حجت نہیں ہو سکتی تو تقلیدی حضرات ابن النجار کی طرف منسوب یہ بے سند روایت کیوں پیش کررہے ہیں؟مزید تفصیل کے لیے دیکھئے مولانا محمد داود ارشد حفظہ اللہ کی کتاب حدیث اور اہل تقلید (ج2ص601،602)

معلوم ہوا کہ تقلیدیوں کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی ایسی کوئی صحیح یا حسن حدیث نہیں جس سے یہ ثابت ہوتا کہ جمعہ کے فرضوں سے پہلے چار سنتیں موکدہ ہیں۔اس کے برعکس عام صحیح احادیث سے یہ ثابت ہے کہ جمعہ کے دن حالت خطبہ میں آنے والا دورکعتیں پڑھے اور خطبے سے پہلے آنے والے کو اختیار ہے کہ جتنی رکعتیں چاہے پڑھے۔

یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے کہ نام نہاد مفتی حضرات بغیر کسی تحقیق کے فتوے لگانا شروع کر دیں کہ اہل حدیث کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے۔

کیا ان لوگوں نے اپنے عقائد و بدعات پر کبھی غور کیا ہے؟ اُمت مسلمہ کو توصوفی دین میں پھنسانے والے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اور سیدنا علی رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  کو مشکل کشا سمجھنے والے خالق و مخلوق میں فرق مٹا دینے والے وحدت الوجود کا عقیدہ رکھنے والے اور قرآن وحدیث کی بے شمار مخالفتیں کرنے والے کس منہ سے یہ کہتے ہیں کہ اہل حدیث کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے؟!تفصیل کے لیے دیکھئے میری کتاب"بدعتی کے پیچھے نماز کا حکم"

کیا اس دن کا خوف نہیں جب ساری مخلوق قیامت کے دن رب العالمین کے دربار میں سر جھکائے کھڑی ہوگی؟ اس دن ہر آدمی اپنے سارے اعمال اپنے سامنے حاضر پائے گا اور دیوبندیوں کے خطرناک عقائد واور قرآن وحدیث کے مخالف نظریات میں سے فی الحال چار حوالے پیش خدمت ہیں۔

1۔گنگوہی نانوتوی اور تھانوی کے پیر حاجی امداداللہ نے لکھا ہے۔

"ظاہر میں بندہ اور باطن میں خدا ہوجاتا ہے۔"(کلیات امدایہ ص36)

یہ کہنا کہ بندہ بطن میں خدا ہو جاتا ہے۔ قرآن مجید کی کس آیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی کس صحیح حدیث یا امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  کے کس ثابت شدہ قول میں لکھا ہوا ہے؟ حوالہ پیش کریں۔

2۔محمد قاسم نانوتوی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو مدد کے لیے پکارتے ہوئے کہا:

"مدد کراےکرم احمدی کہ تیرے سوا                   نہیں ہے قاسم بیکس کا کوئی حامی کار"

(قصائد قاسمی قصیدہ بہاریہ درنعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ص8)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو مدد کے لیے پکارنا اور یہ عقیدہ رکھنا کہ آپ کے سوانانوتوی بیکس (بے یارومدد گار محتاج )کا کوئی بھی حامی کار نہیں تھا۔کس آیت حدیث یا قول امام ابو حنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ سے ثابت ہے؟

3۔رشید احمد گنگوہی نے اللہ تعالیٰ کو مخاطب کر کے لکھا :

"اور جو میں ہوں وہ توہے اور میں اور تو خود شرک در شرک ہے۔"

(فضائل صدقات حصہ دوم ص556مکاتیب رشید یہ ص10)

یہ کہنا کہ وہ جو تو (اللہ)ہے وہ میں(رشید احمد گنگوہی )ہوں)

کس آیت حدیث یا قول امام سے ثابت ہے؟

4۔اشرف علی تھانوی دیوبندی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو مدد کے لیے پکارتے ہوئے کہا:

"دستگیری کیجئے میرے نبی                              کشمکش میں تم ہی ہو میرے نبی"(نشر الطیب ص194)

یہ سمجھنا کہ کشمکش اور مصیبتوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم  ہی دستگیری فرماتے ہیں اور اسی طرح مدد کے لیے آپ کو پکارنا کس آیت حدیث یا قول امام ابو حنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ سے ثابت ہے؟

دیوبندیوں نے کبھی اپنے گریبانوں میں جھانک کر اپنا جائز ہ بھی لیا ہے یا بس دوسروں پر فتوے لگارہے ہیں؟!

خلاصۃ التحقیق:

دیوبندی تقلیدی مفتیوں(محمد ابراہیم حقانی ،غلام قادر نعمانی ، گل جمالی،انور شاہ عبدالحفیظ اور اصغر علی ربانی وغیرہ)کا اہل حدیث کے خلاف کذاب و مفتری سائلین کی جھوٹی سچی عبارتوں پر فتوی لگانا کہ اہل حدیث کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہےبالکل باطل اور مردود ہے۔وما علینا الا البلاغ۔

(20/ذوالقعدہ 1429ھ بمطابق 28/نومبر 2008ء)(حافظ زبیر علی زئی، مدرسہ اہل حدیث حضرو ۔ ضلع اٹک)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد1۔اصول، تخریج اورتحقیقِ روایات-صفحہ679

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ