السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا سورہ ملک کی تلاوت عذاب قبر سے نجات دلائے گی ؟ صحیح احادیث کے حوالے سے رہنمائی فرمادیں۔ ( سید جاوید مسعود غزنوی ، اٹک )
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سورہ ملک (67۔تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ۔۔۔الخ ) کی فضیلت میں درج ذیل احادیث مروی ہیں۔
1: يحيي بن عمرو بن مالك النكري عن ابيه عن ابي الجوزاء عن ابن عباس قال: ضرب بعض اصحاب النبي صلي الله عليه وسلم خبائه علي قبر وهو لا يحسب انه قبر ‘ فاذا فيه انسان يقرا سورة ملك حتي ختمها فاتي النبي صلي الله عليه وسلم فقال : يارسول الله ! ضربت خباءي علي قبر وانا لا احسب انه قبر ‘ فاذا فيه انسان يقرا سورة الملك حتي ختمها ّ فاتي النبي صلي الله عليه وسلم (( هي المعانعة‘ هي المنجيه تنجيه من عذاب القبر )) هذا حديث غريب من هذا الوجه وفي الباب عن ابي هريرة "
یحیی بن عمرو بن مالک النکری سے روایت ہے کہ اس نے اپنے باپ ( عمر وبن مالک النکری ) سے، اس نے ابوالجوزاء سے اس نے ( عبداللہ) بن عباس ( رضی اللہ عنہ) سے بیان کیا کہ : نبیﷺ کے ایک صحابی نے ایک قبر پر خیمہ لگادیا اور انھیں پتا نہیں تھا کہ یہ قبر ہے ' کیا دیکھتے ہیں کہ ایک انسان ( پوری) سورۃ الملک پڑھ کر اس کا ختم کر رہا ہے ، تو انھوں نے نبیﷺ کے پاس آکر کہا : یارسول اللہ ! میں نے قبر پر ایک خیمہ لگایا اور مجھے یہ خبر نہیں تھی کہ وہاں قبر ہے ، کیا دیکھتا ہوں کہ ایک انسان سورۃ الملک آخر تک پڑھ کر اس کا ختم کر رہا ہے؟ تو نبیﷺ نے فرمایا : " یہ روکنے والی ہے، یہ نجات دینے والی ہے۔ یہ اسے قبر کے عذاب ے نجات دینے والی ہے" یہ حدیث اس سند سے غریب (اجنبی) ہے ۔اور اس باب میں ابو ہریرۃ (رضی اللہ عنہ ) سے بھی (حدیث ) مروی ہے ۔ ( سنن اترمذی 4/ 47 ح 2890 ونسخہ مخطوطہ ص1/187)
اسے یحٰیی بن عمرو بن مالک کی سند کے ساتھ درج ذیل محدثین نے بھی روایت کیا ہے :
ابو نعیم الاصبہانی ( حلیۃ الاولیاء 3/81) البیہقی ( اثبات عذاب القبر بتحقیقی ح 146 وقال : تفرد بہ یحیی بن عمرو مالک وھو ضعیف ) محمد بن نصر المروزی ( مختصر قیام اللیل للمقریزی ص 145،146) ابن عدی الجرجانی (الکامل فی ضعفاء الرجال 7/2662) الطبرانی (المعجم الکبیر 12/175 ح12801) اور المزی ( تہذیب الکمال 20/181۔182)
یہ روایت بلحاظ اصول حدیث : ضعیف ومردود ہے۔ اس کے راوی یحیی بن عمر و بن مالک کے بارے میں امام بیہقیؒ نے فرمایا : وہ ضعیف ہے"
حافظ ذہبی نے فرمایا :" ضعيف" ( الکاشف : 3/232)
حافظ ابن حجر العسقلانی نے گواہی دی: " ضعيف ‘ ويقال : ان حماد بن زيد كذبه " ( تقريب التہذیب :7614)
اس راوی پر دیگر محدثین کی جرح کے لیے دیکھئے تہذیب الکمال وتہذیب التہذیب اور میزان الاعتدال وغیرہ
2: شعبة عن قتادة عن عباس الجشمي عن ابي هريرة عن النبي صلي الله عليه وسلم قال: (( ان سورة من القران ثلاثون آية ‘ شفعت لرجل حتي غفرله ّ وهي تبارك الذي بيده الملك )) هذا حديث حسن "ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا : بے شک قرآن کی ایک سورت تیس (30) آیتوں والی نے اپنے پڑھنے والے کی سفارش کی کہ حتی کہ اسے بخش دیا گیا ، یہ سورٰۃ ملک ہے ۔ یہ حدیث حسن ہے ۔ ( سنن الترمذی :2891)
اس حدیث کی سند حسن لذاتہ ہے ۔ اسے ابوداود (1400) اور ابن ماجہ (3786) وغیرہما نے بھی امام شعبہ سے بیان کیا ہے ،حافظ ابن حبان ( موارد الظمان :1766) حاکم (2/497،498) اور ذہبی نے اسے صحیح قراردیا ہے ،
تنبیہ 1: اس روایت پر بعض کی جرح مبہم ومردود ہے ۔
تنبیہ2: قتادۃ سے اگر شعبہ روایت کریں تو قتادہ کی روایت سماع پر محمول ہوتی ہے ۔
1) سلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ بْنِ يَحْيَى الطَّبِيبُ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ الْأُبُلِّيُّ، حَدَّثَنَا سَلَّامُ بْنُ مِسْكِينٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: «سُورَةٌ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هِيَ إِلَّا ثَلَاثُونَ آيَةً خَاصَمَتْ عَنْ صَاحِبِهَا حَتَّى أَدْخَلَتْهُ الْجَنَّةَ , وَهِيَ سُورَةُ تَبَارَكَ))انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : قرآن کی ایک سورت ،جس کی تیس آیتیں ہیں ۔نے اپنے پڑھنے والے کا دفاع کیا حتی کہ اسے جنت میں داخل کر دیا ،یہ سورت تبارک ( الذی بیدۃ الملک ) ہے ۔
(المعجم الصغیر للطبرانی 1/176 ح 476 والاوسط :3667 المختارہ للضیاء المقدسی 5/ 114،115 ح 1738۔1739)
اس روایت کے راوی ابو ایوب سلیمان بن داود بن یحیی مولی بنی ہاشم کے حالات توثیق مطلوب ہیں ۔
2) "ليث "( بن ابي سليم ) عن ابی الزبیر عن جابر : ان النبي صلي الله عليه وسلم كان لا ينام حتي يقرا : (الم تنزيل و ‘تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ)
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ سورۃ السجدۃ اور سورۃ الملک پڑھنے کے بغیر نہیں سوتے تھے ۔( سنن الترمذی :2892)
یہ روایت لیث بن ابی سلیم کی سند سے درج ذیل کتابوں میں بھی موجود ہے۔
مسند احمد (3/340ح 14714) مسند عبد بن حمید(ح : 1038، ولیث صرح بالسماع عندہ ) مسند الدارمی (ح:3414 ، دوسرا نسخہ :ح 3454) قیام اللیل للمروزی مختصر المقریزی (ص 146) مصنف ابن ابی شیبہ ( 10/424ح 2980) السنن الکبریٰ للنسائی (ح 10542وعمل الیوم واللیلۃ ح: 707) عمل الیوم واللیلۃ لابن السنی (ح :675، دوسرا نسخہ ح: 677) شیخ سلیم الہلالی نے اس روایت کی طویل تخریج کر رکھی ہے ۔
لیث بن ابی سلیم ضعیف راوی ہے لیکن مغیرہ بن مسلم ( صدوق / تقریب التہذیب : 6850) نے یہی روایت ابو الزبیر المکی سے بیان کر رکھی ہے ۔
لیث بن ابی سلیم ضعیف راوی ہے لیکن مغیرہ بن مسلم (صدوق / تقریب التہذیب :6850) نے یہی روایت ابو الزبیر المکی سے بیان کر رکھی ہے ۔
( دیکھئے السنن الکبریٰ للنسائی :10542 اوعمل الیوم واللیلۃ : 706 والادب امفرد للبخاری :1207)
ابو الزبیر مدلس راوی تھے ۔ دیکھئے میری کتاب " الفتح المبین فی تحقیق طبقات المدلسین "101/3) اور روایت منعن ( عن سے) ہے لہذا یہ سند ضعیف ہے ۔
ابو الزبیر سے پوچھا گیا کہ آپ نے یہ روایت جابر( بن عبداللہ رضی اللہ عنہ) سے سنی ہے ؟
انھوں نے کہا: مجھے یہ خبر صرف صفوان یا ابن صفوان نے ( مرسلا) بتائی ہے ۔ ( سنن الترمذی :2892)
حافظ ابن حجر نے کمال تحقیق کرتے ہوئے فرمایا ہے: وعلي هذا فهو مرسل او معضل "اس لحاظ سے یہ روایت مرسل یا معضل ( منقطع ) ہے ،( نتائج الافکار 3/ 267)
حافظ ابن حجر کے اس کلام پر شیخ سلیم بن عید الہلالی السلفی لکھتے ہیں :
وهذا كلام في غاية التحقيق ‘ وقد خفي هذا علي شيخنا الالباني رحمه الله في الصحيحه (٢/١٣-) فجعل رواية زهير بن معاوية هذه عن صفوان او ابن صفوان عن جابر وهذا خطا منهّ رحمه الله فان صفوان لم يروه عن جابر وانما منتهاٰه عن صفوان نفسه ۔۔۔"
اور یہ کلام تحقیق کے انتہائی اعلی مقام پر ہے اور یہ ہمارے استاذ شیخ الالبانی ؒ پر پوشیدہ رہ گیا۔انھوں نے اپنی کتاب الصحیہ میں زہیر بن معاویہ کی روایت کو صفوان یا ابن صفوان عن جابر سمجھ لیا اور یہ ان کی غلطی ہے ۔ رحمہ اللہ، بے شک صفوان نے یہ روایت جابر (رضی اللہ عنہ )سے بیان نہیں کی، یہ تو ان کا اپنا قول ہے ( عجالۃ الراغب الممتنی 2/769) یا مرسل ہے ۔
خلاصۃ التحقیق : یہ روایت بلحاظ سند ضعیف ہے ۔
3) عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
" يؤتي رجل من جوانب قبره ‘ فجعلت سورة من القرآن تجادل عنه حتي منعته " ایک آدمی کی قبر میں قرآن کی ایک سورت (تیس آیتوں والی) نے آدمی کا دفاع کیا حتی کہ وہ شخص عذاب سے بچ گیا۔( مرہ تابعی کہتے ہیں کہ ) میں نے اور مسروق (تابعی ) نے غور کیا تو اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ سورۃ الملک ہے ۔ (دلائل النبوۃ للبیہقی 7/41 وسندہ حسن) اس روایت کی دوسری سندوں کے لیے دیکھتے مستدرک الحاکم (2/498) وغیر ہ ایک روایت میں ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا : سورة تبارك هي المعانعة تمنع ياذن الله من عذاب القبر ۔۔۔الخ
سورۃ الملک ،اللہ کے اذن سے ، عذاب قبر سے بچاتی ہے ،( اثبات عذاب القبر للبیہقی ح 145 بتحقیقی وسندہ حسن)
6: خالد بن معدان ؒ ( تابعی ، متوفی 103ھ) سونے سے پہلے سورۃ السجدۃ او ر سورۃ الملک ضرور پڑھتے تھے اور فرماتے تھے کہ یہ دو سورتیں پرھنے والے کی سفارش کریں گی اور اسے عذاب قبر سے بچائیں گی ۔( مسنددارمی 2/455 ح3413 وسندہ اضواء المصابیح ح 2176)ب)
یہ روایت دارمی (من الحذاق) کی عبداللہ بن صالح کاتب اللیث سے روایت ہونے کی وجہ سے حسن ہے ۔صحیح حسن کی دو قسمیں انتہائی اہم ہیں :
1) صحیح لذاتہ 2) حسن لذاتہ
صحیح حدیث کی طرح حسن حدیث بھی حجت ہوتی ہے ،
خلاصۃ التحقیق : سونے سے پہلے سورہ تبارک پڑھنا صحیح ہے اور موجب ثواب ہے ۔ (الحدیث:4)
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب