السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا سفر میں امیر بنانا جائز ہے؟(خورشید احمد قصوری)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سفر میں امارت کے بارے میں پانچ مرفوع احادیث مروی ہیں جن میں سے ایک بھی صحیح حدیث ثابت نہیں ہے۔ ان روایات کی تفصیل درج ذیل ہے۔
1۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو بن العاص رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
امام احمد ابن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
"حَدَّثَنَا حَسَنٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ هُبَيْرَةَ، عَنْ أَبِي سَالِمٍ الْجَيْشَانِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "لا يَحِلُّ أَنْ يَنْكِحَ الْمَرْأَةَ بِطَلاقِ أُخْرَى، وَلا يَحِلُّ لِرَجُلٍ أَنْ يَبِيعَ عَلَى بَيْعِ صَاحِبِهِ حَتَّى يَذَرَهُ، وَلا يَحِلُّ لِثَلاثَةِ نَفَرٍ يَكُونُونَ بِأَرْضِ فَلاةٍ إِلاَّ أَمَّرُوا عَلَيْهِمْ أَحَدَهُمْ"
(سیدنا)عبد اللہ بن عمرو بن العاص( رضی اللہ تعالیٰ عنہ )سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تین آدمیوں کے لیے جو ویرانے بیابان میں رہتے ہیں حلال نہیں ہے مگر یہ کہ آپس میں سے ایک کو امیر بنا دیں یعنی امیر کے بغیر ان کے لیے رہنا حلال نہیں ہے۔(مسند احمد 2/177ح6647)
اس روایت کی سند ابن لہیعہ کے اختلاط کی وجہ سے ضعیف ہے۔ ابن لہیعہ کے بارے میں تحقیق یہ ہے کہ وہ آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہو گئے تھے لہٰذا اختلاط کے بعد ان کی ساری روایات(تفرد کی صورت میں)ضعیف ہیں چاہے انھوں نے سماع کی تصریح کی ہو یا نہ کی ہو۔
اختلاط سے پہلے وہ حسن الحدیث تھے لہٰذا ان کی اختلاط سے پہلے والی روایت حسن ہوتی ہے بشرطیکہ سماع کی تصریح کریں کیونکہ ان کا تدلیس کرنا بھی ثابت ہے۔
درج ذیل شاگردوں نے ان سے اختلاط سے پہلے سنا ہے۔
عبد اللہ بن المبارک ، عبد اللہ بن یزید المقری رحمۃ اللہ علیہ ، عبد اللہ بن وہب رحمۃ اللہ علیہ ، عبداللہ بن مسلمہ العقنبی رحمۃ اللہ علیہ یحییٰ بن اسحاق رحمۃ اللہ علیہ ، السلیحسینی رحمۃ اللہ علیہ ،ولید بن مزید رحمۃ اللہ علیہ ، عبدالرحمٰن بن مہدی رحمۃ اللہ علیہ ، اسحاق رحمۃ اللہ علیہ ، بن عیسیٰ رحمۃ اللہ علیہ ، سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ ،شعبہ رحمۃ اللہ علیہ ، اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ ،عمروبن الحارث رحمۃ اللہ علیہ المصری،لیث بن سعد رحمۃ اللہ علیہ اور بشر بن بکر رحمۃ اللہ علیہ ۔
دیکھئے میری کتاب الفتح المبین فی تحقیق طبقات المدلسین (ص77، 78)
روایت مذکورہ بالا میں ابن لہیعہ سے راوی الحسن بن موسیٰ الاشعیب ہیں جن کا سماع قبل از اختلاط معلوم نہیں ہے۔ لہٰذا یہ سند ضعیف ہے۔
شیخ محمد ناصر الدین الالبانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس روایت کو ضعیف قراردیا ہے۔
دیکھئے السلسلۃ الضعیفۃ (حدیث : 589)
(2) عَنْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
عمار بن خالد الواسطیٰ نے کہا:
"ثنا أَبُو مُحَمَّدٍ الْقَاسِمُ بْنُ مَالِكٍ الْمُزَنِيُّ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: «إِذَا كَانَ نَفَرٌ ثَلاثَةٌ فَلْيُؤَمِّرُوا أَحَدَهُمْ ذَاكَ أَمِيرٌ أَمَّرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"
(سیدنا ) عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:اگر تین آدمی ہوں تو ایک کو امیر بنا لیں۔ یہ وہ امیر ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر کیا ہے۔
(صحیح ابن خزیمہ 4/141ح 2541البحرالزخارللبراز 1/462ح 1329)کشف الاستار 2/266،672المستدرک للحاکم 1/444ح 1642)وصححہ علی شرط الشیخین دوافقہ الذہبی رحمۃ اللہ علیہ )یہ روایت مجمع الزوائد (5/255) اور کتاب العلل للدارقطنی(2/151سوال:176)میں بھی مذکور ہے۔
اس روایت کی سند میں سلیمان بن مہران الاعمش مشہور مدلس ہیں۔(دیکھئے الفتح المبین ص43) اور یہ روایت عن سے ہے لہٰذا یہ سند ضعیف ہے،
مدلس راوی کے بارے میں تین باتیں ہمیشہ مد نظر رکھیں۔
اگر مدلس راوی ثقہ و صدوق ہو تو اس کی تصریح بالسماع والی روایت صحیح یا حسن ہوتی ہے ۔
صحیح بخاری و صحیح مسلم میں مدلس راوی کی ہر روایت صحیح ہوتی ہے کیونکہ صحیحین کو تلقی بالقبول حاصل ہے اور مدلسین کی روایات سماع اور متابعات پر محمول ہیں۔
اگر مدلس راوی سماع کی تصریح نہ کرے بلکہ عن وغیرہ سے روایت کرے۔ تو اس کی روایت غیر صحیحین میں ضعیف ہوتی ہے۔
(3)۔ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
حاتم بن اسماعیل نے کہا:
"محمد بن عجلان فرواه مرة عن نافع عن أبي سلمة عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ : أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : إِذَا خَرَجَ ثَلَاثَةٌ فِي سَفَرٍ فَلْيُؤَمِّرُوا أَحَدَهُمْ "
(سیدنا )ابو سعید الخدری( رضی اللہ تعالیٰ عنہ )سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جب تین آدمی سفر کے لیے نکلیں تو ایک کوامیر بنا لیں۔
(سنن ابی داؤد :2608، مسند ابی یعلیٰ 2/319، ح 1054،2/511ح 1359، السنن الکبری للبیہقی 5/257)یہ روایت السلسلۃ الصحیحہ(3/314ح 1322) میں بھی مذکور ہے۔
اس روایت کی سند میں محمد بن عجلان مدلس ہیں۔
(طبقات المدلسین للحافظ ابن حجر /المرتبہ الثالثہ 3/98الفتح المبین ص60)
طحاوی نے بھی انھیں مدلس قراردیا ہے۔ (دیکھئے مشکل الآثار 1/101)طبع قدیم طبع جدید 1/237،ح261)
چونکہ یہ روایت عن سے ہے لہٰذا یہ سند ضعیف ہے۔
4۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
حاتم بن اسماعیل نے کہا:
"محمد بن عجلان فرواه مرة عن نافع عن أبي سلمة عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ : أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : إِذَا كَانَ ثَلَاثَةٌ فِي سَفَرٍ فَلْيُؤَمِّرُوا أَحَدَهُمْ "
(سیدنا)ابو ہریرہ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ )سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اگر سفرمیں تین آدمی نکلیں تو ایک کوامیر بنا لیں۔(سنن ابی داود :2609،السنن الکبری للبیہقی 5/257)
اس روایت کی سند میں محمد بن عجلان مدلس کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے۔
محدث بزار کہتے ہیں:
"عَن أَبِي سَلَمَة ، عَن أَبِي هُرَيرة ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا سَافَرْتُمْ فَلْيَؤُمَّكُمْ أَقْرَؤُكُمْ ، وَإِنْ كَانَ أَصْغَرَكُمْ ، وَإِذَا أَمَّكُمْ فَهُوَ أَمِيرُكُمْ"
جب تم سفر کرو تو تمھارا سب سے بڑا قاری تمھیں نماز پڑھائے۔اگرچہ وہ سب سے چھوٹا ہو۔ جب وہ تمھارا امام بن جائے تو وہی تمھارا امیر ہے۔
(کشف الاستار للبزار 2/266ح1671)
اس روایت میں محمد بن جمیل جند یسار پوری مجہول الحال راوی ہے جس کے حالات نہیں ملے۔یہ وہ محمد بن جمیل نہیں ہے جسے ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الثقات (9/97)میں ذکر کیا ہے باقی حسن ہے۔ اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے۔"اس میں ایسا راوی ہے جسے میں نہیں جانتا۔(مجمع الزوائد5/255)
مجہول الحال راوی کی روایت ضعیف ہوتی ہے لہٰذا یہ روایت بھی ضعیف ہے۔
5۔ عن عبدالله بن عمرو رضي الله عنه
بزار رحمۃ اللہ علیہ نے کہا:
"حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُسْتَمِرِّ، ثنا عُبَيْسُ بْنُ مَرْحُومٍ، ثنا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنِ ابْنِ عَجْلانَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، : أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : إِذَا كَانَ ثَلَاثَةٌ فِي سَفَرٍ فَلْيُؤَمِّرُوا أَحَدَهُمْ"
(سیدنا) ابن عمر( رضی اللہ تعالیٰ عنہ )سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب سفرمیں تین آدمی ہوں تو ایک کوامیر بنا لیں۔(کشف الاستار2/267ح1673)
اس روایت محمد بن عجلان کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے۔
سفر میں امیر بنانے والی تمام مرفوع روایات ضعیف یعنی مردود ہیں لہٰذا امارت سفر کو واجب یا بہتر قراردینا غلط ہے۔
بعض لوگ ضعیف +ضعیف کرتے ہوئے ضعیف و مردود روایات کو جمع تفریق کے حساب سے حسن لغیرہ بنالیتے ہیں بشرطیکہ یہ عمل ان کی خواہشات کے مطابق ہو ورنہ اگر ایسی روایت ان کی مرضی کے خلاف ہو تو اللہ کی مخلوق میں سب سے زیادہ حسن لغیرہ کو ترک کرنے والے یہی لوگ ہوتے ہیں صحیح تحقیق یہ ہے کہ ضعیف روایت ضعیف ہی رہتی ہےچاہے اس کی بہت سی سند یں ہوں اور صحیح روایت صحیح ہی ہوتی ہے چاہے اس کی صرف ایک ہی سند ہو۔حسن لغیرہ کو حجت سمجھنے والے سے اپنے مخالفین کی ایسی بہت سی روایتوں کو رد کر دیتے ہیں جو ان لوگوں کے اپنے اصول پر بھی حسن لغیرہ ہی بنتی ہیں۔!!
علی بن الجعد فرماتے ہیں:
"حَدَّثَنَا عَلِيٌّ، أنا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي الأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: «إِذَا كُنْتُمْ ثَلاثَةً فِي سَفَرٍ، فَأَمِّرُوا أَحَدُكُمْ، وَلا يُنَاجِ الرَّجُلُ الرَّجُلَ دُونَ صَاحِبِهِ"
(سیدنا) عبد اللہ (بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ )نے فرمایا:اگر تم سفر میں تین آدمی ہو تو ایک کو امیر بنا لیا کرو۔(مسند علی الجعد 1/372،ح443 وسندہ صحیح دوسرا نسخہ :430)
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ اسے طبرانی نے عمرو بن مرزوق:"انا شعبۃ الخ"کی سند سے بیان کیا ہے۔دیکھئےالمعجم الکبیر9/208ح 8915)
جلیل القدر صحابی کے اس فتوے سے معلوم ہوا کہ سفر میں امیر بنانا جائز ہے۔
سفر میں امارت کے جواز پر قیاس کر کے کاغذی تنظیمیں بنانا اور اپنی تنظیم یا پارٹی کا امیر بن کر بیٹھ جانا اور پھر یہ دعویٰ کرنا کہ جس نے ہمارے امام یا امیر کی بیعت نہ کی تو وہ جاہلیت کی موت مر جائے گا۔ بہت بڑا دھوکا اور فراڈ ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ تمام مسلمانوں کو کاغذی و نام نہاد تنظیموں ،پارٹیوں اور کاغذی امیروں سے محفوظ رکھے جو خلافت اور امارت کبری والی روایات و دلائل کو اپنے آپ پر فٹ کر دیتے ہیں۔
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں تجھے کیا پتا ہے کہ امام کسے کہتے ہیں ؟ جس پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہو جائے ہر آدمی یہی کہے کہ یہ امام (خلیفہ)ہے۔(سوالات ابن بانی: 2011الحدیث 26ص29،علمی مقالات ج1ص403)(10/جولائی 2008ء)(الحدیث :53)
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب