سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(337) بیوی اور شوہر کی مدت جدائی؟

  • 21230
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 961

سوال

(337) بیوی اور شوہر کی مدت جدائی؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک مشہور واقعہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  اپنے دور خلافت میں ایک گھر کے پاس سے گزرے تو ایک عورت اشعار پڑھ رہی تھی کہ آج میرے خاوند جہاد پر گئے ہیں۔ اگر مجھے شریعت کا ڈر نہ ہوتا تو میرے بستر پر آج کوئی مرد ہوتا ،حضرت عمر رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  نے سنا تو اپنی بیٹی کے پاس گئے اور جا کر پوچھا کہ اے میری بیٹی ایک عورت اپنے خاوند کے بغیر کتنا عرصہ گزار سکتی ہے؟تو انھوں نے کہا کہ دو ماہ یا زیادہ سے زیادہ چارماہ۔ تو حضرت عمر رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  نے اپنے دور میں قانون بنادیا کہ کوئی مرد مجاہد چار ماہ سے زائد گھر سے باہر نہ رہے بلکہ وہ چھٹی لے کر گھر آئے اور اپنے حقوق زوجیت ادا کرے۔

کیا یہ واقعہ صحیح اسناد سے ثابت ہے؟ اگر یہ واقعہ صحیح ہے تو پھر بہت سارے مجاہدین اور تبلیغی جماعت والے سال کے لیے یادو سال کے لیے گھر سے نکل جاتے ہیں وہ تو ان حقوق کو پورا نہیں کرتے۔اس واقعہ کا حوالہ بھی دیں کہ یہ کون سی کتاب میں ہے۔(خرم ارشاد محمدی دولت نگر)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس مفہوم کا اثر حافظ ابن کثیر نے مؤطا امام مالک سے بسند عمرو بن دینار عن عمر بن الخطاب  رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  نقل کیا ہے۔(تفسیر ابن کثیر 1/541، سورۃ البقرۃ :227)

یہ اثر مؤطا امام مالک میں نہیں ملا۔دوسرے یہ کہ عمرو بن دینار نے سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  کو نہیں پایا۔ دیکھئے تحفۃ الاشراف (8/94ح 20613)ولفظہ عمروبن دینار المکی الاثرم عن عمر ۔ولم یدرکہ )

بیہقی نے اسماعیل بن ابی اویس:

"حدثني مالك عن عبدالله بن دينار عن ابن عمر رضي الله عنه قال:خرج عمر بن الخطاب رضي الله عنه من الليل فسمع امراة تقول....."الخ کی سند سے اس کی ہم معنی روایت بیان کی ہے(السنن الکبری9/29)

اس کی سند اسماعیل بن ابی اویس کی وجہ سے ضعیف ہے۔

تفسیر ابن کثیر میں اس کا ایک ضعیف شاہد بھی ہے۔(1/541)

مصنف عبدالرزاق (1/150،151ح12593،12594)اور المحلی لا بن حزم (10/40مسئلہ :1886)وغیرہم میں اس مفہوم کی دوسری سندیں بھی ہیں جو سب کی سب ضعیف ہیں لہٰذا یہ قصہ یا سند صحیح یا حسن ثابت نہیں بلکہ ضعیف ہے۔ واللہ اعلم۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد1۔اصول، تخریج اورتحقیقِ روایات-صفحہ623

محدث فتویٰ

تبصرے