سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(329) نماز اور کفارہ گناہ

  • 21222
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 640

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک روایت میں آیا ہے کہ:

"حدثني عبد الله بن أحمد بن شبويه قال ، حدثنا إسحاق بن إبراهيم قال، حدثني عمرو بن الحارث قال، حدثني عبد الله بن سالم، عن الزبيدي قال ، حدثنا سليم بن عامر، أنه سمع أبا أمامة يقول: إن رجلا أتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله ، أقم فيَّ حَدّ الله ، مرةً واثنتين. فأعرض عنه رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم أقيمت الصلاة ، فلما فرغ رسول الله صلى الله عليه وسلم من الصلاة، قال: أين هذا القائل: أقم فيَّ حدَّ الله؟ قال: أنا ذا ! قال: هل أتممت الوضوء وصليت معنا آنفا؟ قال: نعم! قال: فإنك من خطيئتك كما ولدتك أمّك، فلا تَعُدْ ! وأنـزل الله حينئذ على رسوله: (أقم الصلاة طرفي النهار وزلفًا من الليل"

(سورۃ ہود آیت 114،تفسیر الطبری 6/133)(محسن سلفی کراچی)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حدیث مذکور تفسیر ابن جریر(ج12ص82)اور تفسیر ابن کثیر (ج4ص288وفی نسخہ آخری ج2ص480بحوالہ ابن جریر )میں موجود ہے۔ اس روایت کی سند حسن لذاتہ ہے۔ سلیم بن عامر الخبائری صحیح مسلم وغیرہ کے راوی اور ثقہ تھے۔ تقریب التہذیب ص132محمد بن ولید بن عامرالزبیدی صحیحین کے راوی اور "ثقہ ثبت من کبار اصحاب الزہری "تھے۔ (التقریب ص322)

عبد اللہ بن سالم الاشعری صحیح بخاری کے راوی تھے ۔ یحییٰ بن حسان اور عبد اللہ بن یوسف نے ان کی تعریف کی۔ نسائی نے کہا:"لیس به بس"اور ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ  نے ثقہ قراردیا۔ دارقطنی  رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی توثیق کی۔ دیکھئے تہذیب التہذیب (5/400)وغیرہ

ذہبی  رحمۃ اللہ علیہ نے کہا:"صدوق فیه نصب" (الکاشف2/80)

ابن حجر  رحمۃ اللہ علیہ نے کہا:"ثقہ رمی بالنصب"(التقریب ص174)

نصب کا الزام مردود ہے جیسا کہ آگے آرہا ہے۔ ابن خزیمہ (571)ابن حبان (الموارد:462الاحسان: 1803)حاکم 1/223)ذہبی دارقطنی(1/335) بیہقی (التلخیص الحبیر 1/236) اور ابن القیم (اعلام الموقعین 2/397)نے اس روایت کی تصحیح یا تحسین کی جو کہ توثیق کی ہی ایک قسم ہے۔

ان کے مقابلے میں ابو عبید الآجری نے ابو داود رحمۃ اللہ علیہ  سے نقل کیا کہ وہ کہتا تھا۔

"علی نے ابو بکر و عمر کے قتل پر اعانت کی ہے اور ابو داود رحمۃ اللہ علیہ  اس کی مذمت کرتے تھے۔"

یہ جرح کئی لحاظ سے مردود ہے۔

1۔یہ جرح جمہور محدثین کی توثیق کے خلاف ہے۔

2۔ اس کا تعلق روایت حدیث سے نہیں بلکہ عقائد سے ہے۔

3۔ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ  کی عبد اللہ بن سالم الاشعری  رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ وہ ان کی پیدائش سے پہلے ہی فوت ہو گئے تھے لہٰذا یہ قول منقطع ہے۔

4۔ابو عبید محمد بن علی بن عثمان الآجری کے حالات نامعلوم ہیں سوالات الآجری کے محقق محمد علی قاسم العمری کو بھی اس کے حالات نہیں ملے۔(دیکھئے ص41)

5۔اس بات کا بھی کوئی صحیح ثبوت نہیں ہے کہ آجری نے یہ کلام بیان کیا ہے کیونکہ آجری تک صحیح سند مفقود ہے۔

عمرو بن الحارث الحمصی کو ابن حبان نے"مستقیم الحدیث "کہا یعنی ثقہ قرار دیا۔(الثقات 8/480)ابن خزیمہ  رحمۃ اللہ علیہ ، حاکم رحمۃ اللہ علیہ  ، دارقطنی  رحمۃ اللہ علیہ اور بیہقی رحمۃ اللہ علیہ  وغیرہم نے ان کی توثیق کی۔

کسی روایت کو صحیح یا حسن قراردینے کا مطلب یہ ہے کہ اس کا ہر راوی صحیح یا حسن قراردینے والے کے نزدیک ثقہ یا صدوق ہے۔

(دیکھئے نصب الرایۃ ج1ص149،ج 3 ص264، لسان المیزان ج1ص227،ج 5ص414السلسلۃ الصحیحہ ج6ص660ح 2783 وج 7ص16 ح 3007۔بیان الوھم والا بھام لا بن القطان 5/395ح 25،62)

جمہور کی اس تعدیل کے مقابلے میں ذہبی قول "غیر معروف العدالۃ"(میزان الاعتدال3/251) اور ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  کا قول "مقبول"یعنی مجہول الحال مردود ہے۔ یاد رہے کہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ  کا قول ان کی تصحیح حدیث سے معارض ہے۔

"واذا تعارضا تساقطا" (دیکھئے میزان الاعتدال 2/552)

خلاصہ یہ کہ عمرو بن الحارث حسن الحدیث تھے۔

اسحاق بن ابراہیم بن العلاء الزبیدی کو ابو حاتم  رحمۃ اللہ علیہ ، ابن معین رحمۃ اللہ علیہ ، ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ ، حاکم رحمۃ اللہ علیہ  اور ذہبی  رحمۃ اللہ علیہ وغیرھم نے موثق قراردیا ہے۔

اس کے مقابلے میں بغیر کسی سند کے امام نسائی سے منقول ہے کہ انھوں نے کہا:

"لیس بثقة" (تہذیب التہذیب 1/189)

یہ بے سند قول ہر لحاظ سے ساقط ہے۔

آجری (غیر معروف العدالۃ ) نے ابو داؤد  رحمۃ اللہ علیہ محمد بن عوف سے اسحاق مذکور پر شدید جرح نقل کی ہے جو آجری کی جہالت کی وجہ سے مردود ہے دوسرے یہ کہ یہ جرح آجری کی کتاب السؤالات میں نہیں ملی لہٰذا آجری تک سند میں بھی نظر ہے۔

یادرہے کہ آجری کی عدالت نامعلوم ہونے کے باوجود حافظ ابن کثیر نے اس کی کتاب کو"کتاب مفید" لکھ دیا ہے۔(اختصار علم الحدیث ص39) حالانکہ مصنف مذکور کی جہالت اور اس تک سند صحیح نہ ہونے کی وجہ سے کتاب مفید کے بجائے غیر مفید ہے۔

خلاصہ یہ کہ اسحاق بن ابرہیم پر جرح مردود ہے اور وہ حسن الحدیث راوی تھے۔نیز دیکھئے میری کتاب "القول المتین فی الجہربالتامین"(ص8،9)

عبد اللہ بن احمد بن شبویہ مستقیم الحدیث (الثقات لا بن حبان8/366)) یعنی ثقہ تھے ابو سعید الادریسی انھیں "من افاضل الناس" کہتے تھے۔(تاریخ بغداد 9/371)

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ یہ حدیث حسن لذاتہ ہے صحیح مسلم (25،27)مسند احمد (5/262،263،266،) اور صحیح ابن خزیمہ (311)میں اس کا ایک شاہد (یعنی تائید کرنے والی روایت بھی ہے)لہٰذا حدیث مذکور صحیح لغیرہ ہے(شہادت مئی 2003ء) 

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد1۔اصول، تخریج اورتحقیقِ روایات-صفحہ615

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ