السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جناب حبیب الرحمٰن اعظمی صاحب نے اپنی کتاب"رکعات تراویح "میں بیس رکعات تراویح پر اجماع کا دعوی کرتے ہوئے لکھا ہے۔"اس دعوے کو توڑنے کے لیے سارا زور صرف کرنے کے بعد اس کے سوااور کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا ایک قول گیارہ کا ہے لیکن اگر مطالبہ کر دیا جائے کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی طرف اس قول کو منسوب کرنے کی کونسی قابل اعتماد سند ہے۔ ان کے کس شاگرد نے اس کو روایت کی ہے اور وہ روایت کس مستند تصنیف میں ہے تو عجب نہیں کہ دن میں تارے نظر آنے لگیں۔"(ص76)جناب اعظمی صاحب کی یہ تعلی اور چیلنج کہاں تک صحیح ہے؟(ایک سائل)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حافظ ابو محمد عبد الحق بن عبد الرحمٰن الاشبلی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی581ھ) نے لکھا ہے۔"
"عن مالك أنه قال : الذي جمع عليه الناس عمر بن الخطاب أحب إلي ، وهو إحدى عشرة ركعة ، وهي صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم ، قيل له : إحدى عشرة ركعة بالوتر ؟ قال : نعم وثلاث عشرة قريب ، قال : ولا أدري من أين أحدث هذا الركوع الكثير ؟"
(کتاب التہجد لعبد الحق الاشبیلی دارلکتب العلمیہ بیروت لبنان ص176فقرہ 890،دوسرا نسخہ ص287،دارالوفاء للطباعۃ والنشر والتوزیع)
حافظ عبدالحق(ابن الخراط)صاحب احکام کبری وصغری کے بارے میں حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے۔"
"الامام الحافظ البارع المجود العلامة"
(سیرا علام النبلاءج21ص198)
"قال الحافظ أبو عبدالله البلنسي: كان فقيها، حافظا، عالما بالحديث وعلله، عارفا بالرجال" (ایضاً ص199)
امام ابو الولید یونس بن عبد اللہ بن محمد بن مغیث القرطبی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 429ھ) کے بارے میں حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
"الإمام الفقيه المحدث شيخ الأندلس قاضي القضاة بقية الأعيان" (سیرا علام النبلاءج17ص569)
ان کا شمار مالکی فقہاء میں ہوتا ہے۔(دیکھئے "الدیباج المذہب فی علماء المذہب" ج2ص374،376)
الشہب بن عبدالعزیز سنن ابی داؤد وغیرہ کے راوی تھے۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ثقہ فقیہ" (تقریب التہذیب:533)
ابن عبد الحکیم المالکی نے انھیں اجتہادی مسائل میں ابن القاسم پر ترجیح دی ہے۔(دیکھئےسیرا علام النبلاءج9ص501)
اب آپ خود فیصلہ کریں کہ دن میں تارے کسے نظر آتے ہیں؟
(ہفت روزہ الاعتصام لاہور 27/ جون 1997ء)
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب