السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
استخارہ کتنے روز کرنا مسنون ہے؟استخارہ کن امور میں مستحب ہے؟
حدیث : رسول اللہ ﷺ نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو فرمایا : جب تم کسی کام کو کرنے لگو تو اپنے رب سے سات مرتبہ استخارہ کرو پھر جس بات پر دل مطمئن ہوجائے اسے اختیار کرو اسی میں خیر ہے ۔یہ حدیث ابن قیم ؒ نے اپنی کتاب اذکار مسنونہ میں ابن السنی کی " عمل الیوم اللیلۃ" کے حوالے سے نقل کی ہے ،استخارہ کرنا مستحب ہے یا واجب ؟
ہمارے فاضل مولوی ہیں ، وہ کسی کو ایک ماہ تک استخارہ کرنے کا کہہ رہے تھے ۔ میں نے ا نھیں یہ حدیث بتائی مگر پھر بھی وہ اپنے موقف پر ڈٹے رہے ۔دلیل مانگنے پر نہ دی ، مجھے اب ایک صحابی کا اثر یاد آرہا ہے مگر حوالہ یاد نہیں جس میں صحابی تین دن تک استخارہ کا کہتے ہیں ۔( محمد جعفر ابو عثمان )
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
استخارے کے لیے دنوں کی شرط نہیں ہے ۔جب بھی مباح امور میں سے کوئی مشکل اور پیچیدہ مسئلہ ہوتو استخارہ کرلیں جیسا کہ صحیح حدیث سے ثابت ہے ۔ ( دیکھئے صحیح بخاری :1162،6382)
استخارہ کرنا مستحب ہے واجب نہیں کیونکہ " من غير فريضة’ کے الفاظ بھی عدم وجوب پر دلالت کرتے ہیں۔( دیکھئے فتح الباری ج 11ص 185 تحت ح6382)
امام بخاری نے اس حدیث کو تطوع ( نفل) سے متعلق سمجھتے ہیں ،ابن السنی کی جس روایت کا حوالہ حافظ ابن القیم نے اذکار مسنونہ میں دیا ہے وہ روایت عمل الیوم والیلۃ میں" عبيدالله بن الحميري :ثنا ابراهيم بن البراء بن النضر بن انس ابن مالك عن ابيه عن جده " کی سند سے موجود ہے ۔ اس کی سند سخت ضعیف ہے ،
النضر بن حفص بن انس بن مالک غیر معروف ہے۔
دیکھئے لسان المیزان (6/191ت 8802، دوسرا نسخہ 7/192 ت 8877)
ابراہیم بن العلاء او ر عبیداللہبن احمیری بھی غیر معروف ہیں ۔
حافظ ابن حجر لکھتے ہیں " لكن سنده واه جدا " لیکن اس کی سند بہت زیادہ کمزور ہے۔ ( فتح الباری ج 11 ص187)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اپنی کتاب الکلم الطیب (ص/71 ح116) میں "ويذكر عن انس" لکھ کر اس کے ضعیف ہونے کی طرف اشارہ کردیا ہے ،
آپ نے جس اثر کی طرف اشارہ کیا ہے وہ مجھے یاد نہیں ہے،واللہ اعلم ( شہادت ،فروری 2002)
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب