سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(199) قنوت وتر میں ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا ؟

  • 21092
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 3675

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا  قنوت وتر  میں ہاتھ اٹھا  کر دعا کرنا ثابت  ہے؟ ( ایک سائل)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ابو حاتم  الرازی ؒ  ( متوفی  277ھ ) فرماتے  ہیں:

"قال لي ابو زرعة : ترفع في  القنوت؟  قلت  :لا! فقلت له : فترفع انت ؟ قال : نعم : فقلت :ماحجتك ؟ قال  : حديث  ابن مسعود ‘ قلت :  رواه  ابن  لهيعة  ‘ قال : حديث  ابن عبا س‘ قلت <: رواه  عوف ‘قال: فما  حضتك  في تركه ؟ قلت  : حديث انس ان رسول الله صلي الله عليه وسلم  كا ن لايرفع يديه  في شئي  من الدعاء  الا في  الاستسقاء   فسكت "

 ابو زراعہ  (الرازی ؒ  متوفی 268ھ) نے مجھ  سے پوچھا: کیا  آپ قنوت میں ہاتھ  اٹھاتے  ہیں؟ میں نے کہا: نہیں !  پھر  میں نے  ان سے پوچھا : کیا آپ( قنوت میں ) ہاتھ  اٹھاتے  ہیں؟ انھوں نے کہا جی ہاں ، میں نے  پوچھا : آپ کی دلیل  کیا ہے؟ انھوں نے  کہا: حدیث ابن مسعود : میں نے کہا اسے لیث  بن ابی سلیم نے  روایت کیا ہے ۔ انھوں نے کہا: حدیث  ابی ہریرۃ ۔ میں نے کہا: اسے  ابن  الہیعہ نے روایت کیا ہے ۔انھوں نے کہا : حدیث  ابن عباس ، میں نے کہا : اسے  عوف (الاعرابی ) نے روایت  کیا ہے  ۔ تو انھوں نے  پوچھا: آپ کے  پاس  ( قنوت میں ) ہاتھ  نہ اٹھا نے  کی کیا دلیل ہے ؟  میں نے کہا: حدیث  انس  لہ بے شک  رسول اللہ ﷺ کسی دعا میں ہاتھ نہیں اٹھاتے  تھے  سوائے  استسقاء  کے تو وہ (ابو زرعہ رحمہ اللہ)  خاموش  ہوگئے ۔

( تاریخ  بغداد  ج  2ص 76 ت 455 وسندہ حسن  ،وذکرہ  الذہبی  فی سیر اعلام  النبلاء  13/253) اس حکایت  کے راویوں  کا مختصر تذکرہ  درج ذیل ہےّ

1)و منصور محمد بن عيسي  بن عبدالعزيز : وكان صدوقا (تاریخ  بغداد  2/406 ت 937)

2)صالح  بن احمد محمد الحافظ : وکان  حافظا، فھما ، ثقۃ ثبتا(تاریخ  بغداد   9/ 331ت 4871)

1)     القاسم بنابي  صالح  بندار: كان  صدوقا متقنا للحديث

(لسان المیزان  4/460ت 6685)

 تنبیہ  :  قاسم  بن ابی صالح  پر تشیع  کا الزام ہے جو یہاں  روایت  حدیث  میں مردود ہے۔ صالح  بن احمد  کے قول  سے یہ ثابت  ہوتا ہے کہ  ان کا قاسم  بن ابی صالح  سے سماع قبل از  اختلاط ہے  لہذا  یہ سند حسن لذاتہ  ہے۔

اب ان کی روایات کی مختصر تحقیق  پیش خدمت  ہے جنھیں امام ابو زرعہ  اور امام ابو حاتم  نے باہم مناظرے  میں پیش کیا ہے ۔

1۔ حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ  ( جزء القراءۃ للبخاری  بتحقیقی : 99  مصنف  ابن ابی شیبۃ 2/ 307ح 6953 الطبرانی  فی الکبیر9/ 327  ح  19425 السنن  للبیہقی  3/ 41)

اس کی سند  لیث بن ابی  سلیم  ( ضعیف  ومدلس ) کے  ضعف  کی وجہ سے ضعیف  ہے۔ یہاں  پر یہ  بات  سخت  تعجب  خیز ہے کہ  نیموی  تقلیدی  نے اس  سند کو " باسنادہ  صحیح" لکھ  دیا ہے ۔( دیکھئے  آثار  السنن  : 635)  حالانکہ جمہور محدثین  نے لیث  مذکور کو ضعیف  ومجروح قراردیا ہے ۔

 زیلعی  حنفی  نے کہا: " وليث  هذا الظاهر انه  ليث  بن ابي سليم  وهو ضعيف "

 اور ظاہر  ہے کہ  یہاں  لیث  سے مراد لیث  بن ابی سلیم  ہے اور وہ ضعیف  ہے۔)

لیث  مذکور  پر جرح  کے لیے  دیکھئے  احسن الکالم ( سرفراز خان صفدری  دیوبندی  ج 2 ص128) جذء  القراءۃ   تحریفات امین  اوکاڑی  (ص 70ح58)

1)     حدیث ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ  (السنن الکبری  للبیہقی  3/41)

اس کی سند ابن ا لہیع کی تدلیس اور اختلاط  کی وجہ سے  ضعیف  ہے ۔

2)     حدیث  ابن عباس رضی اللہ عنہ  ( مصنف  ابن ابی شیبۃ2/316 ح 7042۔ 7043 والاوسط  لابن منذر :5/ 213)

 یہ روایت  قنوت  فجر  سے متعلق ہے،اس  روایت  کی دو سندیں  ہیں:  پہلی  میں سفیان  ثوری  مدلس ہیں  اور دوسری  میں ہشیم  بن بشیر مدلس ہیں  لہذا یہ دونوں  سندیں ضعیف  ہیں ابو حاتم  رازی  نے اس روایت  کو عوف  الاعرابی  کی وجہ  سے ناقابل حجت قراردیا ہے ۔حالانکہ وہ الجرح  والتعدیل  میں " عوف  کو  " صدوق صالح الحدیث" ہیں  (7/15)

  تنبیہ : عوف  الاعرابی  پر  جرح  مردود  ہے ۔انھیں  جمہورمحدثین  نے ثقہ  وصدوق قرار دیا ہے  لہذا وہ حسن  الحدیث  یا صحیح الحدیث  تھے۔ صحیحين  میں ان  کی تمام روایات  صحیح ہیں  ۔

3)     حدیث  انس رضی اللہ عنہ (صحیح البخاری :1030 وصحیح  مسلم : 7/796)

اس تفصیل  سے معلوم  ہوا کہ  امام ابو حاتم  الرازی  ؒ  حسن  لغیرہ  حدیث   کو حجت نہیں سمجھتے تھے ،  کیونکہ امام ابو زرعہ  الرازی  ؒ  کی ذکر  کردہ  تینوں  روایات  روایات ایک دوسرے  کی تائید  کرتی ہیں  اور ان  کا ضعف شدید نہیں  ہے ۔ جو لوگ  ضعیف +ضعیف  سے حسن  لغیرہ  بنا دیتے ہیں ۔ان کے اصول  پر یہ روایت باہم مل کر حسن لغیرہ بن جاتی ہیں۔  آپ نے دیکھ لیا ہے  کہ  ابو حاتم  رازی  حسن لغیرہ روایات  کو حجت نہیں  سمجھتے  تھے۔

 فائدہ : عامر  بن شبل  الجری ( ثقہ راوی ) سے روایت ہے کہ  " رايت ابا قلابة  يرفع  يديه  في قنوته "میں نے  ابو قلابہ (ثقہ  تابعی ) کو دیکھا ،وہ اپنے  قنوت میں ہاتھ  اٹھاتے  تھے(سنن الکبری  للبیہقی  ج 3ص41 وسندہ حسن )

 قنوت نازلہ  میں (دعا کی طرح) ہاتھ اٹھانا ثابت  ہے۔( مسند احمد 3/137ح12429، وسندہ  صحیح)

امام اہل سنت  احمد بن حنبل  اور امام اسحاق بن راہویہ  بھی قنوت وتر میں ہاتھ اٹھانے کے قائل  تھے۔ ( دیکھئے  مسائل ابی داودص66، مسائل  احمد واسحاق روایۃ  اسحاق بن منصور الکوسبح 1/211ت 465،259ت3468)

 خلاصہ : قنوت وتر میں دعا کی  طرح ہاتھ  اٹھائیں یا نہ اٹھائیں دونوں طرح  جائز ہے  لیکن بہتر یہی ہے کہ  حدیث انس رضی اللہ عنہ  ودیگر دلائل کی رو سے  قنوت  میں ہاتھ نہ اٹھائے جائیں واللہ اعلم   (الحدیث؛14)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد1۔كتاب الصلاة۔صفحہ415

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ