سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(262) دوران تلاوت سلام کرنا

  • 21155
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1568

سوال

(262) دوران تلاوت سلام کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک شخص قرآن مجید کی تلاوت کررہا ہے  کیا اسے سلام  کہنا جائز  ہے؟ ( شیر  محمد  بیاڑ کوہستان )


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

امام اہل سنت ابو  عبداللہ احمد  بن محمد  بن  حنبل الشیبانی ؒ(164ھ تا 241ھ  ) نے فرمایا:" ثنا عبداللہ بن یزید :انبانا قباث بن رزین اللخمی قال: سمعت  علی  بن رباح اللخمی  یقول  :سمعت  عقبة بن عامر الجهني  يقول : كنا جلوسا في  المسجد  نقرا القران  ‘ فدخل علينا رسول الله صلي الله عليه وسلم  فسلم  علينا  فرددنا عليه  السلام ‘ ثم قال:  (( تعلموا كتاب الله واقتنوه  (قال  قباث :وحسبته  قاله: وتغنوا به) فوالذي  نفس محمد بيده ! لهو اشد تفلتا من المخاض من العقل ّ))

 عقبہ بن عامر الجہنی  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ  ہم مسجد میں بیٹھنے  قرآن  پڑھ  رہے تھے تو  رسول اللہﷺ ہمارے  پاس تشریف لائے ،پھر  آپ نے  ہمیں  سلام  کہا تو ہم نے سلام  کا جواب  دیا۔ پھر  آپ نے فرمایا :اللہ کی کتاب  کا علم  حاصل  کرو اور اسے  (اپنے حافظے  میں) جمع کرو۔ ( قباث  (راوی ) نے کہا: میرے خیال  میں انھوں نے ( علی  بن رباح) نے یہ ( جملہ بھی) کہا: اور اسے  خوش الحانی  سے پڑھو ۔) پس اس ذات  کی قسم   ہے کہ جس  کے ہاتھ میں  محمد (ﷺ) کی جان  ہے ۔ بے شک  وہ(قرآن) رسیوں  میں بندھی  ہوئی اونٹنی  سے تیز (دل  ودماغ) سے نکل جاتا ہے  ۔ ( مسند احمد  4/150 ح 1749وسندہ  حسن )

 یہ روایت  حسن ہے  اسے امام ابو عبدالرحمن  النسائی  ( 215ھ تا 303ھ) نے بھی  احمد  بن نصر ( بن زیاد النیسابوری) عن عبداللہ بن یزید (ابی عبدالرحمن ) المقرئ کی سندسے  روایت کیا ہے۔ (السنن الکبریٰ  للنسائی  ج 5ص 18،19 حدیث 8035 کتاب  فضائل القرآن  باب  28،الامر بتعلم القرآنوالعمل  بہ)

 اب راویوں کا مختصر تعارف  پڑھ لیں:

1)     عبداللہ بن  یزید المکی  المقرئ  کتب  ستہ  کے بنیادی  راوی  اور بالاتفاق ثقہ  ( یعنی  قابل  اعتماد ) تھے۔ حافظ ابن حجر  نے فرمایا :"  ثقه  فاضل ّاقراالقرآن نيفا وسبعين سنة ثلاث عشرة وقد قارب المائة وهو من كبار شيوخ البخاري "

و ہ ثقہ  فاضل  تھے۔ انھوں نے ستر سال  سے کچھ  زیادہ (لوگوں لو) قرآن  پڑھایا۔آپ  213ھ  میں تقریبا سوسال کی عمر  میں فوت ہوئے۔آپ  امام بخاری  کے بڑے اساتذہ  میں سے تھے۔( تقریب  التہذیب  مع  التعقیب ص 287 ت3715)

2) قباث بن زرین "صدوق مقري " یعنی  سچے قاری  قرآن  تھے۔ ( تقریب  التہذیب ص 422ت 5508)

انھیں ابن حبان  نے  ثقہ  ،ابو حاتم  الرازی  نے " لاباس بحديثه "اور احمد  بن حنبل  نے "لاباس به" قراردیا ہے۔ ( تہذیب الکمال س ج 15ص 207)

3)علی بن رباح  اللخمی ،صحیح  مسلم اور سنن  اربعہ  کے راوی "ثقہ  " تھے ۔ ( التقریب  ص271)

امام بخاری نے  الادب المفرور اور خلق افعال  العباد  میں ان سے  روایت لی  ہے۔

1)     عقبہ  بن عامر مشہور ( جلیل القدر )صحابی  اور " فقیہ  فاضل " تھے۔ ( التقریب  :4641)

قباث کی وجہ سے  یہ سند  حسن لذاتہ  ہے ۔ شیخ  محمد  ناصر الدین البانی  ؒ نے کہا: هذا اسناده  صحيح  " یعنی  یہ سند صحیح  ہے ( سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ 7/847 ح3285)

 یہ سلسلہ  صحیحہ  کی آخری  جلد ہے  جو تین  جلدوں میں  شائع ہوئی  ہے اور حدیث  نمبر  4035 پر ختم  ہوگئی ہے ،اس کے آخر میں لکھا ہوا ہے  کہ  

" هذا آخر ماحققه  الشيخ  من هذه  "السلسلة " المباركة  ان شاء الله  وكان  ذلك  او آخر شهر جمادي  الاولي عام  ١٤٢-ه" ( الصحيحه  ج  ٧ ص ١٧٤١)

اس کے بعد شیخ  البانی  فوت  ہوگئے ؒ

 روایت مذکورہ  سے درج  ذیل  مسائل ثابت  ہوتے ہیں :

1: قرآن  پڑھنے والے کو سلام  کہنا جائز  ہے۔

2: قرآن مجید پڑھنے والا،اس سلام  کا جواب  دے گا۔

3:  قرآن مجیس کا علم  حاصل کرنا اسے یاد کرنا  اور اس پر عمل  کرنا چاہیے حدیث مذکور کے راویوں  نے قراءت قرآن کا علم حاصل  کرکے  اس کی تعلیم  سی ہے۔ رحمہم اللہ تعالیٰ

4: قرآن  ۔ خوش  الحانی اور اصول  تجوید وقراءت  کے مطابق پڑھنا  چاہیے ۔ " وتغنوا به"  کے الفاظ  ،اس روایت  کی بعض  دوسری اسانید میں شک   کےمروی ہیں  اور شواہد  کے ساتھ  بالکل صحیح  ہیں۔

5: یہ روایت  مصنف  ابن ابی شیبہ  (ج  10 ص 477 ح  29982) صحیح  ابن حبان  ( موارد الظمان  حدیث نمبر  1788) وغیرہما  میں اختصار  کے ساتھ مروی ہے جو کہ  چنداں  مضر نہیں ہے ۔ حدیث اگر ایک جگہ  مختصر اور دوسری طویل  ومفصل  مروی  ہوتو یہ ضعف  کی  دلیل  نہیں  ہوا کرتی  بشرطیکہ  سند  صحیح  یا حسن  ہو۔

6: یہاں پر ایک بات  بطور عرض ہے  کہ مسند احمد میں " حدثنا  عبدالله : حدثني  ابي" کا مطلب یہ ہے کہ  " حدثنا  عبدالله  بن احمد بن حنبل  "حدثني  ابي احمد ابن حنبل " امام احمد بن حنبل  ۔ زوائد کو چھوڑ کر اس  کتاب "المسند" کے مصنف  ہیں اور عبداللہ بن احمد، ان کے بیٹے،ان سے  اس کتاب  کے راوی ہیں لہذا مسند احمد کی غیر زوائد والی روایات "حدثنی  ابی " کے بعد سے شروع ہوتی ہیں۔

7: بعض لوگ کہتے ہیں کہ  کھانا کھانے  والوں  کو سلام  نہیں کہناچاہیے (!)  حالانکہ  میرے  علم  کے مطابق اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے ۔ جب نمازی  اور قاری  قرآن  کو سلام  کہناجائز ہے تو کھانا کھانے والے کو سلام  کہنامسنون  ہے۔

8: مسجد میں دخول  کے وقت لوگوں  کو سلام  کہنا مسنون  ہے۔

9: نمازی  کو  حالت نماز میں بھی باہر  سے آنے  والا سلام  کہہ سکتا ہے جیسا کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ رسول اللہﷺ ایک دفعہ  نماز پڑھ  رہے تھے تو  جابر( بن عبداللہ الانصاری) رضی اللہ عنہ  نے آپ  کو سلام کہا۔آپ  نے (زبان  کے بجائے) اشارے  سے جواب  دیا۔( دیکھئے صحیح مسلم  کتاب  المساجد ،باب  تحریم  الکلام  فی الصلوۃ ونسخ  ماکان  من اباحۃ ح 540/36)

 رسو ل اللہ ﷺ کی وفات کے بعد صحابہ کرام  رضی اللہ عنہ  کا اسی  پر عمل  تھا۔

نافع( مولی عبداللہ بن عمر ، مشہور تابعی ) سے روایت ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ  نےایک نمازی کو سلام  کہا تو اس نے (لاعلمی کی وجہ سے) زبان  سے جواب  دے دیا، عبداللہ  بن عمر رضی اللہ عنہ  نے  فرمایا :" اذا سلم علي  احدكم وهو يصلي  فلايتكلم   ولكن  يشير بيده"

 جب تم  میں سے  کسی کو حالت نماز میں سلام کہاجائے تو وہ زبان سے  جواب نہ دے  بلکہ  اپنے ہاتھ سے  اشارہ کردے (مصنف  ابن ابی شیبہ ج 2ص 74 السنن الکبری  للبیہقی  ج 2ص 259 واللفظ لہ ۔ وسندہ  صحیح )

اس روایت   کی سند بالکل صحیح  ہے ۔مصنف  عبدالرزاق وغیرہ  میں دیگر آثار  بھی ہیں  جن کی طرف  راقم الحروف نےنیل  المقصود فی التعلین  علی سنن  ابی داود (مخلوط ج  1ص 292 ح 27) میں ارشاد  کردیا ہے ۔

10: قرآن مجید حفظ  کرنے والے طالب علموں  کو چاہیے کہ  حفظ  پر خوب محنت  کریں  ۔ سبق سبقی  اور منزل  کا خاص خیال  رکھیں۔اگر ہوسکے  تو چھٹی  والے دن، گزشتہ ہفتے  کی ساری منزل ،زبانی  پڑھ لیں یا کسی کو سنادیں، ورنہ  یاد رکھیں کہ قرآن مجید  ، کثرت مراجعت کے بغیر  جلدی  بھول جاتا ہے۔ ( شہادت  نومبر  2002)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد1۔كتاب الدعاء۔صفحہ488

محدث فتویٰ

تبصرے