السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں احمد خان پھلا ڈیوں صوبہ سندھ سے لکھ رہا ہوں ۔ایک مسئلہ ہے کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اہلحدیث حضرات جب قل ختم چہلم وغیرہ کو نہیں مانتے تو قبرستان جاکر کیا کرتے ہیں ؟ مطلب ہے کہ رسول اللہﷺ کا قبرستان جاکر کیا معمول تھا؟ قرآن پڑھنا بھی قبرستان پر منع ہے؟ لوگ کہتے ہیں کہ آپ مردہ کو قرآن پڑھ کر بخشنے کے خلاف ہیں ؟
اس مسئلہ پر ایک سیر حاصل بحث بحوالہ کتاب وسنت لکھ کر درج ذیل پتہ پر بھیج دیں ۔ (احمد خان مری بلوچ سندہ )
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قبرستان جانے کے کئی مقاصد ہیں:
1) نبی کریم ﷺ کی سنت ہے ۔آپ ﷺ قبرستان جاکر مردوں کے لیے دعائیں کرتے تھے ۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا :
حتي جاء البقيع فقام ‘ فاطال القيام ‘ ثم رفع يديه ثلاث مرات ّ ثم انحرف فانحرفت ۔۔۔"
حتی کہ آپ ﷺ بقیع ( مدینہ کے قبرستان ) پہنچ کر کھڑے ہوگئے ،آپ (کافی) لمبی دیر کھڑے رہے ۔ پھر آپ نے تین دفعہ ( دعا کے لیے ) ہاتھ اٹھائے ۔ پھر آپ ﷺ واپس لوٹے تو میں( بھی ) واپس لوٹی ۔۔۔
( صحیح مسلم ، کتاب الجنائز باب مایقال عندو خول القبور والدعاء ح 103/974 وترقیم دارلاسلام :2256)
پھر آپ ﷺ نے اپنی زوجہ طیبہ عائشہ رضی اللہ عنہ کو بتایا کہ جبرئیل (علیہ السلام ) نے آکر مجھے کہا : آپ کا رب آپ کو حکم دیتا ہے کہ بقیع والوں (کی قبروں) کےپاس جاکر ان کے لیے (دعائے) استٖغفار کرو۔ (مسلم :974حوالہ مذکورہ )
عبداللہ بن ابی ملیکہ ( ثقہ فقیہ تابعی ) سے روایت ہے:
ان عائشه اقبلت ذات يوم من المقابر ّ فقلت لها :يا ام المومنين ! من اين اقبلت ؟ قالت : من قبر اخي عبدالرحمن بن ابي بكر ‘ فقلت لها: اليس كان رسول الله صلي الله عليه وسلم نهي عن زيارة المقبور ؟ قالت : نعم كان نهي ثم امر بزيارتها "
بے شک ایک دن ( سیدہ ) عائشہ رضی اللہ عنہا قبرستان سے آئیں تو میں نے ان سے پوچھا: اے ام المومنین ! آپ کہاں سے آئی ہیں ؟ انھوں نے فرمایا :اپنے بھائی عبدالرحمن بن ابی بکر (رضی اللہ عنہ) کی قبر سے ۔ میں نے انھیں کہا : کیا یا رسول اللہ ﷺ نے قبروں کی زیارت سے منع نہیں کیا تھا؟ انھوں نے فرمایا : جی ہاں آپ نے منع کیاتھا پھر زیارت ( کی رخصت ) کا حکم دے دیاتھا۔
( المستدرک للحاکم 1/ 376ح 1392 والبیہقی 4/78 وسندہ صحیح وصححہ الذہبی والبوصیری وغیر ہما، دیکھئے احکام الجنائز للالبانی ص 181)
اس حدیث سے دو مسئلے ثابت ہوئے:
اول: قبروں کی زیارت سے منع والاحکم منسوخ ہے ۔
دوم : عورتوں کے لیے جائز ہے کہ وہ کبھی کبھار اپنے قریبی رشتہ داروں کی قبروں کی زیارت کرلیں ۔ صحیح بخاری (1283) کی ایک حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ نبیﷺ نے ایک عورت کو (اپنے بچے کی) قبر کے پاس روتے دیکھا تو صبر کی نصیحت کی ( مگر آپ نے اسے قبر پر آنے سے منع نہیں کیا ) دیکھئے فتح البار ی (ج 3ص 148)
تنبیہ: 1) عورتوں کا کثرت سے قبروں کی زیارت کرنا ممنوع ہے ۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
"ان رسول الله صلي الله عليه وسلم لعن زوارات القبور " بے شک رسول اللہﷺ نے قبروں کی بہت زیادہ زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت بھیجی ۔
( سنن الترمذی کتاب الجنائز باب ماجاء فی کراھیہ زیارۃ القبور للنساء ح 1056 وقال: ھذا حدیث حسن صحیح " وصححہ ابن حبان الاحسان :3178 وسندہ حسن )
تنبیہ (2) عورتوں کا غیر لوگوں کی قبروں کی زیارت کرنا ممنوع ہے ۔سنن ابی داود کی ایک حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ نبیﷺ نے (اپنی امت کو سمجھانے کے لیے ) اپنی پیاری بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا : اگر تو کدی( قبرستان) تک چلی جاتی تو۔۔۔۔آپ نے سخت الفاظ بیان فرمائے ۔
( ح 3123 وسندہ صححہ الحاکم علی شرط الشیخین 1/ 373۔ 374 ووافقہ الذہبی (1) وحسنہ المنذری والہیثمی ) اس حدیث کے راوی ربیعہ بن سیف جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ وصدوق ہیں ۔
( دیکھئے نیل المقصود قلمی 2/714ح3123 وعمدۃ المساعی تحقیق سنن النسائی قلمی 1/188ح1881)
اس شدید وعید والی حدیث سے ثابت ہے کہ عورتوں کے لئے غیر مردوں کی قبرون پر جانا ممنوع ہے ۔
صحیح مسلم میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : (( فزوورا القبور فانها تذكركم الموت)) پس قبروں کی زیارت کرو کیونکہ یہ(زیارت) تمہیں موت یاد دلائے گی ۔( ح 108 /976 ودارالسلام : 2259)
سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :
((ونهيتكم عن زيارة القبور فمن اراد ان يزور فليزر ولا تقولوا هجرا))
اور میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیاتھا پس جو شخص زیارت کرنا چاہے تو کرلے اور (وہاں) باطل باتیں نہ کہنا ( سنن النسائی 4/89ح 2035 والسنن الکبریٰ للنسائی :2160 اسنادہ صحیح / عمدۃ المساعی 1/ 203)
2) قبرستان میں جانے سے موت اور آخرت کی یاد تازہ ہوتی ہے ۔انسان نصیحت وعبرت حاصل کرتا ہے جیسا کہ ابھی گزرچکا ہے ۔
3۔ قبرستان میں جا کر مسلمان مردوں کےلیے دعائےاستغفار کی جاتی ہے۔
تفصیلی دلائل کے لیے شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ کی"کتاب الجنائز "وغیرہ دیکھ لیں۔مختصراً عرض ہے کہ اہل سنت یعنی اہل حدیث قبرستان جا کر مردوں کے لیے دعا کرتے ہیں اور آخرت و موت کو یاد کرتے ہیں۔اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ پر عمل بھی ہو جاتا ہے۔
اہل حدیث لوگ قبروں پر جا کرباطل (کتاب وسنت کے مخالف)اعمال نہیں کرتے اور نہ باطل باتیں کرتے ہیں۔ قبروں جا کرمردوں سے دعائیں کرنا انھیں اللہ کے سامنے بطور وسیلہ پیش کرنا، شرکیہ و بدعیہ حرکات کرنا ، چادریں چڑھانا،قل اور چہلم کرنا قرآن مجید پڑھ کر اس کا ثواب مردوں کو بخشنا ، وغیرہ کا موں کا کوئی ثبوت قرآن و حدیث و اجماع اور آثار سلف صالحین سے نہیں لہٰذا یہ سب اعمال باطل اور اہل حدیث ان سے مکمل طور پر اجتناب کرتے ہیں۔
قبروں پر جو شرکیہ اعمال اور منافی کتاب و سنت حرکات ہو رہی ہیں آپ خود جا کر ان کا نظارہ کر سکتے ہیں تاکہ ان لوگوں کا بذات خود رد کر سکیں ۔ان قبرپرستوں کی قبر پرستی پر "اصل عبادۃ الاوثان "بتوں کی عبادت کی اصل کا باب باندھ کر علامہ جلال الدین السیوطی (متوفی 911ھ)لکھتے ہیں:
"ولهذا تجد أقواماً كثيرة من الضالين يتضرعون عند قبر الصالحين، ويخشعون، ويتذللون، ويعبدونهم بقلوبهم عبادة لا يفعلونها في بيوت الله المساجد، بل ولا في الاسحار بين يدي الله تعالى، ويرجون من الصلاة عندها والدعاء ما لا يرجونه في المساجد التي تشد إليها الرحال"
اور اس لیے آپ دیکھتے ہیں کہ بہت سے گمراہ لوگ نیک لوگوں کی قبروں کے پاس گڑ گڑاتے،خشوع اور عاجزی کرتے(ہوئےمانگتے)ہیں۔اوراپنے دلوں سے ان (مردوں)کی ایسی عبادت کرتے ہیں جو اللہ کے(مقرر کردہ)گھروں مسجدوں میں(اللہ کی عبادت)نہیں کرتے۔ بلکہ سحری کے وقت اللہ کے سامنے کھڑے ہو کر ایسی عبادت نہیں کرتے۔ یہ لوگ قبروں کے پاس نماز و دعاء سے ایسی امیدیں رکھتے ہیں جو وہ مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ میں بھی نہیں رکھتے۔(الامربالا تباع والنبی عن الابتداع ص:63)
یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ کے علاوہ کسی مسجد یا جگہ کی طرف خاص ثواب و برکت کے لیے سفر کرنا ثابت نہیں ہے۔دیکھئے صحیح البخاری (1189)وصحیح مسلم (1397)
ایک دفعہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوہ طور پر تشریف لے گئے تو سیدنا بصرہ بن ابی بصرہ الغفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انھیں فرمایا:اگر مجھے آپ کے جانے سے پہلے پتا چل جاتا تو آپ نہ جاتے ،پھر انھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سنائی۔
دیکھئے موطا امام مالک (ج1ص109ح239 وسند صحیح )
اسے ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ (موارد الظمان:1024)نے صحیح کہا ہے اور یہ روایت اپنے بعض متن کے ساتھ مختصراً سنن ابی داؤد(1046)وسنن الترمذی(491وقال حسن صحیح)وصحیح ابن خزیمہ(1738)اور المستدرک للحاکم(1/278،279وصححہ علی شرط الشیخین دوافقہ الذہبی)میں موجود ہے۔
معلوم ہوا کہ کوہ طور پر ثواب حاصل کرنے کے لیے سفر کر کے جانا جائز نہیں ہے توقبروں کی طرف سفر کر کے جانا بھی جائز نہیں ہے۔ اسی لیے شاہ ولی اللہ الدھلوی الحنفی (متوفی 1176ھ)لکھتے ہیں۔
"والحق عندي أن القبر ومحل عبادة ولي من أولياء الله والطور كل ذلك سواء في النهي"
اور میرے نزدیک حق یہ ہے کہ بے شک قبر اللہ کے ولیوں میں سے کسی ولی کی عبادت گاہ اور کوہ طور ممانعت میں سب برابر ہیں۔ واللہ اعلم۔
(حجۃ اللہ البالغہ ج1ص192من ابواب الصلوٰۃ المساجد)
آپ ان لوگوں سے کہہ دیں کہ رسم قل ملاجی کا ختم شریف اور چہلم وغیرہ اعمال کا کوئی ثبوت قرآن و حدیث میں نہیں ہے۔ قرآن پڑھ کر مردوں کو بخش دینا بھی کسی دلیل سےثابت نہیں ہے جبکہ آیت:
﴿وَأَن لَيسَ لِلإِنسـٰنِ إِلّا ما سَعىٰ ﴿٣٩﴾... سورةالنجم
انسان کو وہی ملے گا جس کی وہ کوشش کرے (سورۃ النجم:39)سے ثابت ہے کہ قرآن مجید کا ثواب مردوں کو نہیں پہنچتا ۔
حافظ ابن کثیر الدمشقی (متوفی 774ھ) لکھتے ہیں ۔
"ومن هذه الآية استنبط الشافعى ومن اتبعه، أن القراءة لا يصل إهداء ثوابها إلى الموتى. لأنه ليس من عملهم ولا كسبهم، ولهذا لم يندب إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم أمته، ولا حثهم عليه، ولا أرشدهم إليه بنص ولا إيماء، ولم ينقل ذلك عن أحد من الصحابة، ولو كان خيرا لسبقونا إليه"
اس آیت کریمہ سے(امام) شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے متبعین نے یہ (مسئلہ)استنباط کیا ہے کہ قرآءت کا ثواب مردوں کو بخشنے سے نہیں پہنچتا کیونکہ یہ ان کے اعمال اور کمائی سے نہیں ہے۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو اس طرف ترغیب اور حکم نہیں دیا اور نہ کوئی صریح بات ارشاد فرمائی ہے۔اورنہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کسی ایک سے یہ کام ثابت ہے۔اگر یہ کام بہتر ہوتا تو ہم سے پہلے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اس پر عمل کرتے۔
(تفسیر ابن کثیر تحقیق عبدلرزاق المہدی ج6ص38،سورۃالنجم:39)
امید ہے کہ اب آپ یہ مسئلہ سمجھ گئے ہوں گے۔ان شاء اللہ(9/ربیع الاول1426ھ)(الحدیث:14)
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب