سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(351) نومولود کے سر ہانے چاقو؟

  • 21244
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1013

سوال

(351) نومولود کے سر ہانے چاقو؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جب کسی کا بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے سر ہانے ایک چاقو رکھ دیتے ہیں۔کیا اسلام میں یہ جائز ہے؟(حاجی نذیر خان ، دامان حضرو)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نومولود بچے کے سرہانے چاقو رکھنے کا ثبوت کسی حدیث میں نہیں ہے۔بلکہ ثقہ تابعیہ  اُم علقمہ مرجانہ رحمہا اللہ سے روایت ہے کہ لوگوں کے جب بچے پیدا ہوتے تو (سیدہ)عائشہ( رضی اللہ  تعالیٰ عنہا  )کے پاس لائے جاتے آپ ان کے لیے برکت کی دعا فرماتی تھیں۔ پھر ایک بچہ لایا گیا تو وہ اس کا سرہانہ رکھنے لگیں کیا دیکھتی ہیں کہ اس کے نیچے ایک استرا ہے تو انھوں (سیدہ عائشہ رضی اللہ  تعالیٰ عنہا  )نے ان لوگوں سے استرا کے بارے میں پوچھا؟ لوگوں نے کہا ہم یہ استرا جنوں کی وجہ سے رکھتے ہیں۔(سیدہ عائشہ( رضی اللہ  تعالیٰ عنہا  )نے استرا لے کر دور پھینک دیا اور انھیں اس سے منع کر دیا۔انھوں نے فرمایا:بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  بدفالی کو برا سمجھتے تھے اور اس سے بغض رکھتے تھے۔(سیدہ عائشہ( رضی اللہ  تعالیٰ عنہا  )اس کام (استرارکھنے )سے منع کرتی تھیں۔(الادب المفرد للبخاری:912وسندہ حسن )

اس روایت کی سند حسن لذاتہ ہے۔ شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمۃ اللہ علیہ  نے منہج میں خطا کی وجہ سے اس روایت کو ضعیف الاسنا د قراردیا ہے۔ دیکھئے الادب المفرد بتحقیق الالبانی (ص319 لہٰذا اس روایت کے تین راویوں کا دفاع پیش خدمت ہے۔

1۔ام علقمہ مرجانہ رحمہا اللہ:

ان سے علقمہ بن ابی علقمہ(ثقہ)اور بکیر بن الاشج (ثقہ)دوراویوں نے حدیث بیان کی۔ دیکھئے تہذیب التہذیب (12/457دوسرا نسخہ 12/478)

حافظ ابن حبان البستی رحمۃ اللہ علیہ  نے انھیں کتاب الثقات (5/466)میں ذکر کیا اور صحیح ابن حبان (الاحسان : 3740)میں ان سے حدیث بیان کی۔ معتدل امام عجلی  رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:

"مدنیہ تابعیۃ ثقہ"وہ مدینے کی تابعیہ ثقہ تھیں۔(معرفۃ الثقات 2/461ح 23640)

امام ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ  (صحیح خزیمہ4/335ح3018،4/362ح3079)امام ترمذی (السنن :876)حاکم 1/488ح 1794) اور ذہبی   رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی بیان کردہ حدیث کو صحیح قرار دیا۔ امام امالک نے مؤطا رحمۃ اللہ علیہ  (1/242ح576)میں ان سے روایت لی۔

شیخ البانی  رحمۃ اللہ علیہ نے ایک راوی ضبہ بن محصن کے بارے میں کہا:

"وكذلك وثقه كل من صحح حديثه"

"اور اسی طرح پر اس نے اسے ثقہ قراردیا ہے جس نے اس کی حدیث کو صحیح کہا ہے۔(السلسلۃ الصحیحہ 7/16ح3007)

معلوم ہوا کہ مرجانہ کو عجلی ابن احبان  رحمۃ اللہ علیہ ، ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  ، ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ ، اور حاکم رحمۃ اللہ علیہ  نے ثقہ قراردیا ہے۔ذہبی کی جرح (لا تعرف ) ان کی توثیق سے معارض ہو کر ساقط ہے۔ رہا حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  کا اسے مقبولہ یعنی مجہولہ الحال کہنا تو یہ جمہور کی توثیق کے مقابلے میں مردود ہے۔

شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ  پر تعجب ہے کہ عجلی رحمۃ اللہ علیہ  ، ابن احبان  رحمۃ اللہ علیہ ، ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  ، ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ ، اور حاکم رحمۃ اللہ علیہ   کی توثیق کے باوجود مرجانہ مذکورہ کو مجہولہ سمجھتے تھے۔"

فائدہ:

تحریر تقریب التہذیب میں لکھا ہوا ہے۔

بل:صدوقة  حسنة الحديث"

بلکہ وہ سچی تھیں ان کی حدیث حسن ہے(4/433ت8680)

2۔عبد الرحمٰن بن ابی الزناد رحمۃ اللہ علیہ  جمہور محدثین کے نزدیک موثق ہونے کی وجہ سے صدوق حسن الحدیث تھے۔ دیکھئے میری کتاب"نور العینین"(ص115۔116)

3۔اسماعیل بن ابی اویس بقول راجح ضعیف راوی تھا لیکن امام بخاری  رحمۃ اللہ علیہ  کی اس سے روایت حسن یا صحیح ہوتی ہے کیونکہ امام بخاری  رحمۃ اللہ علیہ  نے اس کی اصل کتابوں سے روایتیں لکھی تھیں۔دیکھئے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  کی کتاب" ہدی الساری"(ص391)

خلاصۃ التحقیق :

 یہ روایت بلحاظ سند حسن لذاتہ ہے اور متن میں کوئی علت نہیں لہٰذا اس سے استدلال صحیح ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد1۔اصول، تخریج اورتحقیقِ روایات-صفحہ661

محدث فتویٰ

تبصرے