السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا مردے پر زندہ کے اعمال پیش ہوتے ہیں جیسا کہ عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عزیزوں کا واقعہ تفسیر ابن کثیر(ج3ص439)میں ہے اور کیا مردہ اپنی قبر کی زیارت کرنے والے کو پہچانتا ہے؟(جامع الصغیر ج2ص151)
عرض اعمال کے لیے دیکھئے حدیث انس بن مالک (مسند احمد ج3ص164)(ایک سائل)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مردے پر زندہ کے اعمال پیش ہونے والی کوئی روایت بھی صحیح نہیں ہے۔تفسیر ابن کثیر(3/439)تحت آیۃ 52،53من سورۃ الروم)میں عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اقارب والا واقعہ بے اصل ہے۔ جو لوگ اسے صحیح سمجھتے ہیں ان پر یہ لازم ہے کہ وہ اس کی پوری سند مع توثیق اسماء الرجال پیش کریں۔
صرف کسی کتاب کا حوالہ دے دینا کافی نہیں ہے۔ مثلاً تفسیر ابن کثیر میں عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف منسوب بے اصل قصے سے پہلے ابن ابی الدنیا کی کتاب سے منقول ایک روایت کا راوی خالد بن عمر والاموی،کذاب، منکرالحدیث ،متروک الحدیث ہے۔دیکھئے تہذیب الکمال (5/394،395)
اسی ایک مثال سے ان بے اصل روایات کی حقیقت سمجھ لیں۔
جس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ مردہ اپنی قبر میں زیارت کرنے والے کو پہچانتا ہے۔اس کی روایہ فاطمہ بنت الریان کے حالات نہیں ملے۔
دیکھئے السلسلۃ الضعیفۃ للشیخ الالبانی رحمۃ اللہ علیہ (9/475ح4493)
شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس مفہوم کی دیگر روایات پر بھی جرح کر کے یہ فیصلہ کیا ہے کہ یہ روایت "ضعیف"ہے دیکھئے السلسلۃ الضعیفۃ(ص473تا476)
آپ کی ذکر کردہ مسند احمد والی روایت(ج3ص165ح12683)بھی"عمن سمع"والے مجہول راوی کی وجہ سے ضعیف ہے۔(شہادت فروری2004ء)
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب