السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا میت پردوبارہ جنازہ پڑھنا جائز ہے؟(ساجد ،بیاڑ،کوہستان)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
شرح معانی الآثار للا مام الطحاوی رحمۃ اللہ علیہ سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔
"عن عبد الله بن الزبير أن رسول الله صلى الله عليه وعلى آله وسلم أمر يوم أحد بحمزة فسجي ببردة ، ثم صلى عليه فكبر تسع تكبيرات ثم أُتي بالقتلى يصفون ، ويصلي عليهم وعليه معهم "
"بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُحد کے دن حکم دیا تو سیدنا حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک چادر میں لپیٹا گیا۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نماز جنازہ پڑھی تو آپ نے نو تکبیرات کہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دوسرے شہداء لائے جاتے انہیں صف میں رکھا جاتا تو آپ ان کی اوران کے ساتھ سیدنا حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بھی نماز جنازہ پڑھتے رہے۔(ج1ص503باب الصلوۃعلی الشہداء)
اس روایت کے سارے راوی ثقہ ہیں۔ اس کی سند کے ایک بنیادی راوی محمد بن اسحاق بن یسار ہیں جو کہ مغازی کے امام تھے۔ احمد رضا خان بریلوی نے لکھا۔
"ہمارے علمائے کرام قدست اسرارھم کے نزدیک بھی راجح محمد بن اسحاق کی تو ثیق ہی ہے۔محقق علی الاطلاق فتح میں زیر مسئلہ یستحب تعجیل المغرب فرماتے ہیں۔ابن اسحاق کی توثیق ہی واضح اور حق ہے۔"الخ"
(فتاویٰ رضویہ ج5ص592منیر العین فی حکم تقبیل الابھامین ص145)
زکریا صاحب تبلیغی دیوبندی نے لکھا:
"وقال في رواية البزار محمد بن اسحاق وهو مدلس وهو ثقة"
(اور کہا:بزار کی روایت میں محمد بن اسحاق ہیں اور وہ ثقہ مدلس ہیں۔)(تبلیغی نصاب ص595)زیلعی حنفی نے کہا:
"وابن إسحاق الأكثر على توثيقه وممن وثقه البخاري"
اور اکثر نے ابن اسحاق کو ثقہ قراردیا ہے اور آپ کی توثیق کرنے والوں میں سے امام بخاری بھی تھے۔(نصاب الرایہ4/7)
عینی حنفی نے کہا:
"وتعليل ابن الجوزي بابن إسحاق ليس بشيء; لأن ابن إسحاق من الثقات الكبار عند الجمهور"
"ابن جوزی کا ابن اسحاق (کی اس روایت )پر جرح کرنا کچھ چیز بھی نہیں ہے کیونکہ جمہور کے نزدیک ابن اسحاق بڑے ثقہ راویوں میں سے تھے۔(عمدۃ القاری ج7ص270)
محمد ادریس کاندھلوی دیوبندی نے لکھا:"جمہور علماء نے اس کی توثیق کی ہے۔"(سیرت المصطفیٰ ج1ص76)
(جس راوی پر جرح ہواور جمہور محدثین نے اس کی توثیق کر رکھی ہو تو ایسے راوی کی روایت حسن لذاتہ ہوتی ہے الایہ کہ کسی خاص روایت میں بذریعہ تعلیل محدثین و ہم و خطاثابت ہوجائے تو یہ روایت مستثنیٰ ہو جائے گی اور اسی طرح خاص دلیل مثلاً خاص جرح عام دلیل مثلاً عام توثیق پر مقدم ہوتی ہے)
محمد بن اسحاق رحمۃ اللہ علیہ نے سماع کی تصریح کر رکھی ہے اور ان کی حدیث کے متعدد شواہد موجود ہیں۔ مثلاً دیکھئے سنن ابن ماجہ (1513)سنن دار قطنی (4/118)
السنن الکبری للبیہقی (4/12)مسند احمد(1/463)مستدرک الحاکم(ج2ص 119،120ج3ص197،595،596،(ج4ص60،61ح1955،کتاب الجنائز باب الصلوٰۃ علی اشہداء)اور سیرت ابن ہشام (ج3ص102)
لہٰذا اس حسن صحیح روایت سے معلوم ہوا کہ جس میت کی نماز جنازہ ادا کی گئی ہو اس کا دوسرا جنازہ پڑھنا جائز ہے۔چاہے پڑھنے والے وہی ہوں، جنھوں نے پہلا جنازہ پڑھا ہو یا کوئی دوسرے ہوں۔وما علینا الاالبلاغ(شہادت جنوری 2001ء)
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب