سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(348) قربانی کا جانور خریدنے کے بعد نقص/اجماع اور اجتہاد

  • 21241
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-04
  • مشاہدات : 1068

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگر کوئی شخص قربانی کے لیے جانور خریدے جانور خریدنے کے بعد اس کے اندر عیب پیدا ہو جائے مثلاً اس کی ٹانگ ٹوٹ جائے یا کانا ہو جائے تو ایسی صورت میں کیا کرنا چاہیے۔یا وہی جانور قربان کر دیا جائے۔ قرآن و حدیث آثار صحابہ اور اجماع امت کی روشنی میں جواب ارشاد فرمائیں اور یہ بھی وضاحت فرمائیں۔کہ کیا اہلحدیث اجماع امت اور اجتہاد شرعی کے قائل ہیں۔ اجماع و اجتہاد کا حجت ہونا کس دلیل سے ثابت ہے ؟ جواب مفصل تحریر فرمائیں۔(خرم ارشاد محمدی گجرات)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ بات بالکل صحیح ہے کہ کانے یا لنگڑے جانور کی قربانی جائز نہیں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"أَرْبَعَةٌ لَا يَجْزِينَ فِي الْأَضَاحِيِّ : الْعَوْرَاءُ الْبَيِّنُ عَوَرُهَا ، وَالْمَرِيضَةُ الْبَيِّنُ مَرَضُهَا ، وَالْعَرْجَاءُ الْبَيِّنُ ظَلْعُهَا ، وَالْكَسِيرَةُ الَّتِي لَا تُنْقِي"

چار جانوروں کی قربانی جائز نہیں ہے واضح طور پر کانا واضح طور پر بیمار ، صاف طور پر لنگڑا اور اتنا کمزور جانور کہ اس کی ہڈیوں میں گودا نہ ہو۔

(سنن ابی داود 2802،وسندہ صحیح و صححہ الترمذی : 1497،وابن خزیمہ: 2912وابن حبان:1046،1047،وابن الجارود 481،907والحالم 1/467دوافقہ الذہبی)

یہ اس حالت میں ہے جب قربانی کے لیے جانور خریدا جائے۔

اگر ان عیوب سے صاف ستھرا جانور برائے قربانی خریدا گیا ہو اور بعد میں اس میں کوئی عیب پیدا ہو جائے تو اس کے بارے میں سیدنا عبد اللہ بن الزبیر رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  فرماتے ہیں۔

"ان كان اصابها بعد ما اشتر يتموها فأمضوها وان كان اصابها بل أن تشتروها فأبدلوها"

"اگر یہ نقص و عیب تمھارے خریدنے کے بعد واقع ہوا ہے تو اس کی قربانی کر لو اور اگر یہ نقص وعیب تمھارے خریدنے سے پہلے واقع ہوا تھا تو اس جانور کو بدل لو یعنی دوسرےجانور کی قربانی کرو۔(السنن الکبری ج9ص289وسندہ صحیح)

اہل سنت کے مشہور ثقہ امام اور جلیل القدر تابعی امام ابن شہاب الزہری رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:

"اگر کوئی شخص قربانی کا جانور خریدے پھر وہ اس کے پاس بیمار ہو جائے تو اس جانور کی قربانی جائز ہے۔"(مصنف عبد لرزاق 4/386ح8161وسندہ صحیح، دوسرا نسخہ :8192)

خلاصہ یہ کہ صورت مسئولہ میں قربانی والے جانور کی قربانی جائز ہے۔

الحمد للہ اہل حدیث اجماع امت کے حجت ہونے اور اجتہاد شرعی کے جائز ہونے کے قائل ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"لَا يَجْمَعُ أُمَّتِي أَوْ قَالَ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ضَلَالَةٍ وَيَدُ اللَّهِ مَعَ الْجَمَاعَةِ"

اللہ میری امت کو کبھی گمراہی پر جمع نہیں کرے گا اور اللہ کا ہاتھ جماعت (یعنی اجماع ) پر ہے۔(المستدرک للحاکم ج1ص116ح299وسندہ صحیح)

اس حدیث سے حاکم نیشاپوری نے اجماع کے حجت ہونے پر استدلال کیا ہے۔

سیدنا عمر رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  نے قاضی شریح   رحمۃ اللہ علیہ  کی طرف لکھ کر بھیجا تھا اگر کتاب اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت میں بھی نہ ملے تو دیکھنا کہ کس بات پر لوگوں کا اجماع ہے پھر اسے لے لینا۔

(مصنف ابن ابی شیبہ ج7ص240ح22980الدارمی169،ماہنامہ الحدیث حضرو:37ص48)

سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  نے فرمایا:

"فَمَا رَأَى الْمُسْلِمُونَ حَسَنًا فَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ حَسَنٌ ، وَمَا رَأَوْا سَيِّئًا فَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ سَيِّئٌ "

"تمام مسلمان جسے اچھا سمجھیں تو وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھا ہے اور جسے تمام مسلمان برا سمجھیں تو وہ اللہ کے نزدیک بھی برا ہے۔(المستدرک للحاکم 3/78ح4465)و سندہ حسن و صححہ الحاکم دوافقہ الذہبی)

سیدنا ابو مسعود عقبہ بن عمرو الانصاری  رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  نے فرمایا:

"عليكم بتقوى الله ، وهذه الجماعة ، فإن الله لا يجمع أمة محمد  صلي الله عليه وسلم على ضلالة"

"میں تجھے اللہ کے تقویٰ اور جماعت (اجماع)کے لازم پکڑنے کی وصیت کرتا ہوں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  کی امت کو کبھی گمراہی پر جمع نہیں کرے گا۔ (الفقیہ والمنفقہ للخطیب 1/167،وسندہ صحیح)

امام محمد بن ادریس الشافعی رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی مشہور کتاب الرسالہ میں حجت اجماع پر دلائل ذکر کئے ہیں۔ دیکھئے ص471۔476فقرہ 1309تا 1320)

حافظ ابن حزم اندلسی اپنے غرائب وشذوذ کے باوجود اعلان فرماتے ہیں:

"أن الإجماع من علماء أهل الإسلام حجة وحق مقطوع به في دين الله عز وجل"

علمائے اہل اسلام کا اجماع حجت اور اللہ کے دین میں قطعی حق ہے۔(الاحکام فی اصول الاحکام جلد اول حصہ چہارم ص525)

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  کے مشہور ثقہ استاذ امام ابو عبید القاسم بن سلام فرماتے ہیں۔

"الا ان يوجد علمه في كتاب اوسنة او اجماع"

سوائے یہ کہ اس کا علم کتاب (قرآن) یا سنت (حدیث ) یا اجماع میں پایا جائے۔(کتاب الطہورللامام ابی عبید ص124قبل ح 335)

اس طرح کے بے شمار حوالے کتب حدیث وغیرہ میں مذکور ہیں۔ برصغیر کے اہل حدیث علماء بھی اجماع کو حجت تسلیم کرتے ہیں مثلاً سید نذیر حسین دہلوی رحمۃ اللہ علیہ  کے شاگرد حافظ عبد اللہ غازیپوری  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں۔

"واضح رہے کہ ہمارے مذہب کا اصل الاصول صرف اتباع کتاب و سنت ہے۔"

"اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ اہل حدیث کو اجماع امت و قیاس شرعی سے انکار ہے۔ کیونکہ جب یہ دونوں کتاب و سنت سے ثابت ہیں تو کتاب و سنت کے ماننے میں ان کا مانناآگیا۔"

(ابراء اہل حدیث والقرآن باب اہل حدیث کے اصول و عقائد ص32)

معلوم ہوا کہ اہل حدیث کے نزدیک ہر دور میں امت مسلمہ کا اجماع شرعی حجت ہے۔اجتہاد کا جواز کئی احادیث سے ثابت ہے مثلاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کی ایک جماعت کو حکم دیا ۔

"لايصلين أحد العصر إلا في بني قريظة"

"بنو قریظہ کے پاس پہنچنے سے پہلے عصر کی نماز کوئی نہ پڑھے"

صحابہ کی ایک جماعت نے(اجتہاد کرتے ہوئے)راستے میں نماز پڑھ لی اور دوسرے گروہ نے بنو قریظہ جا کر ہی نماز پڑھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے کسی کو بھی برا نہیں کہا: (صحیح بخاری :946صحیح مسلم :1770)

معلوم ہوا کہ نص (واضح دلیل: قرآن حدیث اور اجماع)نہ ہونے یا نص کے فہم میں اختلاف ہونے کی صورت میں اجتہاد جائز ہے لیکن یہ اجتہاد عارضی اور وقتی ہوتا ہے اسے دائمی قانون کی حیثیت نہیں دی جا سکتی۔

اجتہاد کی کئی اقسام ہیں۔ مثلاً

1۔آثا ر سلف صالحین کو ترجیح دینا۔

2۔اولیٰ کو اختیار کرنا۔

3۔قیاس کرنا(نص کے مقابلے میں ہر قیاس مردود ہے)

4۔مصالح مرسلہ کا خیال رکھنا وغیرہ۔

بعض اہل تقلید دعوی تو یہ کرتے ہیں کہ ادلہ اربعہ چار ہیں یعنی قرآن ، حدیث، اجماع اور اجتہاد لیکن یہ لوگ صرف اپنے خود ساختہ اور مزعوم امام کا اجتہاد ہی حجت سمجھتے ہیں اور اس کے علاوہ دوسرے تمام اماموں کے اجتہادات کودیوار پردے مارتے ہیں۔ مثلاً مدرسہ دیوبند کے بانی محمد قاسم نانوتوی صاحب نے ایک اہل حدیث عالم مولانا محمد حسین بٹالوی  رحمۃ اللہ علیہ  سے کہا:"دوسرے یہ کہ میں مقلد امام ابو حنیفہ کا ہوں اس لیے میرے مقابلہ میں آپ جو قول بھی بطور معارضہ پیش کریں وہ امام ہی کا ہونا چاہیے۔ یہ بات مجھ پر حجت نہو گی کہ شامہ نے یہ لکھا ہے اور صاحب درمختار نے یہ فرمایا ہے میں ان کا مقلد نہیں۔"(سوانخ قاسمی ج2ص22)

محمود حسن دیوبندی صاحب لکھتے ہیں۔"لیکن سوائے امام اور کسی کے قول سےہم پر حجت قائم کرنا بعید از عقل ہے۔"(ایضا حالادلہ ص276سطر نمبر20،19)

احمد یار خان نعیمی بریلوی صاحب لکھتے ہیں۔

"کیونکہ حنفیوں کے دلائل یہ روایتیں نہیں ان کی دلیل صرف قول امام ہے۔(جاء الحق حصہ دوم ص9)

نعیمی صاحب مزید لکھتے ہیں۔"اب ایک فیصلہ کن جواب عرض کرتے ہیں۔ وہ یہ ہے کہ ہمارے دلائل یہ روایات نہیں،ہماری اصل دلیل تو امام اعظم ابو حنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ  کا فرمان ہے ہم یہ آیت و احادیث مسائل کی تائید کے لیے پیش کرتے ہیں۔ احادیث یا آیات امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  کی دلیلیں ہیں۔(جاء الحق حصہ دوم ص91)

اہل حدیث کے نزدیک اس طرح کی تنگ نظری اور تقلید باطل ہے بلکہ مسائل اجتہاد یہ میں جمہور سلف صالحین کو ترجیح دیتے ہوئے اجتہاد جائز ہے جو شخص اجتہاد نہیں کرتا وہ بھی قابل ملامت نہیں ہے لیکن ہم تو واضح دلیل نہ ہونے کی صورت میں اجتہاد اور اس کے جواز کے قائل ہیں۔وماعلینا الا البلاغ۔(19/جون 2008ء)(الحدیث:52)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد1۔اصول، تخریج اورتحقیقِ روایات-صفحہ653

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ