السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک حدیث میں آیا ہے کہ جو شخص کسی بازار میں داخل ہوکر "لااله الا الله وحده لاشريك له ‘له الملك وله الحمد وهو علي كل شئي قدير " پڑھے تو اس کے لیے ایک لاکھ نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور ایک لاکھ گناہ معاف فرمادیئے جاتے ہیں ۔کیا یہ حدیث صحیح ہے ؟ (خرم ارشاد محمدی ،دولت نگر ، پنجاب)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس روایت کی بہت سی سندیں ہیں جن میں سے دو سندوں پر کلام درج ذیل ہیں :
پہلی سند : کتاب الدعاء الطبرانی میں ہے :"حدثنا عبيد بن غنام والحضرمي قالا: ثنا ابوبكر بن ابي شيبة : ثنا ابوخالد الاحمر عن المهاجر بن حبيب قال: سمعت سالم بن عبدالله يقول : سمعت ابن عمر يقول : سمعت عمر رضي الله عنه يقول :سمعت رسول الله صلي الله عليه وسلم يقول: (( من دخل سوقا من الاسواق ‘ فقال لااله الا للہ"۔۔۔۔۔الخ ( رقم الحدیث :792، 793)
یہ سند ووجہ سے ضعیف ہے:
1: ابو خالد الاحمر مدلسی تھے ( دیکھئے جزء القراۃ للبخاری بتحقیقی :267)
اور یہ روایت منعن (عن سے) ہے ۔ مدلس کی منعن روایت ضعیف ہوتی ہے ،
2) امام علی بن عبداللہ المدینی نے مسند عمر میں لکھا ہے کہ ابو خالد الاحمر نے مہاجرین حبیب سے ملاقات نہیں کی ہے ۔ ( مسند الفاروق لابن کثیر ج 2 ص642 حدیث فی تضعیف ثواب تو حید اللہ وذکرہ ) یعنی یہ سند منقطع ہے ۔
معلوم ہوا کہ یہ سند ضعیف ہے ۔یہاں پر یہ بات انتہائی عجیب وغریب ہے کہ شیخ سلیم الہلالی نے اس ضعیف ومنقطع روایت کو "وهو اسناد حسن لذاته " لکھ دیا ہے ! ( عجالہ الراغب الممتنی ج 1ص 239 ح 183)
اس ضعیف سند کو " اسناد حسن لذاته " کہنا یا لکھنا سرے سے باطل ومردود ہے ۔
دوسری سند : مستدرک الحاکم میں ہے :
" مسروق بن المرزبان : ثنا حفص بن غیاث عن ھشام بن حسان عن عبدالله ابن دینار عن ابن عمر رضی الله عنهما قال قال رسول الله صلی الله علیه وسلم : من دخل السوق فباع واشتری فقال: لا اله الا اللہ ۔۔۔۔الخ
(المستدرک ج 1ص 539ح1975 وقال ھذا اسنادصحیح علی شرط الشیخین ولم یخرجاہ وتعقبہ الذہبی )
یہ روایت دو وجہ سے ضعیف ہے:
1: حفص بن غیاث مدلس تھے۔( طبقات المدلسین 9/1 طبقات ابن سعد 6/390)
حافظ ابن حجر ؒ کاحفص بن غیاث کو مدلسین سے باہر نکالنا (النکت علی کتاب ابن الصلاح 2/637) صحیح نہیں ہے ۔
2: ہشام بن حسان بھی مدلس تھے ( طببقات المدلسین :110/3 المرتبۃ الثالثہ )
اور یہ روایت منعن ہے۔اس واضح ضعف کے باوجود شیخ سلیم الھلالی نے اس سند کو" فھذا اسناد حسن لذاتہ " لکھ دیا ہے ۔(عجالۃ س الراغب الممتنی 1/241)!
اس سلسلے کی دوسری ضعیف ومردود روایتوں کے لیے دیکھئے کتاب العلل الکبیر للترمذی (2/912 وقال البخاری وابو حاتم الرازی :ھذا حدیث منکر ) المستدرک للحاکم (1/539) وعجالۃ الراغب الممتنی (1/237۔243) والصحیحہ للالبانی (7/381۔ 391ح 3139) والموسوعۃ الحدیثیہ ( مسند الامام احمد 1/114، 413)
اس حدیث کو علامہ شوکانی (تحفۃ الذاکرین ص273) علامہ البانی ؒ اور سلیم الہلالی وغیرہم کا حسن یاصحیح قراردینا غلط ہے ۔ بلکہ حق یہی ہے کہ یہ روایت اپنی تمام سندوں کے ساتھ ضعیف ہی ہے ۔وما علینا الالبلاغ (ا لحدیث :14)
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب