السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
احناف صلوۃ الجمعہ سے پہلے (مخصوص) چار رکعت سنتیں پڑھنے کے لیے درج ذیل روایت پیش کرتے ہیں : اعلاء السنن (ج 7صفحہ 13، حدیث :1762)
اس روایت کی سندا کیا حیثیت ہے؟(ابو فہد ،بہاولپور)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ روایت المعجم الاوسط (ج 2ص368ح1640) میں موجود ہے ۔امام طبرانی ؒ نے فرمایا:" حدثنا احمد (بن الحسين بن نصر الخراساني) قال: حدثنا شباب العصفري قال: حدثنا محمد بن عبدالرحمن السهمي قال: حدثنا حصين بن عبدالرحمن السلمي عن ابي اسحاق عن عاصم بن ضمرة عن علي قال: كان رسول الله صلي الله عليه وسلم يصلي قبل الجمعة اربعا وبعدها اربعاّ يجعل التسليم في آخر هن ركعة " سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جمعہ سے پہلے اور بعد میں چار چار رکعات پڑھتے تھے ۔ اور سلام آخری (چوتھی) رکعت میں پھیرتے تھے ۔
اس روایت کو زیلعی حنفی نے نصب الرایہ (ج 2ص 202) میں نقل کیا ہے مگر اس میں بہت سی مطبع یا نقل در نقل کی غلطیان واقع ہوگئی ہیں ۔:
1) ابو اسحاق کا واسطہ گرگیا ہے۔
2) شباب العصفری کے بجائے " سفیان العصفری " چھپ گیا ۔
3) محمد بن عبدالرحمن السہمی کے بجائے "محمد بن عبدالرحمن التیمی " لکھا ہوا ہے نیز یہ روایت کئی وجہ سے ضعیف ہے:
1) ابواسحاق السبیعی مدلس ہیں۔
دیکھئے صحیح ابن حبان (الاحسان ج1ص90) اور طبقات المدلسین بتحقیقی (ص58)
ان کے شاگرد امام شعبہ ؒ نے فرمایا :كفيتكم تدليس ثلاثة:الاعمش وابي اسحاق وقتادة۔ یعنی میں تمہیں تین اشخاص کی تدلیس کے لیے کافی ہوں۔اعمش ،ابواسحاق اور قتادۃ ۔( مسئالۃ التمسیہ لمحمد بن طاہر المقدسی ص 47 وسندہ صحیح ۔معرفۃ السنن والآثار للبیہقی 1/82۔طبقات المدلسین لابن حجر ص 151۔ دوسرا نسخہ :الفتح المبین ص83)
اس قول سے دو مسئلے معلوم ہوتے ہیں :
1) اعمش ،ابواسحاق اور قتادہ مدلس تھے ۔
2) اعمش ،ابواسحاق اور قتادۃ سے شعبہ کی روایت صحیح ہوتی ہے ۔یاد رہے کہ روایت مذکورہ ،غیر شعبہ کی سند سے ہے اور مدلس کی عن والی روایت ضعیف ہوتی ہے۔
2)ابو اسحاق آخری عمر میں مختلط ہوگئے تھے ۔
3) محمد بن عبدالرحمن السہمی ضعیف ہے ۔
اسے بخاری اور یحیی بن معین نے ضعیف کہا۔ جب کہ ابن عدی نے عندي لاباس به کہا ہے ۔ (لسان المیزان 5/277، فتح الباری 2/426 تحت ح 937)
امام ابن عدی کے نزدیک عام طور پر "لاباس به" ضعیف ہوتا ہے ۔ جیسا کہ انھوں نے جعفر بن میمون کے ترجمے میں کہا :" وارجوا انه لاباس به ويكتب حديثه في الضعفاء’(الکامل لابن عدی 2/562' دوسرا نسخہ 2/370)
ابو حاتم نے کہا "ليس بمشهور" کہ ان سب کے مقابلے میں حافظ ابن حبان نے اسے کتاب الثقات میں ذکر کیا جو کہ جمہور کی جرح کے مقابلے میں مردود ہے ۔ ظفر احمد تھانوی دیوبندی نے اس مردود توثیق اور سکوت حافظ ابن حجر کی وجہ سے اس روایت کو حسن قراردینے کی کوشش کی ہے ۔ حالانکہ حافظ ابن حجر نے (فتح الباری (2/426 تحت حدیث :937) میں اس روایت اور راوی پر جرح کر رکھی ہے ۔انھوں نے امام اثرم سے نقل کیا ہے کہ یہ حدیث کمزور ہے۔ ظفر احمد تھانوی نے طبرانی کی المعجم الکبیر سے اس کا ایک شاہد نقل کیا ہے (اعلاء السنن ج 7ص 14ح 1763) حالانکہ اس کی سند میں مبشر بن عبید موجود نہیں ہے۔ ( انتھی کلام التھانوی ) حالانکہ طبرانی کبیر (12/129ح12674) کی اس سند میں یہ راوی موجود ہے اور عینی حفی نے بھی المعجم الکبیر کی سند میں مبشر بن عبید کا وجود تسلیم کیا ہے ۔اس قسم کی شعبدہ بازیوں کی وجہ سے تھانوی صاحب جیسے حضرات صحیح کو ضعیف اور ضعیف کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ( شہادت ، جولائی2001)
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب