سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(160) رفع یدین کے خلاف ایک نئی روایت :اخبار الفقہاء والمحدثین ؟

  • 21053
  • تاریخ اشاعت : 2024-11-12
  • مشاہدات : 1354

سوال

(160) رفع یدین کے خلاف ایک نئی روایت :اخبار الفقہاء والمحدثین ؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بعض  لوگ  رفع یدین  کے خلاف  ایک  کتاب"اخبار  الفقهاء والمحدثين " کا حوالہ  پیش  کررہے  ہیں مثلاً غلام مصطفی  نوری  بریلوی  لکھتے ہیں :

آئیے  ہم آپ  کی خدمت  میں وہ حدیث  پیش کرتے ہیں  جس میں صریحا یہ مذکور  ہے کہ  آپﷺ پہلے رکوع والا رفع یدین  کرتے تھے  پھر آپﷺ نے  رکوع والا رفع یدین  ترک  کردیا اور ابتدا کی  رفع یدین  آپﷺ کرتے  رہے  حتی  کہ آپﷺ کا وصال  ہوگیا یہ حدیث  صحیح مرفوع ہے ۔

آپ بھی ملاحظہ فرمائیں :امام حافظ  ابو عبداللہ  محمد  بن حارث  الخشنی  القیروانی  متوفی  سنہ س361 ہجری  اپنی کتاب  اخبار  الفقہاء والمحدثین  کے صفحہ  214 پر سند  صحیح سے مرفوعا یہ حدیث  نقل  کرتے ہیں ۔ فرماتے  ہیں:

حدثني  عثمان  بن محمد قال: قال لي عبيدالله بن يحيي : حدثني  عثمان  بن  سوادة بن عباد عن حفص بن ميسرة عن  زيد بن اسلم  عن عبدالله  بن عمر قال :  كنا مع رسول الله صلي الله عليه وسلم  بمكة نرفع ايدينا في بدء الصلوة وفي  داخل  الصلوة  عند  الركوع فلما هاجر النبي صلي الله عليه وسلم  الي المدينة  ترك  رفع يدين  في  داخل  الصلوة  عند  الركوع وثبت علي رفع يدين  في بدء الصلوة ۔۔۔ توفي  (اخبار الفقهاء والمحدثين ص٣١٦)

 ترجمہ: جناب  عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ  نے فرمایا کہ جب  ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ  مکہ  میں تھے  تو ہم  رفع یدین  کرتے تھے  نماز کی ابتداء  میں اور نماز کے اندر رکوع کے وقت  اور جب  نبی پاک  ﷺ نے مکہ سے مدینہ  کی طرف  ہجرت  فرمائی  تو حضورﷺ نے نماز کے اندر رکوع والا رفع یدین  چھوڑدیا اور ابتداء  کی رفع یدین  پر آپﷺ ثابت  رہے  حتی  کہ آپ ﷺ کا وصال  ہوگیا۔

ناظرین  گرامی قدر: یہ حدیث پاک رفع یدین  عندالرکوع کے نسخ  میں کتنی  واضح  ہے۔ پھر بھی  اگر کوئی  نہ مانے  تو اس کی مرضی  ہے" (ترک  رفع یدین  ص695۔691 طبع اول  جون  2004 مکتبہ  نوریہ رضویہ  گلبرک  اے فیصل  آباد)

عرض  ہے کہ کیا یہ روایت  صحیح ہے؟ تحقیق سے جواب دیں ۔ جزاکم اللہ خیراً(حافظ  عبدالوحید سلفی ۔2مارچ2005ء)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جناب غلام  مصطفی  نوری  بریلوی  صاحب  کی پیش  کردہ  یہ روایت  کئی لحاظ سےموضوع اور باطل  ہے۔

دلیل نمبر 1: "اخبار الفقہاء والمحدثین " نامی  کتاب  کے شروع (ص5) میں اس کتاب کی کوئی سند مذکور نہیں ہے  اور آخر میں لکھا ہوا ہے: " تم الكتاب  والحمدلله حق حمده وصلي الله علي محمدوآله  وكان ذلك  في  شعبان  من عام  ٤٨٣ه "كتاب  مکمل ہوگئی  اور سب  تعریفیں  اللہ کے لیے  ہیں جیسا کہ  اس کی تعریف کاحقہے اور محمدﷺ اور آپ کی آل  پر درود ہو۔ اور  یہ (تکمیل )شعبان 483ھ  میں ہوئی  ہے(ص293)

اخبار الفقہاء کے مذکور مصنف  محمد بن حارث  القیر وانی (متوفی 361ھ) کی وفات کے  ایک  سو بائیس (122) سال  بعد اس کتاب  اخبار الفقہاء کی تکمیل  کرنے  اور لکھنے والا کون ہے؟ یہ معلوم نہیں ! لہذا اس کتاب  کا محمد بن حارث القیردانی  کی کتاب  ہونا ثابت  نہیں ہے ۔

دلیل نمبر2: اس کے راوی  عثمان  بن محمد کا تعین  ثابت نہیں  ہے۔بغیر کسی دلیل  کے اس  سے عثمان بن محمد بن مدرک  مراد لینا  غلط  ہے،اس  ابن  مدرک  سے محمد بن حارث القیروانی  کی  ملاقات  کا کوئی  ثبوت نہیں ہے۔

حافظ ذہبی  لکھتے ہیں :" عثمان بن محمد بن  خشيش القيرواني عن بن غانم  قاضي افريقه اظنه ‘كان  كذابا"عثمان  بن محمد بن خشیش  القیروانی ،ابن  غانم  قاضی  افریقیہ  سے  روایت  کرتا ہے،میراخیال  ہے۔یہ کذاب تھا۔( المغنی  فی الضعفاء ج2ص ت4059)

عثمان بن محمد: کذاب قیروانی  ہے اور محمد بن حارث  بھی قیروانی  ہے لہذا ظاہر  یہی ہوتا ہے  کہ  عثمان  بن محمد سے یہاں  بن محمد سے یہاں  مراد یہی کذاب ہے۔

یادرہے  عثمان بن محمد احمد بن مدرک  کاثقہ  ہونا معلوم نہیں ہے۔محمد بن الحارث   القیروانی کی طرف  منسوب  کتاب  لکھا ہوا ہے :قال خالد بن سعيد :عثمان بن محمد ممن عني  بطلب العلم ودرس المسائل  وعقد الوثائق مع  فضله وكان مفتي اهل موضوعةتوفي ٣٢-"

خالد  بن سعد نے کہا: عثمان بن محمد طلب  علم  پر توجہ دینے  والوں میں سے ہے ،اس نے  مسائل  پڑھائے  اور فضیلت  کے ساتھ  دستاویزات  لکھیں۔وہ اپنے  موضع (علاقے) کا مفتی تھا،320 کو فوت ہوا۔(اخبار الفقہاء والمحدثین  ص216)

اس عبارت  میں توثیق کا نام ونشان نہیں ہے۔

غلام مصطفی  نوری بریلوی  نے اس  عبارت  کا ترجمہ ذیل  لکھا ہے :

"جناب  خالد بن سعد نے فرمایا کہ عثمان بن محمدان میں  ہےجنہوں  نے مجھ سے علم  حاصل  کیا ہےاور مسائل کا درس لیاہے اور  یہ پختہ عقد والے  ہیں اور صاحب  فضیلت ہیں۔اور اپنے موضع کے مفتی تھے،(ترک  رفع یدین ص493)!!

دلیل نمبر 3: عثمان بن سوادہ بن عباد کےحالات "اخبارالفقہاء المحدثین " کے علاوہ  کسی کتاب  میں نہیں ملے۔اخبار الفقہاء میں لکھا ہوا ہے:

قال عثمان بن محمد قال عبيدالله بن يحيي: كان عثمان بن سوادة ثقة مقبولا عند القضاة والحكام...."

چونکہ  عثمان بن محمد مجروح  یا مجہول  ہے لہذا عبیداللہ بن یحیی سے یہ توثیق ثابت نہیں ہے ۔

نتیجہ :  عثمان بن سوادہ  مجروح یا مجہول ہے لہذا عبیداللہ بن یحیی سے یہ توثیق ثابت نہیں ہے،

 دلیل نمبر4: عثمان بن سوادہ کی حفص بن میسرہ  سے ملاقات اور معاصرت ثابت  نہیں ہے۔حفص کی وفات 181ھ  ہے۔

دلیل نمبر5: محمد بن حارث کی کتابوں  میں "اخبار القضاۃ المحدثین  " کا نام تو ملتا ہے  مگر "اخبار الفقہاء والمحدثین" کا نام نہیں ملتا، دیکھئے الاکمال  لابن  ماکولا (261/3) الانساب  للمسعانی (2/372)

ہمارے  اس دور  کے معاصرین  میں سے  عمر رضا کحالہ  نے"اخبار الفقہاء والمحدثین " کا ذکر کیا ہے۔(معجم  المؤلفین  3/204)

اسی طرح  معاصر خیرالدین  الزرکلی  نے بھی  اس کتاب  کا ذکر  کیا  ہے  (الاعلام  6/75)

جدید دور کے یہ حوالے  اس کی قطعی  دلیل نہیں ہیں کہ یہ کتاب محمد بن حارث کی ہی ہے۔قدیم علماء نے اس کتاب کا کوئی ذکر نہیں کیا

دلیل نمبر6: مخالفین  رفع یدین  جس روایت  سے دلیل  پکڑ  رہے ہیں  اس کے شروع میں  لکھا ہوا ہے :"  وكان يحدث  رواه  مسندا في رفع  اليدين وهو من  غرائب  الحديث  واراه  من شواذها "

اور  وہ رفع  یدین  کے بارے میں ایک  حدیث سند  سے بیان  کرتا  تھا ۔ یہ غریب حدیثوں  میں سے  ہے  اور میں سمجھتا ہوں  کہ یہ شاذ روایتوں  میں سے ہے ۔(اخبار الفقہاء والمحدثین  ص214)

  یہ عام  طالب علموں  کو بھی معلوم  ہے کہ شاذ روایت  ضعیف ہوتی  ہے ۔

 غلام مصطفی  نوری صاحب  نے"کمال دیانت" سے کام لیتے ہوئے  "من شواذها" کی جرح کو چھپالیا ہے۔

ان دلائل  کا تعلق  سند  کے ساتھ ہے۔ اب متن  کا جائزہ پیش  خدمت  ہے:

 دلیل نمبر 7: اس روایت  کے متن  میں ہے کہ  رسول اللہ ﷺ نے مدینہ  منورہ  کی طرف ہجرت  کرنے کے  بعد رکوع والا رفع یدین  چھوڑدیا۔ جبکہ  صحیح ومستند احادیث سے ثابت ہے کہ آپﷺ مدینہ  منورہ  میں رفع یدین  کرتے تھے ۔

ابو قلابہ  ؒ  سے روایت  ہے کہ  مالک بن حویرث  رضی اللہ عنہ  جب نماز پڑھتے  تو تکبیر کے ساتھ رفع یدین  کرتے  اور جب  رکوع کرتے  تو رفع یدین کرتے  اور جب  رکوع سے سر اٹھاتے  تو رفع یدین  کرتے اور فرماتے  کہ رسول اللہﷺ اس طرح کرتے تھے۔( صحیح مسلم  1/167ح391 وصحیح بخاری  1/102 ح737)

مالک  بن حویرث  اللیثی  رضی اللہ عنہ  اس وقت رسول اللہﷺ کے پاس آئے تھے  جب آپﷺ (مدینہ منورہ میں) غزوہ  تبوک  کی  تیاری کررہے تھے۔ ( دیکھئے  فتح  الباری  ج2ص 173ح104)

 عینی  حنفی  لکھتے ہیں : وائل  بن حجر  اسلم  في المدينة  في  سنة تسع من الهجرة  "

اور  وائل  بن حجر مدینہ  میں نو (9) ہجری  کو مسلمان ہوئے تھے ۔( عمدۃ القاری ج 5 ص 274)

9ھ  میں جو وفود نبی ﷺ کےپاس آئے تھے  ۔حافظ  ابن کثیر الدمشقی  نے ان  میں وائل  رضی اللہ عنہ  کی آمد کا ذکر کیا ہے۔ (البدایہ  والنہایہ  ص 5 71)

اس کے بعد (اگلے  سال  10ھ ) آپ  دوبارہ  آئے تھے 'اس سال  بھی آپ  نے رفع یدین  کا ہی مشاہدہ  فرمایا تھا۔(سنن ابی داؤد:727،صحیح ابن حبان ۔الاحسان  3/129 ح 1857)

 معلوم  ہوا کہ  آپﷺ نے مدینہ  منورہ   میں رفع یدین  نہیں چھوڑا بلکہ  آپﷺ مدینہ میں بھی  رکوع سے پہلے  اور بعد والا رفع یدین  کرتے  رہے ۔اس سے معلوم  ہوا کہ اخبار الفقہاء والی روایت  موضوع ہے ۔

دلیل نمبر8: سیدنا ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ  سے روایت  ہے کہ رسول اللہﷺ شروع نماز' رکوع سے پہلے  اور بعد رفع یدین  کرتے تھے  (صحیح  ابن خزیمہ  1/344 ح 694 ۔695  وسند حسن)

 یہ بات  عام طالب علموں کو بھی  معلوم ہے  کہ ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ  آپﷺ کے پاس مدینہ  منورہ  میں تشریف لائے تھے آپﷺ کے آخری  چار سالوں  میں آپ  کے ساتھ رہے ہیں ۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد رکوع سے پہلے  اور رکوع کے بعد والا رفع یدین کرتے تھے۔( جزء رفع الیدین  للبخاری  بتحقیقی:22)

 اس روایت مذکورہ   میں  سیدنا  ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ  کے شاگرد اور امام ابو حنیفہ  کے استاد عطا بن ابی  رباح  بھی رکوع سے پہلے  اور بعد والا رفع یدین  کرتے تھے۔(جزء رفع الیدین:62 وسندہ حسن )

 معلوم  ہوا کہ  مدینہ  منورہ  میں رکوع والا رفع یدین  متروک  یا منسوخ نہیں ہوا تھا لہذا "اخبار الفقہاء " والی روایت جھوٹی روایت ہے،

دلیل نمبر 9: مشہور تابعی  نافع ؒ سے روایت کیا ہے کہ سیدنا عبداللہ  بن عمر رضی اللہ عنہ  شروع نماز، رکوع سے پہلے او ر رکوع کے بعد اور دو رکعتیں  پڑھ  کر اٹھتے  وقت (چاروں مقامات پر) رفع یدین  کرتے تھے۔(صحیح بخاری 2/102 ح739)

 یہ ہوہی نہیں سکتا کہ سیدنا عبداللہ بن  عمر رضی اللہ عنہ  کی روایت  کے مطابق یدین  منسوخ  ہوجائے  اور پھر بھی  عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ   یہ رفع یدین  کرتے رہیں ۔آپﷺ تو رسول اللہﷺ کی اتباع میں سب سےآگے تھے۔

دلیل نمبر 10َ: نافع فرماتے ہیں  کہ سیدنا عبداللہ بن  عمر رضی اللہ عنہ   جس شخص کو  دیکھتے  کہ رکوع سے پہلے  اور رکوع  کے بعد رفع یدین  نہیں کرتا تو اسے  کنکریاں  مارتے تھے۔ ( جزء رفع الیدین : 15 وسندہ صحیح)

 علامہ نووی اس روایت کے بارے میں لکھتے ہیں :  باسناده  الصحيح  عن نافع" نافع تک اس کی سند صحیح ہے ۔( المجموع شرح  المہذب ج3ص 405)

یہ کس طرح ممکن  ہے کہ رفع یدین  بروایت  ابن عمر  منسوخ  ہوجائے پھر اس کی "منسوخیت " کے بعد بھی سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ  اس نامعلوم  ومجہول جاہل  کو ماریں  جو رفع یدین  نہیں کرتا تھا۔امام بخاری  ؒ  فرماتے  ہیں: کسی ایک صحابی سے رفع یدین کا نہ کرنا ثابت نہیں ہے،( دیکھئے  جزء  رفع الیدین  40،76 والمجموع للنووی  3/405)

 معلوم  ہوا کہ  رفع  یدین  نہ کرنے  والا آدمی ،صحابہ  کرام میں  سے نہیں تھا بلکہ  کوئی  مجہول  ونامعلوم  شخص ہے،

خلاصۃ  التحقیق: ان دلائل  سابقہ  سے یہ بات  اظہر من الشمس ہے کہ "اخبار الفقہاء  والمحدثین  "والی  روایت  موضوع  اور باطل ہے لہذا غلام  مصطفی نوری  بریلوی صاحب  کا اسے  "حدیث صحیح " کہنا جھوٹ اور مردود ہے ۔ وما علینا الا البلاغ  ( 21/محرم  1426ھ) (الحدیث)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد1۔كتاب الصلاة۔صفحہ356

محدث فتویٰ

تبصرے