السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سسرال میں قصر نماز کے بارے کیا حکم ہے ؟
مثقی الاخبار کے مصنف امام عبدالسلام ابن تیمیہؒ نے ج 1ص212 پر یہ باب قائم کیا:
حدیث 1528: حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے منیٰ میں چار رکعتیں پڑھیں ۔ لوگوں نے اس پر اعتراض کیا تو آپ نے فرمایا : جب سے میں مکہ میں آیا ہوں تو میں نے نکاح کرلیا ہے ۔ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے آپ ﷺ فرماتے تھے : جو کسی شہر میں نکاح کرلے وہ مقیم جیسی نماز پڑھے ( رواہ احمد )
کای یہ بات درست ہے کہ سسرال میں قصر نماز نہیں؟ کتاب وسنت کی روشنی میں جواب دیں ۔ جزاکم اللہ خیرا ( خرم ارشاد محمدی)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
منتقی الاخبار والی روایت مسند احمد (1/ 26 ح 443) ومسند الحمید (36) میں " عِكْرِمَةُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْبَاهِلِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي ذُبَابٍ، عَنْ أَبِيهِ: أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ صَلَّى بِمِنًى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، کی سند سے مروی ہے۔
امام بیہقی نے فرمایا :" فهذا منقطع وعكرمة بن ابراهيم ضعيف " پس یہ منقطع ہے اور عکرمہ بن ابراہیم ضعیف ہے ۔( معرفۃ السنن والاثار قلمی ج 2ص 425 نصب الرایہ 3/271)
عکرمہ بن ابراہیم کو جمہور محدثین نے ضعیف قراردیا ہے م ( دیکھئے لسان المیزان (ج 4ص210)
حافظ ہیثمی نے کہا :"وفيه عكرمة بن ابراهيم وهو ضعيف " ( مجمع الزوائد 2/ 156)
اس کے برعکس سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے منی ٰ میں نماز پوری پڑھنے کے بعد خطبہ میں ارشادفرمایا :" ياايهاالناس ان السنة سنة رسول الله صلي الله عليه وسلم وسنة صاحبيه ولكنه حدث العام من الناس فخفت ان يستنوا"
اے لوگو! سنت وہی ہے جو رسول اللہ ﷺ اور آپ کے دونوں ساتھیوں ( سیدنا ابوبکر اور سیدناعمر رضی اللہ عنہ) سے ثابت ہے ۔ لیکن اس سال لوگوں کی وجہ سے رش ہوا ہے لہذا مجھے یہ خوف ہوا کہ یہ لوگ اسے ہی اپنا نہ لیں (یعنی اپنے گھروں میں بھی چار کے بجائے دو فرض پڑھنے نہ لگیں ۔) السنن الکبریٰللبیہقی ج3 س144 وسندہ حسن والنظر معرفۃ السنن والآثار 2/ 4239)
اس سے معلوم ہواکہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اس وجہ سے سفر میں نماز پوری پڑھی تاکہ ناسمجھ لوگ غلط فہمی کا شکار نہ ہوجائیں۔
یاد رہے کہ سفر میں پوری نماز پڑھنا بھی جائز ہے جیسا صحیح احادیث وآثار صحابہ سے ثابت ہے۔
اگر کسی شخص کا سسرال دوسرے شہر اور سفر کی مسافت پر ہوتو بہتر یہی ہے کہ وہاں قصر کرے لیکن پوری بھی پڑھ سکتا ہے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: میں نے رسول اللہ ﷺ سے کہا : یارسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ۔ آپ ( سفر میں ) قصر کرتے رہے اور میں پوری (نماز) پڑھتی رہے آپ نے روزے نہیں رکھے اور میں روزے رکھتی رہی؟
تو آپ ﷺ نے فرمایا: " احسنت ياعائشه ! " اے عائشہ تو نے اچھا کیا ۔
( سنن النسائی ج3 ص122 ح 1487 وسندہ صحیح ، سنن الدارقطنی 2/187 ح 2270 وقال: "وهو اسناد حسن "وصححہ البیہقی 3/142
اس روایت کے راوی العلاء بن زہیر جمہور محمدثین کے نزدیک ثقہ وصدوق تھے ۔ان پر حافظ ابن حبان کی جرح مردود ہے لہذا بعض علماء کا اس حدیث کو "منکر" یا ضعیف کہنا غلط ہے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہی روایت ہے: ان النبي صلي الله عليه وسلم كان يقصر في السفر ويتم ويفطر ويصوم "
بے شک نبی ﷺ سفر میں قصر بھی کرتے تھے اور پوری نماز بھی پڑھتے تھے۔ روزہ رکھتے بھی اور نہیں بھی رکھتے تھے۔ ( سنن الدار قطنی 2/189 ح 2275 وقال:" وهذا اسناد صحيح ")
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ سعید بن محمد بن ثواب سے شاگردوں کی ایک جماعت روایت کرتی ہے ،دیکھئے تاریخ بغداد (9 /95) حافظ ابن حبان نے انھیں کتاب الثقات میں ذکر کرکے کہا : مستقيم الحديث " یعنی وہ ثقہ ہیں ۔ (ج 8ص276)
حافظ دارقطنی نے ان کی بیان کردہ سند کو صحیح کہہ کر اسے ثقہ قراردیا ۔ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں ان سے روایت لی ہے ۔ (2/134 ح 1062) لہذا انھیں مجہول وغیر موثق قراردینا غلط ہے ۔
تنبیہ : عطاء بن ابی رباح پر تدلیس کا الزام باطل ومردود ہے ،
ایک روایت میں آیا ہے کہ
" ان رسول الله صلي الله عليه وسلم كان يتم الصلوة في السفر ويقصر"
بے شک رسول اللہﷺ سفر میں پوری نماز بھی پڑھتے تھے اور قصر بھی کرتے تھے۔ (سنن الدار قطنی 2/189 ح 2276 وقال: المغيره بن زياد ليس بالقوي " والی جرح مردود ہے ۔
خلاصہ یہ کہ نبی ﷺ سے سفر میں پوری نماز پڑھنے کا جواز صحیح حدیث سے ثابت ہے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے سفر میں پوری نماز پڑھنا ثابت ہے۔ ( مثلا دیکھئے صحیح بخاری :1090 وصحیح مسلم :1572/685)
تنبیہ : سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے سفر میں وفات تک قصر کرنا بھی ثابت ہے ( دیکھئے صحیح بخاری 1102 وصحیح مسلم :1579/679)
مشہور تابعی ابوقلابہ ( عبداللہ بن زید الجرمی ) نے فرمایا : "ان صليت في السفر ركعتين فالسنة وان صليت اربعا فالسنة " اگر تم سفر میں دو رکعتیں پڑھو تو سنت ہے اور اگر چار رکعتیں پڑھوتو بھی سنت ہے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 2/452ح 8188 وسندہ صحیح ) عطا ء بن ابی رباح نے فرمایا کہ: اگر قصر کرو تو رخصت ہے اور اگر چاہو تو پوری نماز پڑھ لو۔ ( ابن ابی شیبہ 2/452 ح8191 وسندہ صحیح )
سعید بن المسب نے فرمایا : اگر چاہو تو دو رکعتیں پڑھو اور اگر چاہو تو پڑھو۔ ( ابن ابی شیبہ 2/452 ح 8192 وسندہ صحیح )
امام شافعی ؒ نے فرمایا :" لتَّقْصِيرُ رُخْصَةٌ لَهُ فِي السَّفَرِ فَإِنْ أَتَمَّ الصَّلاَةَ أَجْزَأَ عَنْه " سفر میں قصر کرنا رخصت ہے اور اگر کوئی پوری نماز پڑھے تو جائز ہے۔ (سنن الترمذی :544)
امام ترمذی سے امام شافعی تک، ان اقوال کی صحیح سندوں کے لیے دیکھیں کتاب العلل للترمذی مع الجامع (ص 889) والحمدللہ ( 27 /ذوالحجہ 1426ھ) ( الحدیث :23)
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب