السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
درج ذیل روایت کی تحقیق درکار ہے :
جب رسول اللہ ﷺ کو غسل دیاگیا تو پانی آپ کی آنکھوں کے گڑھوں پر بلند ہوگیا۔ علی رضی اللہ عنہ نے اسے پی لیا تو انہیں اولین اور آخرین کا علم دے دیاگیا ۔ ( کلیم حسین شاہ راوالپنڈی )
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ روایت بے سند وبے اصل ہے ۔اسے عبدالحق دہلوی نے اپنی کتاب " مدارج النبوۃ" "میں " روایت کیا گیا ہے کہ" الفاظ سے بے سند وبے حوالہ لکھا ہے ۔ (جلد دوم ص 596 اردو مترجم ، مطبوعہ مکتبۃ اسلامیہ 140 اردوبازار لاہور)
مشہور صوفی احمد بن محمد القسطلانی ( متوفی 923ھ) لکھتے ہیں
" وزكر ابن الجوزي انه روي عن جعفر بن محمد قال: كان الماء يستنقع في جفون النبي صلي الله عله وسلم فكان النبي صلي الله عليه وسلم فكان علي يحسره واما ما روي ان عليا لما غسله صلي الله عليه وسلم امتص ماء محاجر عيينيه فشربه وانه قدورت بذلك علم الاولين والاخرين ‘ فقال النووي : ليس بصحيح "
ابن جوزی نے ذکر کیا ہے کہ جعفر بن محمد سے روایت کی گئی ہے کہ نبیﷺ کی پلکوں پر پانی جمع ہوجاتا تھا تو علی رضی اللہ عنہ اسے پی لیتے تھے ۔اور یہ جو روایت کی گئی ہے کہ جب علی رضی اللہ عنہ نے آپﷺ کو غسل دیا تو آپ کی پلکوں کا پانی چوس کرپی لیا۔اس وجہ سے انھیں اولین وآخرین کا علم دیاگیا پس نووی نے کہا : یہ صحیح نہیں ہے ۔ ( المواھب الدنیۃ بالمنح المدیحۃ ج 3ص396)
یہ دونوں روایتیں باکل بے اصل اور من گھڑت ہیں ۔ جعفر بن محمد الصادق ؒ کی طرف منسوب روایت کہیں بھی باسند نہیں ملی ۔ جو لوگ رسول اللہﷺ پر جھوٹ بولنے سے نہیں شرماتے وہ جعفر صادق پر جھوٹ بولنے سے نہیں شرماتے وہ جعفر صادق پر جھوٹ بولنے سے کس طرح شرماسکتے ہیں۔ابن جوزی کی اصل کتاب دیکھنی چاہیے تاکہ یہ معلوم ہو کہ اگر ابن جوزی نے یہ بے سند روایت بیان کی ہے تو اس پر کیا جرح کی ہے ؟
خلاصۃ التحقیق : خط کی مسئولہ روایت موضوع ، بے اصل وبے سند ہے ۔
وما علينا الاالبلاغ (الحديث :٢١)
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب