السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بعض محدثین مدلس راوی کی عن والی روایت کو مطلعقاً نہیں مانتے خواہ وہ بخاری و مسلم کی کیوں نے ہو اور بعض اہل حدیث علماء مدلس راوی طبقہ اولیٰ اور ثانیہ کی عن والی روایت قبول کرتے ہیں۔البانی رحمۃ اللہ علیہ بعض جگہ بلکہ اکثر جگہ پر مدلس راوی عن والی روایت (بغیرتحدیث اور ثقہ متابعت کے)صحیح یا حسن گردانتے ہیں لیکن بعض جگہ وہ مدلس راوی کی سکتات والی۔ روایت میں حسن بصری اور فاتحہ خلف الامام والی روایت (فجر کی نماز )میں مکحول رحمۃ اللہ علیہ اور محمد بن اسحاق رحمۃ اللہ علیہ پر شدید جرح کرتے ہیں۔ اور بعض محدثین کا یہ قول ہے کہ اگر (مدلس راوی)ثقہ اساتذہ سے روایت کرنے میں تدلیس کرے تو وہ قابل قبول ہو گی یعنی ابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ ، سیوطی رحمۃ اللہ علیہ اور ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ
غالباً صرف امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اس کو نہیں مانتے۔ سدل فی الصلاۃ والی روایت میں ایک مدلس راوی عن سے روایت کرتا ہے بغیر تحدیث اور ثقہ متابعت کے البانی اس صحیح گرادنتے ہیں۔(حبیب اللہ پشاور)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بعض علماء کے نزدیک اگر مدلس راوی ضعیف راویوں سے تدلیس کرے تو اس کی عن والی روایت ضعیف ہوتی ہے۔ مثلاً حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا:
"ثُمَّ إِنْ كَانَ اَلْمُدَلِّسُ عَنْ شَيْخِهِ ذَا تَدْلِيسٍ عَنِ اَلثِّقَاتِ فَلَا بَأْسَ وَإِنْ كَانَ ذَا تَدْلِيسٍ عَنْ اَلضُّعَفَاءِ فَمَرْدُودٌ"
"پھر اگر مدلس اپنے ثقہ استاذوں سے تدلیس کرے تو( اس کی روایت میں0)کوئی حرج نہیں ہے اور اگر ضعیف (؟)تدلیس کرے تو(اس کی)روایت)مردود ہے(الموقظہ ص45)
لیکن تدلیس کے بارے میں راجح وہی مسلک ہے جو امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الرسالۃ میں لکھا ہے کہ"
"وَمَنْ عَرَفْنَاهُ دَلَّسَ ...... لَا نَقْبَلُ مِنْ مُدَلِّسٍ حَدِيثًا حَتَّى يَقُولَ فِيهِ «حَدَّثَنِي» أَوْ «سَمِعْتُ»" (ص379،370فقرۃ 1033،1035)
یعنی جس آدمی سے ساری زندگی میں صرف ایک دفعہ تدلیس ثابت ہو جائے تو اس کی عدم تصریح سماع اور عدم متابعت والی روایت (غیر صحیحین میں)ضعیف ہوتی ہے۔ بشرطیکہ اس راوی کا مدلس ہونا صحیح ثابت ہو جائے صحیحین کا استثناء دوسرے دلائل کے ساتھ ثابت ہے۔تفصیل کے لیے میرا رسالہ:
"التاسيس في مسئلة التدليس"
"دیکھیں لہٰذا سدل سے ممانعت والی مرفوع روایت ضعیف ہی ہے۔(شہادت جنوری 2003ء)
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب