السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
«حَدَّثَنِیْ مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ اِبْرَاهِيْمَ قَالَ حَدَّثَنَا حُسيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا جَرِيْرٌ عَنْ مُحَمَّدٍ عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ اُتِیَ عُبَيْدُ اﷲِ بْنُ زِيَادٍ بِرَأْسِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِیٍّ فَجُعِلَ فِیْ طَسْتٍ فَجَعَلَ يَنْکُتُ وَقَالَ فِیْ حُسْنِه شَيْئًا فَقَالَ اَنَسٌ کَانَ اَشْبَهَهُمْ بِرَسُوْلِ اﷲِ وَکَانَ مَخْضُوْبًا بِالْوَسْمَةِ» باب فضيلت حضرت حسن و حسين رضى الله عنهما كتاب بخارى شريف
’’حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ عبیداللہ بن زیاد کے پاس حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما کا سر مبارک لایا گیا اور ایک برتن میں رکھا گیا اور وہ سر مبارک کو چھڑی لگانے لگا اور آپ رضی اللہ عنہما نے حسن کے متعلق کچھ کہا تو حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ تو رسول اللہﷺ کے سب سے زیادہ مشابہ ہیں اور آپ ﷺ کو وسمہ کا خضاب لگا ہوا تھا‘‘ جناب محترم اس حدیث سے تو یہ بات معلوم ہوئی کہ یزید رحمہ اللہ نے حضرت حسن کو قتل کیا ہے
(2) اور وہاں حضرت انس بن مالک کی موجودگی بھی اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ وہ بھی اس میں شامل ہیں ورنہ وہ اس حکومت کو چھوڑ کر چلے جاتے اس سے آگے حدیث نمبر ۹۳۹ وہاں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت آتی ہے کہ حضرت حسن ر نبیﷺ سے مشابہت رکھتے ہیں یہاں پر دو حدیثوں کا آپس میں تضاد آ رہا ہے حدیث نمبر ۹۳۵ کے راوی پر گفتگو ہے۔ جریر بن حازم کے متعلق بھی کلام ہے۔ باقی جریر بن حازم کے متعلق کچھ بتائیں کہ وہ کس طبقہ کے راوی ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آپ نے لکھا ہے ’’اس حدیث سے تو یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ یزید نے حضرت حسین کو قتل کیا ہے ‘‘ محترم اس حدیث سے یہ بات معلوم نہیں ہوتی بغور پڑھیں نیز یہ بات کسی بھی صحیح مرفوع حدیث سے معلوم نہیں ہوتی۔
پھر آپ نے لکھا ہے ’’وہاں حضرت انس بن مالک کی موجودگی بھی اسی طرف اشارہ کرتی ہے کہ وہ بھی اس میں شامل ہیں الخ‘‘ اس روایت میں سے عبیداللہ بن زیاد کی اس مجلس میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی موجودگی تو نکلتی ہے البتہ اس موجودگی سے جو اشارہ آپ نکال رہے ہیں وہ بالکل نہیں نکلتا ذرا توجہ فرمائیں۔
ان دونوں حدیثوں میں کوئی تعارض وتضاد نہیں کیونکہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے حسین رضی اللہ عنہ کو وجہ (چہرہ) میں اشبہ قرار دیا ہے چنانچہ حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں انس کی یہی روایت زہری بحوالہ اسماعیلی نقل کی ہے جس کے لفظ ہیں «وَکَانَ اَشْبَهَهُمْ وَجْهًا بِالنَّبِیِّ» جبکہ حسین رضی اللہ عنہ کے متعلق ان کی روایت میں وجہ (چہرے) کا ذکر نہیں تطبیق اور جمع کی اور بھی دو صورتیں فتح الباری میں ذکر کی گئی ہیں۔ وہاں سے دیکھ لیں۔ جریر بن حازم ثقہ ہیں طبقہ سادسہ سے ہیں حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے سر مبارک کو چھڑی لگانے والا عبیداللہ ہے نہ کہ یزید پھر انس بن مالک خاموش نہیں رہے بلکہ«کَانَ اَشْبَهَهُمْ بِرَسُوْلِ اﷲِ ﷺ» کہہ کر ابن زیاد کے اس فعل کی مذمت کی ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب