سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(181) مرد اور عورت کی نماز میں فرق اور انوار خورشید دیوبندی

  • 21074
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-02
  • مشاہدات : 701

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

" حدیث  اور اہل حدیث  " نامی  کتاب  میں بارہ  روایات لکھ کر یہ دعوی  کیاگیا ہے کہ " عورت  اور مرد کی نماز  ایک جیسی نہیں بلکہ   دونوں  میں فرق ہے " ( ص 479 تا ص 483)  (اشفاق احمد)

ان روایتوں  پر مختصر اور جامع  تبصرہ  لکھیں ۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

" حدیث اور اہل حدیث" نامی  دیوبندی  کتاب  کی روایات مذکورہ  پر علی  الترتیب  تبصرہ  درج ذیل  ہے:

1)     عن وائل  بن حجر ۔۔۔۔( معجم  طبرانی  کبیر ج  22ص18)

  • اس روایت  کی بنیاد  راویہ  "ام  یحیی بنت  عبدالجبار" کے  بارے میں  حافظ  ہیثمی  ؒ فرماتے ہیں :

" ولم اعرفها" اور  میں نے اسے نہیں پہچانا ۔ (مجمع  الزوائدج2ص103 وج ص374)

ماسٹر امین  اوکاڑی  دیوبندی  نے لکھا ہے کہ  "ام یحیی مجہولہ  ہیں" (  مجموعہ  رسائل  ج  1ص342 طبع اول )

مجہول کی روایت  ضعیف  ہوتی ہے کہ  جیسا کہ  اصول  حدیث  میں مقرر  ہے۔

2َ۔ عن  عبدربہ بن سلیمان  بن عمیر قال: رایت  ام الدرداء  ترفع یدیھا فی الصلوۃ  حذوا منکبیھا  ( جزء  رفع یدین للبخاری  ص7)

* اس روایت  سے مصنف   ومفرق کا مدعا پورا نہیں  ہوتا کیونکہ  کندھوں  اور کانوں  تک  دونوں  طرح  رفع یدین کرنا صحیح  ہے اور سنت  سے ثابت  ہے ۔ دوسرے یہ کہ اسی روایت  میں رکوع  سے پہلے  اور بعد والا رفع یدین  بھی  موجود  ہے۔ ( دیکھئے جزء  رفع یدین حدیث : 25)

 یہاں بطور  فائدہ  عرض  ہے کہ ام الدرداء  رضی اللہ عنہ   نماز میں مردوں  کی طرح  بیٹھتی  تھیں  اور وہ فقیہ  تھیں ۔  كانت  ام الدرداء  تجلس في صلاتها جلسة  الرجل  وكانت فقيهةّ

(صحیح  بخاری  کتاب الصلوۃ  باب ستہ  الجلوس فی التشہد قبل حدیث  827 التاریخ  الصغٰیر  للبخاری  ج 1ص 223 تغلیق التعلیق لابن حجر ج 2ص 329)

اس روایت  سے معلوم  ہوا کہ  جو لوگ  نماز پڑھنے میں مرد اور عورت کی نماز میں فرق کرتے  ہیں وہ فقیہ  نہیں  ہیں ۔

3۔ عن  ابن جريج  قال :قلت لعطاء ____ (مصنف ابن ابی شیبہ ج 1ص239)

*یہ کوئی حدیث  نہیں ہے  بلکہ عطاء بن ابی رباح کاقول  ہے ۔اس قول  کے آخر  میں عطا فرماتے ہٰیں :" وان تركت ذلك  فلا خرج " اور اگر  عورت  ایسا کرنا ترک  کردے  تو کوئی  حرج نہیں ہے۔

 یعنی  عطاؒ   کے نزدیک  عورت اگر مردوں کی طرح  رفع الیدین  کرے  تو بھی صحیح ہے ۔ چونکہ یہ قول" حدیث اور اہل حدیث" کے مصنف کے خلاف  تھالہذا اس نے  خیانت  کا مظاہرہ  کرتے ہوئے اسے  چھپالیا ہے۔

1)     عن يزيد بن ابي  حبيب  انه  صلي الله عليه وسلم  مر علي امراتين  ( مراسیل  ابی داودس ص،السنن  الکبری  للبیہقی  ج2ص 223)

  • اس روایت کے بارے میں امام بیہقی کہتے ہیں کہ  " حدیث منقطع"  یعنی  یہ روایت  منقطع ہے  ۔امام طحاوی  نے شرح  معانی الآثار  (ج 2ص 164۔ دوسرا نسخہ  ج3 ص253)

" باب الرجل فی  دارالحرب  وعندہ الثر  من اربع  نسوۃ " کے تحت  لکھاہے کہ"وخالفهم من ذلك  آخرون ___ وممن ذهب  الي هذه  القول ابو حنفية  وابو يوسف رحمة الله عليهما وكان  من الحجة  لهم في ذلك  ان هذا الحديث  منقطع"  یعنی  امام ابو حنیفہ  رحمہ اللہ تعالیٰ  حدیث کو حجت  نہیں سمجھتے تھے ۔امام طحاوی  لکھتے ہیں  کہ  حديثا مقطعا لا يثبته  اهل الخبر  لانهم  لايحبتون  بالمنقطع "(ج1ص175،دوسرا نسخہ 1/104) یعنی  (تمام) اہل خبر  (اہل حدیث) منقطع حدیث کو حجت   نہیں سمجھتے تھے ، نیز دیکھئے  شرح معانی الآثار (ج 1ص19، 57۔،ج 2ص130،183،459،280،281،324۔470، نسخہ  ایچ ایم  سعید کمپنی  کراچی )

 5َ) عن ابن عمر رضي الله عنه  عنه مرفوعا:

اذاجلست  المراة في الصلوة  ___الخ ( كنز العمال ج ٧ص٥٤٩)

*کنزالعمال  حدیث  :20202 حوالہ  مذکورہ کے بعد لکھا ہوا ہے  کہ  عدق وضعفه /ابن عمر یعنی اسے ابن عدی  کی کتاب  الکامل  فی ضعفاء  الرجال  (ج 2ص631) اور السنن  الکبری  للبیہقی  (ج 2ص 223) میں یہ روایت ابو مطیع الحکم  بن عبداللہ الیلی کی سند سے موجود  ہے ۔

ابو مطیع جہمی  متروک تھا۔اس پر  جرح  کے لیے  دیکھئے  میزان الاعتدال  (ج  1ص 574) بعض  لکھتے ہیں کہ  وہ  "صالح  مرج "تھا۔

 لیکن ابو حاتم  رازی سے روایت  ہے  : "كان  مرجئا كذابا " يعنی  وہ مرجئی  اور (نیک  ہونے کے باوجود )جھوٹا تھا۔ ( لسان المیزان  ج 2ص408)

 6)عن ابي اسحاق عن الحارث  عن علي___( مصنف  ابن ابی شیبہ  ج 1ص 279،السنن  الکبری  للبیہقی ج 2ص222)

* یہ سند  ضعیف  ہے ۔الحارث الاعور ضعیف  رافضی تھا۔ بعض  علماء  نے اسے کذاب  بھی قراردیا ہے ، اس تفصیل  کے لیے  تہذیب التہذیب وغیرہ  کتب  رجال کا مطالعہ  کریں ۔

ابو اسحاق السبیعی  مدلس تھے ۔ عن سے روایت کر رہے ہیں ۔خلاصہ  یہ کہ یہ قول  سیدنا  علی  رضی اللہ عنہ  سے ثابت ہی  نہین "

وان روايته  عن التابعين ّ" اور ان کی روایت صرف تابعین سے ہے ۔( تہذیب التہذیب  ج  1ص 432)

 معلوم ہوا کہ  عبداللہ بن حارث  بن جزء  رحمہ اللہ سے   بہت پہلے  فوت ہونے  والے ابن عباس ( متوفی 67ھ) سے بھی بکیر  کا سماع ثابت نہیں  ہے  لہذا  یہ سند منقطع ہے ۔

8)عن ابراہیم ۔۔۔۔( مصنف ابن ابی شیبہ ج 1ص 270 وبیہقی  ج 2ص222)

* ابرعاہیم نخعی کے اس قول کی سند میں  مغیرہ  ( بن مقسم  ) راوی  مدلس ہیں  اور عن سے  روایت کر رہے ہیں  ۔ دیوبندیوں  کی مستند کتاب  " آثار السنن  " حدیث :353 کے حاشیہ  : 125 ص97 پر لکھا ہوا ہے کہ " قلت عنعنة المدلس كايحتج  بها لمظنة  التدليس "  یعنی  میں ( نیموی )  کہتا ہوں کہ  مدلس  کے عن  سے حجت  نہیں پکڑی  جاسکتی  کونکہ تدلیس کا گمان ہے ۔

9) عن مجاہد ۔۔۔( مصنف ابن ابی شیبہ ج 1ص270)

 *اس  کا راوی  لیث  بن ابی سلیم  جمہور  کے نزدیک ضعیف اور مدلس تھا ۔ حافظ ابن حجر  کا یہ  فیصلہ  ہے کہ وہ اختلاط  کی وجہ سے  متروک ہوگیا  تھا ۔ دیکھئے  تہذیب التہذیب  وآثار  السنن  حاشیہ تحت حدیث :210 اس کے باوجود نیموی  صاحب  نے لیث  کی ایک  رویت کو "واسنادہ  صحیح  " لکھ  دیا ہے ۔انا للہ وانا الیہ رجعون

10) عن  ابن عمر  انہ سئل  ۔۔۔۔( جامع  المسانید  ج 1ص400)

*اس کا بنیادی  راوی  ابو محمد  الحارثی  ( عبداللہ بن محمد بن یعقوب  ) کذاب  ہے ۔ دیکھئے  میزان الاعتدال  ولسان المیزان ، باقی  راوی  قبیصہ  الطہر ی ، زکریا  بن یحیی  النیسا  بوی ، عبداللہ بن احمد بن خالد  الرازی  ، زر  بن نجیح  وغیرہم  ب مجہول  ہیں ۔ جنہیں  حارثی  کے گھڑ  لیاتھا ۔ دوسری  سند میں بھی  قاضی  عمر بن  حسن  الاشنانی  مجروح  اور علی  بن محمد البزار ،احمد بن محمد بن خالد اور  زر  بن  نجیح  سب مجہول ہیں۔ابن خسرومعتزلی  نے بھی  اسے اشنانی کی سند سے ہی روایت  کیا ہے  لہذا  خلاصہ یہ ہے کہ  یہ روایت  موضوع ہے ۔

١١) عن ابي هريرة  عن النبي صلي الله عليه وسلم  قال: ((التسبيح  للرجال  والتصفيق للنساء ))  یعنی نبی ﷺ نے فرمایا : تسبیح  مردوں کے لیے  ہے اور  تصبیق ( ایک ہاتھ  کی پشت  پر دوسرے  ہاتھ کی پشت  مارنا) عورتوں کے لیے ۔

(صحیح بخاری  ج 1ص 160،ح1203 صحیح  مسلم  ج 1ص180 ۔ ح422، ترمذی  ج 1ص 85 ح  369)

  • یہ حدیث بالکل صحیح ہے مگر  تسبیح  وتصفیق کے فرق  سے یہ قطعا ثابت نہیں ہوتا کہ مردوں اور عورتوں کے  نماز پڑھنے میں بھی فرق  ہے ۔

12) عن عائشه  قالت: قال  رسول الله صلي الله عليه وسلم : (  لاتقبل  صلوة  الحائض  الا بخمار)  یعنی بالغہ  عورت  کی نمازاوڑھنی کے بغیر  قبول نہیں ہوتی ،

( ترمذی  ج  1ص86ح 377،ابوداؤد ج 1ص 94 ح 641)

  • یہ حدیث بھی صحیح  ہے جس سے  صاف معلوم  ہوتا ہے کہ  عورت  کی نماز  ننگے سر  نہیں ہوتی  مگر مرد کی نماز  ننگے سر ہوجاتی ہے ۔ پردے  میں فرق  سے  یہ مسئلہ قطعاً ثابت نہیں ہوتا ہے کہ  عور ت  دوسرے  طریقے سے  نماز پڑے گی  اور  مردود  طریقے سے  ۔

رسول اللہ ﷺ تمام انسانوں  کے لیے رسول  بنا کر بھیجے  گئے ہیں ، چاہے  مرد  ہوں  یا عورتیں  ۔لہذا جس طرح  رسول  اللہﷺ نے نماز یں  پڑھیں  گی۔  الا یہ کہ  کسی خاص مسئلے میں صحیح  دلیل  سے  فرق وتخصیص ثابت  ہوجائے ۔ دوپٹا اور تصفیق کے بارے میں فرق تو حدیث  سے ثابت  ہے  مگر نماز  کے طریقے میں فرقس یہ کسی حدیث سے ثابت نہیں ۔اب آپ خود فیصلہ  کریں کہ  " حدیث اہل حدیث " جیسی کتابوں  سے صحیح العقیدہ  لوگوں  کو کیوں  کر کتاب  وسنت  سے  ہٹایا جاسکتا ہے ؟ اس موضوع پر تفصیلی  معلومات  کرنے  کے لیے میری کتاب " علمی  مقالات" ( جلد اول) کا مطالعہ  کریں  جو یقینا  تشفی  کا باعث  بنے گا (ان شاء اللہ ) (  شہادت  ، جون 2001)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد1۔كتاب الصلاة۔صفحہ396

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ