السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مسند احمد کی حدیث براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"فَتُعَادُ رُوحُهُ فِي جَسَدِهِ" (مشکوۃ باب مایقال عند من حضرہ الموت الفصل الثالث )
اس حدیث کو کن کن محدثین نے صحیح قراردیا ہے؟ ان کے نام اور حوالہ جات مفصل تحریر کریں۔کتاب اور صفحہ نمبر ضرور تحریر کیجئے گا۔زاذان اور منہال بن عمرو کو کن محدثین نے قابل حجت قراردیا ہے۔ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ ، ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ ، اور البانی رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق کو یہ لوگ تسلیم نہیں کرتے۔(وقارعلی مبین الیکٹرونکس امین پارک لاہور)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آپ کے سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں۔
1۔ حدیث براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ حدیث کی درج ذیل کتابوں میں تفصیل اور اختصار کے ساتھ منہال بن عمرو عن زاذان عن البراء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سند کے ساتھ موجود ہے۔
1۔سنن ابی داؤد (ح3212،4753،4754)
2۔سنن ابن ماجہ (ح1548،1549)
3۔سنن النسائی(4/78ح2003)
4۔مسند الامام احمد(4/287،288،297)
5۔زوائد مسند احمد لعبد اللہ بن احمد(4/296)
6۔مصنف عبد الرزاق (3/580،582،ح6737)
7۔مسند الطیالسی (ص102،103،ح753)
8۔مصنف ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ (3/380،382،ح12058)
9۔زہدہنادبن السری (1/205،207ح339)
10۔مسند ابی عوانہ کمافی رحمۃ اللہ علیہ اتحاف المہرۃ لابن حجر رحمۃ اللہ علیہ (2/459،ح2063)
11۔الشریعہ للا جری (ص367۔370ح 864۔867)
12۔زوائدالزہد لحسین بن الحسن المروزی(ص430۔433ح1219)
13۔التوحید لا بن خزیمہ(ص119،120)
14۔المستدرک للحاکم(1/37۔39/40)وقال:"صحیح علیٰ شرط الشیخین"وقال الذہبی :"وھو علیٰ شرطہما"
15۔تفسیر الطہری(8/129،13/143)
16۔عذاب القبر للبیہقی (20)وقال (19)"ھذا حدیث کبیر صحیح الاسناد"
17۔شعب الایمان للبیہقی (395)وقال ھذا حدیث صحیح الاسناد"
18۔المعجم الوسط للطبرانی (ح3023،7413)
19۔تفسیر ابن ابی حاتم (5/1477،1478ح8465)
20۔مسند الرویانی (1/263۔267،ح392)
21۔تاریخ دمشق لا بن عساکر (63/268،269)
اسے درج ذیل محدثین نے صحیح قرار دیا ہے۔
1۔بیہقی (2)حاکم (3)ذہبی)
4۔القرطبی فی التذکرۃ فی احوال الموتی وامور الآخرۃ (ص119)
5۔ابو عوانہ روی حدیثہ فی صححہ (کتاب الروح ص60اتحاف المھرۃ 2/459) بعض لوگوں نے زاذان اور منہال بن عمرو پر جرح کی ہے لہٰذا ان دونوں راویوں کے حالات علی الترتیب و بالتفصیل پیش خدمت ہیں:
"ابو عمر زاذان الکندی الکوفی صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں"
صحیح مسلم:(1657،1997/57)
ترمذی: (1846)(1868وقال :حسن صحیح) 1986،2566،3812)
ابو داؤد: (249،3212،3761،5168)
النسائی: (1283،2003،5648)
ابن ماجہ: (599،1548،1549،1555،4021)
ابن خزیمہ: (2791)
ابن حبان: (الاحسان2/134ح910)
اب زاذان پر جرح مع تبصرہ پیش خدمت ہے۔
1۔ سلمہ بن کہیل ۔ "أبو البختري أعجب إلي"
(کتاب المعرفۃ والتاریخ لیعقوب بن سفیان 2/795)وسندہ صحیح)
یعنی اس کے بجائے مجھے ابو البختری الطائی زیادہ محبوب و پسندیدہ ہے۔
یہی قول دوسرے علماء نے اختصار و تفصیل اور معمولی اختلاف کے ساتھ نقل کیا ہے۔دیکھئے تہذیب التہذیب وغیرہ ابو البختری سعید بن فیروز الطائی صحاح ستہ کے راوی اور ثقہ تھے۔دیکھئے تہذیب الکمال للمزی (7/278،279)
سلمہ بن کہیل121ھ یا 123ھ میں فوت ہوئے۔(تہذیب الکمال 7/459،460)
وہب بن وہب الاسدی المدنی القاضی 121ھ یا اس کے بعد پیدا ہوا۔
دیکھئے سیرا علام النبلاء (9/375)قال: توفی سنۃ مائتین ولہ بضع وسبعون سنۃ)
لہٰذاسلمہ بن کہیل کے قول کا مصداق وہب بن وہب قطعاً نہیں ہےاور کتاب المعرفۃ کی صراحت"الطائی"اس سلسلے میں فیصلہ کن ہے کیونکہ الطائی صرف سعید بن فیروز ہے وہب بن وہب نہیں۔ سعید بن فیروز الطائی چونکہ ثقہ تھے لہٰذا انھیں زاذان پر ترجیح دینا کوئی جرح نہیں ہے۔سلمہ بن کہیل نے ابو البختری الطائی کے ایک قول کو بطور حجت پیش کیا ہے۔
(المعجم لا بن الاعرابی :431 وسندہ قوی)
2۔الحکم بن عتیبہ :حکم نے زاذان سے روایت نہ لینے کا سبب یہ بیان کیا:
"اكثر يعني من الرواية" اس نے بہت سی روایتیں بیان کی ہیں۔(الجرح والتعدیل3/614وسندہ صحیح و کتب اخریٰ)
ظاہر ہے کہ بہت سی روایتیں بیان کرنا کوئی جرح نہیں بلکہ خوبی ہے۔سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بہت سی حدیثیں بیان کی ہیں حتیٰ کہ بعض علماء نے ان کے بارے میں بھی کہہ دیا تھا کہ "اکثرابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ "ابو ہریرہ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) نے کثرت کردی۔
(صحیح مسلم :2497/160۔وصحیح البخاری:2047)
3۔ابو احمد الحاکم الکبیر النیسابوری :
"ليس بالمتين عندهم"
"وہ ان کےنزدیک المتین نہیں تھے۔(تاریخ دمشق لا بن عساکر20/213)
یہ جرح کئی لحاظ سے مردود ہے۔
ا۔المتین کی نفی کا یہ مطلب نہیں کہ وہ متین (بغیر الف لام)بھی نہیں ہے لہٰذا ایسا راوی اگر جمہور سے توثیق ثابت ہو تو حسن الحدیث سے کم نہیں ہوتا۔
ب:"عندھم "یعنی ان (نامعلوم لوگوں)کے نزدیک لیس بالمتین ہونا اس لیے بھی مردود ہے کہ یہ نا معلوم لوگ کون ہیں؟ظاہر ہے کہ مجہول کی جرح کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔
ج:ابو احمد الحاکم (پیدائش290ھ اوقبلھا285ھ وفات 378ھ)بہت بعد کے علماء میں سے ہیں،امام ابن معین وغیرہ کے مقابلے میں مجہول لوگوں سے ان کی نقل کردہ جرح مردود ہے۔
4۔حافظ ابن حجر العسقلانی :
"صدوق يرسل وفيه شيعية" (تقریب التہذیب :1988)
یعنی یہ سچے تھے مرسل روایتیں بیان کرتے تھے اور ان میں شیعیت ہے۔
مرسل روایتیں بیان کرنا کوئی جرم نہیں ہے۔ امام ابو داود کی کتاب المراسیل پڑھ لیں۔
امام عطاء بن ابی رباح وغیرہ بہت سے تابعین مرسل روایتیں بیان کرتے تھے۔
"فيه شيعة"(ان میں شیعیت ہے)والی بات دووجہ سے مردودہے۔
اول:حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے تہذیب التہذیب میں اس قول کا ذکر و ماخذ بیان نہیں کیا اور تقریب التہذیب ، تہذ یب ہی کا خلاصہ ہے۔جب اصل میں ایک قول ہے ہی نہیں تو خلاصے میں کہاں سے آگیا؟
دوم:حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ سے پہلے یہ قول محمد بن عمر الواقدی (کذاب )سے مروی ہے۔عن محمد بن عمر(الواقدی)"وكان من شيعة علي"اور وہ بھی جماعت میں سے تھے۔
(کتاب الکنیٰ للدولابی 2/42و تاریخ دمشق لا بن عساکر 20/218)
واقدی کذاب ومتروک تھا۔ دیکھئے میزان الاعتدال وغیرہ ۔
ابراہیم بن ہاشم غیر موثق ہے۔ دیکھئے تاریخ بغداد(6/202،203)
محمد بن ابراہیم ہاشم بھی غیر موثق ہے۔(انظر تاریخ بغداد1/399)
محمد ابراہیم کا شاگرد صاحب الکنی محمد بن احمد بن حمادالدولابی ضعیف ہے۔
دیکھئے میزان الاعتدال(3/459)
معلوم ہوا کہ"فیہ شیعیۃ "والاقول ہر لحاظ سے باطل ہے۔ یہ کل جرح تھی۔ ابن حبان کی جرح کا ذکر آخر میں آرہا ہے اب زاذان کی توثیق و تعدیل بھی پڑھ لیں۔
1۔یحییٰ بن معین :ثقہ (سوالات ابن الجنید:249)
2۔خطیب بغدادی : کان ثقہ(تاریخ بغداد 8/487)
3۔العجلی: ثقہ (تاریخ الثقات:450)
4۔مسلم:احتج بہ فی صحیحہ (1657،1997/57)
5۔ابن عدی :واحادیثہ لا باس بھا اذاروی عنہ ثقہ (الکامل 3/1091)
6۔ابن سعد : وکان ثقہ قلیل الحدیث (الطبقات الکبری 6/179)
7۔ابو عوانہ الاسفرائنی :احتج بہ فی صحیحہ (5289۔290)
8۔ابن الجارود:روی لہ فی المنتقیٰ :842)
معلوم ہوا کہ ابن الجارود کے نزدیک زاذان صحیح الحدیث ہے۔
دیکھئے میرا مضمون "نصر الرب فی تو ثیق سماک بن حرب"(ق ص14)میری کتاب : تحقیقی اور علمی مقالات (ج1ص434)
9۔الحاکم:صح لہ فی المستدرک
10۔الذہبی: وکان ثقہ صادقاً (سیراعلام النبلاء4/280)
حافظ ذہبی نے میزان الاعتدال (2/63)میں"صح"لکھ کر اپنے نزدیک زاذان کی توثیق کا اشارہ کردیا ہے اور یہ کہ اس پر جرح باطل ہے۔
دیکھئے لسان المیزان (2/159)ترجمہ :حارث بن محمد بن ابی اسامۃ )
11۔ابن شاہین :ثقہ (الثقات:417)
12۔ابن خزیمہ:احتج بہ فی صحیحہ (2791)
13۔ابو نعیم اصبہانی:"الناصح المجاب والرابح المثاب"(حلیۃ الاولیاء4/199)
ابو نعیم اصبہانی نے زاذان کو اہل السنہ کے اولیاء میں ذکر کیا ہے۔(حلیۃ الاولیاء4/199،204)
معلوم ہوا کہ وہ ان کے نزدیک شیعہ نہیں تھے۔
امام النسائی:لیس بہ باس (تاریخ دمشق 20/212،وسندہ ضعیف)
اس میں امام نسائی کے شاگرد اور بیٹے ابو موسی عبدالکریم بن احمد بن شعیب النسائی کےحالات نہیں ملے ، باقی ساری سند صحیح ہے۔
14۔بیہقی :صح لہ فی شعب الایمان (395)واثبات عذاب القبر(ح19)بتحقیقی
15۔القرطبی:صح لہ فی التذکرۃ(ص119)کما تقدم
16۔ابن کثیر:"فرزقه الله التوبة على يد عبد الله بن مسعود وحصلت له إنابة ورجوع إلى الحق، وخشية شديدة"
(البدلیۃ والنہایۃ 9/50)
17۔ابن حجر العسقلانی:صدوق یرسل و فیہ شیعیہ "(تقریب:1988)
یرسل اور فیہ شیعیہ کا جواب پر گزر چکا ہے متقدمین کی اصطلاح میں تشنیع اور رفض کا فرق ہے لہٰذا یہ لفظ جو کہ ثابت بھی نہیں ہے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک بھی جرح نہیں ہے۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ البراء والی حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں۔
"کما ثبت فی الحدیث "(جیسا کہ حدیث میں ثابت ہوا )(فتح الباری 3/235تحت ح 1374)
18۔ابو موسی الاصبہانی : حسنہ (الترغیب الترہیب4/369)
19۔ابن القیم:قال فی حدیثہ "فالحدیث صحیح لا شک فیه"(کتاب الروح ص65)
20۔ابن تیمیہ:حسن حدیثہ (مجموع فتاوی 4/290)
21۔الضیاء المقدسی : اخرج حدیثہ فی المختارۃ (2/74ح 451)
22۔المنذری: ثقہ مشہور (الترغیب الترہیب 4/369ح5221)
23۔الترمذی:صحح لہ کما تقدم (ص23)
معلوم ہوا کہ محدثین کرام کی بہت بڑی اکثریت زاذان کو ثقہ و صدوق اور صحیح الحدیث و حسن الحدیث قراردیتی ہے لہٰذا چند علماء کی غیر مفسر وغیر ثابت جرح ان کے مقابلے میں مردودہے ۔
حافظ ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ کا زاذان کے بارے میں رویہ عجیب و غریب ہے وہ انھیں کتاب الثقات(4/265)میں ذکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں۔"یخطیٰ کثیراً "وہ بہت غلطیاں کرتا تھے۔
ظاہر ہے کہ جو بہت غلطیاں کرے وہ ضعیف ہوتا ہے ثقہ نہیں ہوتا لہٰذا سے کتاب الثقات میں ذکر کرنے کا کیا فائدہ ؟اگر ثقہ ہے تو وہ "یخطیٰ کثیراً" بالکل نہیں ہے۔
گویا حافظ ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ کا قول اور الثقات میں راوی کا ذکر دونوں متناقض ہو گئے۔اگر امام ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ کے دواقوال میں تعارض و تناقض واقع ہو جائے تو دونوں ساقط ہو جاتے ہیں(قال الذہبی:"فتساقط قولاہ"میزان الاعتدال 2/552ترجمہ عبدالرحمان بن ثابت بن الصامت)یہی اصول دیگر لوگوں کے بارے میں بھی ہے۔
حافظ ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ نے زاذان کو کتاب :مشاہیر علماء الامصار(ت:7751میں بھی ذکر کیا ہے(ص104) اور کہا:" "وكان يهم في الشيء بعد الشيء" یعنی اسے بعض دفعہ بعض اشیاء میں وہم ہو جاتا تھا۔ معلوم ہوا کہ ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ نے "یخطیٰ کثیراً"سے رجوع کر لیا ہے۔اس رجوع کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ زاذان کی روایت اپنی صحیح میں لائے ہیں۔(الاحسان 2/134ح910)
یعنی یہ ان کے نزدیک صحیح الحدیث تھے۔
خلاصہ یہ ہے کہ زاذان پر منکرین عذاب القبر کی نقل کردہ تمام جرحیں باطل و مردود ہیں اور زاذان ابو عمر ثقہ و صحیح الحدیث تھے۔ والحمد للہ۔
المستدرک للحاکم(1/39)میں مختصر روایت میں ابو اسحاق السبیعی نے زاذان کی متابعت کر رکھی ہے۔ براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اسے عدی بن ثابت بھی بیان کرتے ہیں(کتاب الروح ص66)اس کا راوی عیسیٰ بن المسیب جمہورکے نزدیک ضعیف ہے۔
خلاصۃ التحقیق:زاذان ابو عمر رحمۃ اللہ علیہ ثقہ و صحیح الحدیث ہیں اور ان پر ڈاکٹر مسعود عثمانی وغیرہ کی جرح مردود ہے والحمدللہ۔
منہال بن عمروصحیح بخاری و سنن اربعہ کے راوی ہیں۔
صحیح البخاری : 3371،5515،سورۃ حم السجدۃباب :اقبل ح4816)
ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ 3106،4737،5217)
ترمذی:206،2083،3355،3611،3781،3872)نسائی:5451،3009،893،894)ابن ماجہ:120،339،615،971،1548،1549،2112،3535،4021،ابن حبان :الاحسان6921،2968، موارد:714 ،2229)
ابن خزیمہ:2830۔
المختارۃ للضیاءالمقدسی3/368۔386،ح394،412۔
الحاکم:1/342،343،364،365،4/213۔
اب منہال پر جرح کے اقوال مع تبصرہ پیش خدمت ہیں۔
1۔شعبہ:امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
"ترک شعبۃ المنہال بن عمرو علی عمد"شعبہ نے جان بوجھ کر نہال کو ترک کر دیاتھا۔(الضعفاء للعقیلی 4/236،والجراح والتعدیل 8/357)
شعبہ 160 ھ میں فوت ہوئے اور امام احمد 164ھ میں پیدا ہوئے لہٰذا یہ قول بے سنداور منقطع ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
وہب بن جریر سے روایت ہے کہ شعبہ نے فرمایا :
"أتيت منزل منهال بن عمرو فسمعت منه صوت الطنبور ، فرجعت و لم أسأله"
میں منہال بن عمرو کے گھر کے پاس آیا تو میں نے وہاں سے طنبور (باجے)کی آواز سنی میں واپس چلا گیا اور اس سے پوچھا تک نہیں۔
وہب نے کہا کہ میں نے کہا:
"هلا سألته؛ فعسى كان لا يعلم!"
اور آپ نے اس سے پوچھا کیوں نہیں ؟ ہو سکتا ہے کہ اسے پتہ ہی نہ ہو۔(کتاب الضعفاء للعقیلی 4/237)
معلوم ہوا کہ امام شعبہ کی جرح صحیح نہیں ہے۔
حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ اس جیسی شعبہ کی جرح نقل کر کے فرماتے ہیں۔وھذالا یوجب غمز الشیخ"اور اس سے شیخ پر جرح لازم نہیں ہوتی۔(میزان الاعتدال4/192)
1۔شعبہ کی منہال پر جرح اس کی بیان کردہ ایک خاص حدیث"حدیث ابی بشرعن مجاہد حدیث الطیر"سے ہے۔
دیکھئے کتاب العلل لا حمد(1271)و موسوعہ اقوال احمد( 3/404) واللفظ لہ
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں روی عنہ منصور وشعبہ التاریخ الکبیر8/12)
یعنی منہال سے منصور اور شعبہ نے روایت بیان کی ہے۔
راقم الحروف نے اپنے رسالۃ "نصرالرب"میں ثابت کیا ہے شعبہ عام طور پر اپنے نزدیک صرف ثقہ سے روایتیں کرتے تھے۔(ص13)
لیکن حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے بغیر کسی مستند حوالے کے لکھا ہے"ثم ترکہ بآخرہ"
(الکاشف: 5752)یعنی شعبہ نے آخر میں منہال کو ترک کر دیا تھا۔ واللہ اعلم 2۔مغیرہ(بن قاسم )صاحب ابراہیم مغیرہ سے منسوب جرح تاریخ دمشق (63/3274)میں مذکورہے اس کا راوی محمد بن عمر الحنفی مجہول ہے۔
حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:
"محمد بن عمر الحنفي راوي الحكاية فيه نظر"
(اس)حکایت کے راوی محمد بن عمر الحنفی میں نظر ہے۔(تہذیب التہذیب10/320)
3۔یحییٰ القطان:حاکم نے بغیر سند اور بغیر کسی حوالےکے نقل کیا کہ غمزہ یحییٰ سعید (القطان)یعنی یحییٰ القطان نے منہال پر جرح کی۔(میزان الاعتدال 4/192)یہ جرح تین وجہ سے مردود ہے۔
1۔جرح غیر مفسر ہے۔(2)جرح کے ثبوت میں نظر ہے۔
3۔جمہور محدثین کی توثیق کے خلاف ہے۔
4۔جوز جانی نے کہا: سنی المذہب (احوال الرجال:43)
تاریخ دمشق میں یہ اضافہ ہے۔وقد جری حدیثہ (63/275)
5۔ابن حزم نے کہا: لیس بالقری (سیراعلام النبلاء5/184)
6۔یحییٰ بن معین:اس کی شان گھٹاتے تھے،(تاریخ دمشق 63/275)
اس کے راوی احوص بن مفصل کو دار قطنی نے لیس بہ باس کہا اور ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے کہا:
" وأورد .....حديثا منكرا، ليس في سنده من يتهم به غيره"
(لسان المیزان 1/ی332ت1022)
احوص بن المفصل کے بارے میں راجح یہی ہے کہ وہ لیس بہ باس (یعنی صدوق حسن الحدیث)تھے۔دیکھئے سوالات السہمی للدارقطنی (208)
ان جارحین کے مقابلے میں معدلین و موثقین کے اقوال بھی پڑھ لیں۔
1۔یحییٰ بن معین :ثقہ (تاریخ یحییٰ بن معین : 1087الجرح والتعدیل 8/357)
2۔العجلی:ثقہ (تاریخ الثقات: 1643)
3۔الدارقطنی: صدوق (سوالات الحاکم للدارقطنی:484)
4۔البخاری:روی لہ فی صحیحہ (3371،5515)
5۔ابن خزیمہ:روی لہ فی صحیحہ (2830)
6۔ابن حبان روی لہ فی صحیحہ (موارد:714،2229،الاحسان :6921،2967)
7۔الضیاء المقدسی:روی لہ فی المختارۃ (3/368،386،ح394،412)
8۔الحاکم : صحح لہ فی المستدرک (1/342،343،364،365،3/213)وغیرہ
9۔الترمذی: قال فی حدیثہ :"حسن صحیح "(2060)
10۔ابن شاہین: ثقہ (الثقات:1412)
11۔بیہقی :صحح حدیثہ (شعب الایمان:395)
12۔ابو عوانہ : روی لہ فی صحیحہ (اتحاف المہرۃ2/459ح 2063)
13۔الذہبی: صحح حدیثہ (تلخیص المستدرک 1/37۔40)
ذہبی نے میان الاعتدال میں منہال کے ساتھ "صح "کی علامت لکھی ہے۔4/192)
تعدیل زاذان حوالہ نمبر10)میں بحوالہ لسان المیزان (2/159)گزر چکا ہے کہ حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ایسے راوی پر جرح باطل ہوتی ہے اس کے باوجود حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے سیراعلام النبلاء (5/184)میں یہ عجیب و غریب بات لکھ دی ہے۔
"حَدِيْثُهُ فِي شَأْنِ القَبْرِ بِطُوْلِهِ فِيْهِ نَكَارَةٌ وَغَرَابَةٌ"
یعنی اس کی عذاب القبر والی حدیث میں اجنبیت اور اوپر اپن ہے۔
ذہبی کا یہ قول ان کی تعدیل کے مقابلے میں باطل ہے۔
14۔محمد بن اسحاق بن یحییٰ بن مندہ صحح حدیثہ فی کتاب الایمان (2/820ح 844)
15۔ابن حجر العسقلانی رحمۃ اللہ علیہ : صدوق /ربما و ھم (تقریب التہذیب:6918)
ایسا راوی حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اور عام محدثین کے نزدیک حسن درجے کا ہوتا ہے۔
تحریر تقریب التہذیب میں حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کے قول پر تنقید کرتے ہوئے لکھا ہوا ہے۔
"بل ثقة فقد وثقه الائمة :ابن معين والنسائي والعجلي وذكره ابن حبان في الثقات ولم يجرح بجرح حقيقي....."(3/421)
النسائی:حافظ المزی نے بغیر کسی سند کے نسائی سے نقل کیا کہ"ثقہ یعنی منہال ثقہ ہے۔(التہذیب الکمال18/412)
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ جمہور محدثین کے نزدیک منہال ثقہ و صدوق تھے لہٰذا ان کی یہ روایت صحیح یا حسن لذاتہ ہے۔ان کی بیان کردہ حدیث کی تائید والی روایتیں بھی ہیں مثلاً:
سنن ابن ماجہ (کتاب الزھد باب ذکر الموت والا ستعدادلہ(ح4262)والی حدیث "ثم تصیر الی القبر " یعنی پھر قبر میں روح جاتی ہے۔ اس کی سند بالکل صحیح ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا شَبَابَةُ , عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ , "عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ , عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَسَارٍ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"
اس سند میں نہ زاذان ہیں اور نہ منہال بن عمرو اسے البوصیری (زوائد)المنذری (الترغیب والترھیب4/370)اور ابن القیم (الروح ص155)نے صحیح کہا ہے۔
تعدیل زاذان میں (ص27)پر متابعت والی دو روایتیں گزر چکی ہیں مزید تفصیل کے لیےمیرے بھائی محترم مولانا ابو جابر عبد اللہ الدامانوی کتاب الدین الخالص حصہ اول پڑھ لیں۔(الحدیث:14)
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب