السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
صلاۃ التسبیح کی روایات کے بارے میں البانی نے بہت لمبی چوڑی بحث کی ہے اور بہت مشکل سے ’حسن‘ کے درجہ میں لائے ہیں ۔ جب کہ آپ نے ’ ہدیہ المسلمین ‘ کتاب (ص71) میں بغیر کسی تفصیل کے صحیح قرار دیا ہے تفصیل چاہیے۔(حبیب اللہ، شاہ)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صلوۃ التسبیح کے سلسلے میں درج ذیل احادیث بلحاظ سند مضبوط ہیں:
1) حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ یہ روایت سنن ابی داؤد (1297) اور ابن ماجہ (1387) میں موجود ہے اور اس کی سند حسن ہے۔
اور اسے ابو بکر الاجری وغیرہ نے صحیح کہا ہے ۔(الترغیب والترہب 1/ 4671)
حکم بن ابان کی حدیث حسن کے درجے سے نہیں گرتی ۔ تفصیلی بحث کے لیے دیکھئے الترشیخ لبیان صلوۃ التسبیح (ص 28۔33 مع التخریج ) اور کتب الرجال
2) حدیث الانصاری رضی اللہ عنہ
یہ روایت سنن ابی داود (1299) میں موجود ہے،اس کی سند انصاری تک صحیح ہے اور انصاری سے مراد جابر بن عبداللہ الانصاری رضی اللہ عنہ ہیں۔
دیکھئے تہذیب الکمال (3/ 1666) ذالفتوحات الربانیہ (4/314 وحاشیہ الترشیخ ص49)
3) حدیث عبداللہ بن عمر وبن العاص رضی اللہ عنہ
یہ روایت سنن ابی داود (1298) میں ہے۔ عمران بن مسلم نے عمروبن مالک کی متابعت کر رکھی ہے ۔ (النکت الظراف 6/281)
حسن لذاتہ روایت کے اگر شواہد ہوں تو وہ صحیح لغیرہ بن جاتی ہے لہذا نماز تسبیح والی روایت صحیح ہے ۔ والحمد للہ ( شہادت جنوری 2003)
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب