سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(350) عقیقہ اور اس کے بعض مسائل

  • 21243
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1639

سوال

(350) عقیقہ اور اس کے بعض مسائل

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا عقیقہ کرنا سنت ہے؟کیا امام ابو حنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ  عقیقے کو مکروہ کہتے تھے۔جیسا کہ مولوی غلام رسول سعیدی بریلوی نے شرح صحیح مسلم جلد نمبر 1صفحہ نمبر 43تا 45فرید بک سٹال لاہور میں وضاحت کی ہے۔کیا عقیقے میں اونٹ یا گائے کے اندر حصہ ڈال کر عقیقہ کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے علاقے میں احناف یہ فتویٰ دیتے ہیں کہ اونٹ اور گائے میں قربانی کی طرح عقیقے کے بھی سات پانچ چار وغیرہ حصے ڈالے جا سکتے ہیں؟کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں ۔(خرم ارشاد محمدی )


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

1۔عقیقہ کرنا سنت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَنْسُكَ عَنْ وَلَدِهِ ، فَلْيَنْسُكْ عَنْهُ ، عَنِ الْغُلامِ شَاتَانِ مُكَافَأَتَانِ ، وَعَنِ الْجَارِيَةِ شَاةٌ "

جو شخص اپنی اولاد کی طرف سے قربانی (عقیقہ )کرنا پسند کرے تو وہ قربانی کر لے ۔لڑکے کی طرف سے دو برابر بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری۔(سنن النسائی7/163)ح 4217)و سندہ حسن مسند احمد 2/182ح 6713وسندہ حسن وصححہ الحاکم 4/238ح7692)دوافقہ الذہبی)

اس حدیث میں" پسند کرے"کے الفاظ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ عقیقہ کرنا واجب نہیں بلکہ سنت مؤکدہ ہے دیکھئے التمہید للحافظ ابن البر(4/311)

نیز دیکھئے مؤطا امام مالک بتحقیقی (روایۃ عبد الرحمٰن بن القاسم :158)

حافظ ابن القیم الجوزیہ رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں۔

"فأمّا أهل الحديث قاطبةً، وفقهاؤهم، وجمهور أهل السّنة، فقالوا: هي من سنّة رسول الله صلّى الله عليه وسلّم "

"تمام اہل حدیث ان کے فقہاء اور جمہور اہل سنت کہتے ہیں۔یہ(عقیقہ )رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت ہے۔

(تحفۃ الودودباحکام المولود ص28الفصل الثالث فی ادلۃ الاستحباب )

امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا :عقیقہ واجب نہیں ہے لیکن اس پر عمل مستحب ہے اور ہمارے ہاں(مدینہ میں)لوگوں کا اسی پر عمل جاری رہا ہے

(المؤطا روایۃ یحییٰ 2/502)ح1109)

ابراہیم بن حارث بن خالد التیمی رحمۃ اللہ علیہ  عقیقے کو مستحب سمجھتے تھے اگرچہ ایک چڑیا ہی کیوں نہ ذبح کر دی جائے۔(المؤطا روایۃ یحییٰ بن یحییٰ 2/501ح 1107وسندہ صحیح)

عبد اللہ بن عبید اللہ بن ابی ملیکہ  رحمۃ اللہ علیہ  سے روایت ہے کہ (سیدنا )عبد الرحمٰن بن ابی بکر ( رضی اللہ  تعالیٰ عنہ ) کا بیٹا پیدا ہوا تو (ان کی بہن )عائشہ( رضی اللہ  تعالیٰ عنہا   )سے کہا گیا:اے اُم المومنین  رضی اللہ  تعالیٰ عنہا  !آپ اس کی طرف سے اونٹ ذبح کریں۔انھوں نے فرمایا:معاذ اللہ! لیکن (وہ ذبح کریں گے)جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:دو سالم برابر بکریاں۔(السنن الکبری للبیہقی 9/301وسندہ صحیح )

2۔محمد بن حسن الشیبانی نے قاضی ابو یوسف سے ان نے (امام )ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  سے نقل کیا ہے کہ:

ولا يعق عن الغلام ولاعن الجارية"

نہ تو لڑکے کی طرف سے عقیقہ کرنا چاہیے اور نہ لڑکی کی طرف سے(الجامع الصغیر ص534)

یہ سند صحیح نہیں ہے لہٰذا امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  سے یہ قول ثابت نہیں ہے۔اس کے باوجود ملا کاسانی نے بدائع الصنائع(5/69)میں اسی کی حمایت کی ہے اور فتاوی عالمگیری (5/362)میں لکھا ہوا ہے کہ یہ اس کے مکروہ ہونے کی طرف اشارہ ہے۔!

نیز دیکھئے المؤطا المنسوب الیٰ محمد الیٰ محمد بن الحسن الشیبانی ص88،89)

غلام رسول سعیدی بریلوی لکھتے ہیں۔"احادیث صحیحہ میں عقیقہ کی فضیلت اور استحباب کو بیان کیا گیا ہے لیکن غالباً یہ احادیث امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  اور صاحبین کو نہیں پہنچیں ، کیونکہ انھوں نے عقیقہ کرنے سے منع کیا ہے۔"(شرح صحیح مسلم ج1ص43)

سعیدی صاحب مزید لکھتے ہیں ۔"اگر کوئی شخص تقلید محض کی پستی سے نہیں نکلا تو اس کو عقیقہ کرنے سے منع کرناچاہیے یا کم ازکم یہ کہنا چاہیے کہ عقیقہ مباح ہے اور کارثواب نہیں ہے اور اس کو یہ نہیں چاہیے کہ امام اعظم کے قول کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال کر یہ کہے کہ امام اعظم کے نزدیک عقیقہ سنت ہے لیکن سنت موکدہ یا سنت ثابتہ نہیں ہے۔ اور اگر وہ میدان تحقیق میں وارد ہے تو اس کو یہ کہنا چاہیے کہ عقیقہ سنت اور مستحب ہے کیونکہ احادیث صحیحہ میں اس کا ثبوت ہے اور تمام امت نے ان احادیث کو قبول کیا ہے اور امام اعظم کو یہ احادیث نہیں پہنچیں ورنہ وہ عقیقہ کو مکروہ نہ کہتے کیونکہ اس زمانہ میں نشرواشاعت کے ذرائع اور وسائل اتنے میسر نہیں تھے جتنے اب ہیں۔یہاں امام کے قول کے خلاف حدیث پر عمل کرنا تقلید کے خلاف نہیں ہے۔"(شرح صحیح مسلم ج1ص45)

3۔عقیقہ میں صرف بکری بکرایا مینڈھا ہی ثابت ہے۔ ابراہیم بن الحارث التیمی کا قول مبالغے پر محمول ہے اور صحیح یہ ہے کہ گائے اونٹ وغیرہ کا عقیقے میں ذبح کرنا ثابت نہیں ہے۔جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ  تعالیٰ عنہا   کے قول"معاذ اللہ "سے ثابت ہے لہٰذا جو لوگ اونٹ یا گائے میں قربانی کی طرح عقیقے کے بھی سات پانچ یا چار وغیرہ حصے بنا لیتے ہیں، ان کا عمل غلط ہے اور سنت کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔(19/جون 2008ء)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد1۔اصول، تخریج اورتحقیقِ روایات-صفحہ658

محدث فتویٰ

تبصرے