سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(147) زاد الیقین فی تحقیق بعض روایات التامین

  • 21040
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-18
  • مشاہدات : 1316

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا امام اور مقتدیوں کا جہری نمازوں میں بلند آواز سے آمین کہنا ثابت ہے؟ دلیل سے جواب دیں۔(ایک سائل)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آمین بالجہر کی چند صحیح وحسن روایات درج ذیل ہیں۔

1۔ قال الامام ابوداود رحمة الله عليه:

"قال الامام ابوداود رحمة الله: حدثنا محمد بن كثير: اخبرنا سفيان عن سلمة، عن حجر أبي العنبس الحضرمي، أن وائل بن حجر قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قرأ وَلاَ الضَّالِّينَ قال آمين ورفع بها صوته"

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ولا الضالین کی قرآءت کے بعد آمین کہتے اور اپنی آواز اس کے ساتھ بلند فرماتے تھے۔(سنن  ابی داؤد ج1ص141،142،ح932باب التامین دراءالامام )

یہ روایت مسند الدارمی(ج1ص284ح،1250)میں بھی اسی سند سے موجود ہے، وہاں "ويرفع بها صوته" کے الفاظ ہیں اور ترجمہ بھی الفاظ کے مطابق لکھا گیا ہے۔

سند کا تعارف

1۔محمد بن کثیر العبدی البصری صحیح بخاری رحمۃ اللہ علیہ  وصحیح مسلم  رحمۃ اللہ علیہ کے راوی ہیں۔ ان کی صحیح بخاری میں ساٹھ (60)سے زائد روایتیں ہیں۔(مفتاح صحیح البخاری ص156)

صحیح مسلم میں ان کی حدیث (ج2ص244ح2269کتاب الرؤیا باب فی تاویل الرؤیا )میں موجود ہے۔ ان پر امام یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ  کی جرح مردود ہے۔

ابن حجر  رحمۃ اللہ علیہ نے کہا: "ثقة ، ولم يصب من ضعفه"(تقریب التہذیب:6252)

(بعض کہتے ہیں کہ)ابن معین کی جرح محمد بن کثیر المصیصی کے بارے میں ہے۔(حاشیہ میزان الاعتدال ج4ص18)

المصیصی دوسرا شخص تھا محمد بن العبدی کی متابعت ابو داؤد الحفری (السنن الکبری للبیہقی ج4ص57) اور الفریابی (سنن دارقطنی ج1ص333)نے کردی ہے۔والحمدللہ۔

(2)سفیان  بن سعیدالثوری ،صحیح بخاری رحمۃ اللہ علیہ  وصحیح مسلم  رحمۃ اللہ علیہ کے مرکزی راوی ہیں اورکسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ ان کی تدلیس کی بحث آگے آرہی ہے۔

3۔سلمہ بن کہیل صحیح بخاری رحمۃ اللہ علیہ  وصحیح مسلم رحمۃ اللہ علیہ  کے مرکزی راوی ہیں اور "ثقہ" ہیں(التقریب :2508)

4۔حجر ابو العنبس "ثقہ"ہیں (الکاشف للذہبی ج1ص150)

انھیں خطیب بغدادی نے ثقہ کہا ہے ۔

5۔وائل بن حجر مشہور صحابی ہیں رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔

معلوم ہوا کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ والحمد للہ۔

(ایک اعتراض کا جواب) 

پرائمری ماسٹر: محمد امین صفدر اوکاڑی حیاتی دیوبندی نے لکھا ہے۔

"حضرت وائل بن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی حدیث ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ  سے جو پیش کرتے ہیں نہ صحیح ہے، کیونکہ اس میں سفیان مدلس علاء بن صالح شیعہ محمد بن کثیر ضعیف ہے۔ نہ دوام میں صریح ہے"

(مجموعہ رسائل ج3ص331طبع اول،غیر مقلدین کی غیر مستند نماز، حوالہ نمبر 87،تجلیات،صفدر ج5ص470)

جواب نمبر1۔سفیان بن سعید الثوری کے بارے میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:

"لا أعر ف لسفيا ن الثوري عن حبيب بن أبي ثابت ولا عن سلمة بن كهيل ولا عن منصور وذكر مشايخ كثيرة لا أعرف لسفيان عن هؤلاء تدليسأ ما اقل تدليسه"(علل الترمذی الکبیر ج2ص966)

یعنی سفیان ثوری ،سلمہ کہیل سے تدلیس نہیں کرتے تھے۔

جواب نمبر2۔آل تقلید کے نزدیک یہاں تدلیس مضر نہیں ہے۔ظفر احمد تھانوی دیوبندی نے کہا:

"والتدليس والارسال في القرون الثلاثة لا يضر عندنا"

قرون ثلاثہ (صحابہ تابعین اور تبع تابعین کے دور میں)ہمارے نزدیک تدلیس اور ارسال (مرسل روایت ہونا)مضر نہیں ہے۔(اعلاء السنن ج1ص313)

جواب۔نمبر3۔سفیان ثوری ترک رفع یدین والی حدیث المنسوب الی عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے بنیادی راوی ہیں اور "عن"سے روایت کر رہے ہیں۔دیوبندی اوربریلوی حضرات کا سفیان کی یہاں تدلیس کے بارے میں کیا خیال ہے؟

ابو بلال محمد اسماعیل جھنگوی دیوبندی کی "تحفہ اہل حدیث حصہ دوم"    (ص154،155)بھی دیکھ لیں۔

باقی جوابات کو اختصار کی وجہ سے حذف کر رہا ہوں مثلاً یحییٰ بن سعید القطان کی سفیان ثوری سے روایت وغیرہ العلاء بن صالح ہماری مذکورہ روایت کی سند میں ہے ہی نہیں اور محمد بن کثیر العبدی کو ضعیف کہنا مردود ہےجیسا کہ سابقہ صفحے پر گزر چکا ہے۔ یادرہے کہ راوی کے تعین کے لیے اس کے شیوخ وتلامیذ کو مدنظر رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ ایک روایت میں امام ابوداؤد  رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا:"

"حدثنا محمد بن كثير عن سفيان عن منصور"

تو خلیل احمد سہارنپوری دیوبندی نے کہا:

"(حدثنا محمد بن كثير) العبدي ابو عبدالله البصري.....قال ابن معين :لم يكن بثقة وذكره ابن حبان في الثقات وقال احمد بن ح حنبل رحمة الله عليه:ثقة"(بذل المحمود ج1ص139ح55)

ابن معین کی جرح مردود ہے جیسا کہ سابقہ صفحےپر گزر چکا ہے۔

1۔عمل صحابہ اور مخالفین آمین بالجہر کے پاس عدم دلیل کی بنا پر یہ صحیح حدیث دوام پر دلیل ہے۔ والحمدللہ۔

2۔العلاء بن صالح پر جرح بھی مردود ہے جمہورمحدثین نے انھیں ثقہ قراردیا ہے لہٰذا ان کی حدیث حسن لذاتہ ہے۔

2۔امام ابن ماجہ القروینی رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا:

"حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، حَدَّثَنَا سُهَيْلُ بْنُ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " مَا حَسَدَتْكُمْ الْيَهُودُ عَلَى شَيْءٍ ، مَا حَسَدَتْكُمْ عَلَى السَّلَامِ وَالتَّأْمِينِ "

(سنن ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ  ج1ص278ح856،وسندہ صحیح)

اسے منذری (متوفی656ھ)اور بوصیری دونوں نے صحیح کہا ہے۔(الترغیب والترہیب ج1ص328وزوائد سنن ابن ماجہ للبوصیری)

سند کا تعارف 

1۔اسحاق بن منصور بن بہرام الکوسج ابو یعقوب التمیمی ،المروزی نزیل نیسابور۔

(تہذیب الکمال للمزی ج2ص74،75)

صحیح بخاری رحمۃ اللہ علیہ  و صحیح مسلم  رحمۃ اللہ علیہ کے راوی "ثقہ ثبت" ہیں۔(التقریب:384)

2۔عبدالصمد بن عبدالوارث بن سعید العنبری صحیح بخاری رحمۃ اللہ علیہ  وصحیح مسلم رحمۃ اللہ علیہ  کے راوی اور "صدوق ثبت فی شبہ"تھے ۔(التقریب:4080)

ان کے بارے میں عبدالباقی بن قانع(ضعیف)نے کہا:"ثقہ یخطیٰ"(تہذیب التہذیب ج6ص292)

یہ جرح مردودہے۔

3۔حماد بن سلمہ صحیح مسلم کے راوی ہیں۔جمہورمحدثین نے انھیں ثقہ قراردیا ہے۔ ان پر جرح مردود ہے۔حماد بن سلمہ سے عبدالصمد کی روایت صحیح مسلم(کتاب الجہاد باب استحباب الدعاءعندلقاء العدوح1743)میں موجود ہے لہٰذا ثابت ہوا کہ عبد الصمد کا حماد سے سماع قبل از اختلاط و تغیرہے۔دیکھئے مقدمۃ ابن الصلاح مع شرح العراقی (ص 366،النوع : 62) لہٰذا اختلاط وتغیر کا الزام بھی مردود ہے۔خالد بن عبد اللہ الطحان نے یہی حدیث سہیل سےبیان کر رکھی ہے۔(صحیح ابن خزیمہ ج1ص288ح574)

4۔سہیل بن ابی صالح ،صحیح مسلم کے راوی: صدوق ، تغير حفظه باخره ، روى له البخارى مقرونا وتعليقا ہیں۔ (التقریب:2675)

سہیل بن ابی صالح سے حماد بن سلمہ کی روایت صحیح مسلم (کتاب البروالصلہ باب النہی عن قول ہلک الناس ح2623)پر موجود ہے جو اس کی دلیل ہے کہ حماد کا سہیل سے سماع قبل از اختلاط ہے۔ لہٰذا سہیل پر"تغیر حفظہ باخرہ" والی جرح یہاں مردود ہے۔

5۔ابو صالح ذکوان ،صحیح بخاری رحمۃ اللہ علیہ  وصحیح مسلم  رحمۃ اللہ علیہ کے راوی اور "ثقہ ثبت" ہیں۔ (التقریب:1841)

6۔ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  مشہور صحابی ہیں۔

ثابت ہوا کہ اس روایت کی سند صحیح ہے اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ یہودی لوگ مسلمانوں سے دو(اہم ) باتوں پر حسد کرتے تھے۔

1۔ایک دوسرے کو السلام علیکم کہنا۔2۔آمین کہنا۔یہ ظاہر ہے کہ وہ سلام اور آمین سنتے تھے لہٰذا اسی وجہ سے حسد کرتے تھے۔

3۔خطیب بغدادی نے تاریخ(11/43)اور ضیاء المقدسی نے المختارۃ (5/107ح17129،1730)میں سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت کیا ہے کہ(الفاظ خطیب کے ہیں )رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"إن اليهود ليحسدونكم على السلام والتأمين"

"بے شک یہود تم سے سلام اور آمین کی وجہ سے حسد کرتے ہیں"اس کے سارے راوی ثقہ وصدوق ہیں اور اس کی سند صحیح ہے۔

ان روایات کی تائید میں عرض ہے کہ ایک روایت میں اس حسد کی وجہ مسلمانوں کا "وقولهم خلف إمامهم في المكتوبة" امام کے پیچھے آمین کہنا ہے۔

(الترغیب والترہیب ج1ص328،329، وقال "باسنادحسن "مجمع الزوائد ج2ص113وقال ا:اسنادہ حسن)

اس طرح آمین بالجہر کی اور بھی بہت ساری روایات ہیں۔ دیکھئے میری کتاب "القول المتین فی الجہر بالتامین"ان احادیث سے معلوم ہوا کہ امام مسلم  رحمۃ اللہ علیہ  کا یہ دعوی بالکل صحیح ہے کہ "نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کا آمین بالجہر کہنا متواتر احادیث سے ثابت ہے۔"مانعین کے پیش کردہ دلائل وغیرہ صریح مبہم ضعیف اور بلا سند ہیں لہٰذا صحیح ومتواتر احادیث کے مقابلے میں مردود وباطل ہیں۔ 

(صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا عمل)

سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا اثر  امام ابن خزیمہ  رحمۃ اللہ علیہ نے کہا:

"عن نافع عن ابن عمر كان : إذا كان مع الإمام يقرأ بأم القرآن فأمن الناس أمن ابن عمر ورأى تلك السنة"

"محمد بن یحییٰ  رحمۃ اللہ علیہ نے ہمیں حدیث بیان کی (کہا ) ہمیں ابو سعید الجعفی نے حدیث بیان کی( کہا) مجھے ابن وہب نے حدیث بیان کی (کہا) مجھے اسامہ بن زید نے نافع  رحمۃ اللہ علیہ سے حدیث بیان کی کہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  جب امام کے ساتھ نماز پڑھتے سورۃ فاتحہ پڑھتے پھر لوگ آمین کہتے تو آپ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ )بھی آمین کہتے اور اسے سنت قرار دیتے۔(صحیح ابن خزیمہ1 رحمۃ اللہ علیہ /287،ح572)

سند کی تحقیق

نافع مولیٰ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  "ثقہ ثبت فقیہ مشہور"(التقریب :7086)

اسامہ بن زید (اللیثی ابو زید المدنی )صحیح مسلم کے راوی اور عند الجمہور ثقہ وصدوق تھے۔ابن وہب عن اسامہ بن زید عن نافع عن ابن عمر کی سند سے متعدد روایات صحیح مسلم میں موجود ہیں۔(راجع تحفۃ الاشراف للمزی 6/54،55)

ان پر یحییٰ بن سعید  رحمۃ اللہ علیہ ،احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ  ،ابو حاتم رحمۃ اللہ علیہ ، نسائی رحمۃ اللہ علیہ ، البرقی  رحمۃ اللہ علیہ  اور ابو العرب رحمۃ اللہ علیہ  نے جرح کی ہے یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ ، ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ  العجلی رحمۃ اللہ علیہ  ، مسلم  رحمۃ اللہ علیہ  ،ابن حبان "وقال يخطي" ابن شاہین رحمۃ اللہ علیہ  اور یعقوب رحمۃ اللہ علیہ  ابن سفیان  رحمۃ اللہ علیہ وغیرہم نے ثقہ صدوق وصحیح الحدیث کہا ہے۔الحاکم  رحمۃ اللہ علیہ اور ابوعلی الطوسی رحمۃ اللہ علیہ  نے ان کی حدیث کو صحیح قراردیا ۔ ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ  وغیرہ نے ان کی حدیث کی تصحیح کی ہے۔

ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ  کا قول ہے:

"ويروى عنه ابن وهب نسخة صالحة"

 (مخلصاً من تہذیب الکمال مع الہامش 2/347۔351،وتہذیب التہذیب 1/209،210وغیرہما)

ذہبی  رحمۃ اللہ علیہ نے کہا:"الامام العالم الصدوق "(سیراعلام النبلاء 6/342)

اور کہا:"صدوق قوی الحدیث والظاہر انہ ثقہ" (معرفۃ الرواۃ المتکلم فیہم لایوجب الردللذہبی ص64رقم 26)

بوصیری نے الزوائد میں ان کی ایک حدیث کو صحیح قراردیا ۔(سنن ابن ماجہ 2/1014ح3052)

زیلعی حنفی نے اس کی ایک حدیث کو حسن کہا: (نصب الرایۃ 3/162)

علی بن المدینی رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا:"کان عندناثقہ"(سوالات محمد بن عثمان بن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ  رقم 103ص98)   

محمد بن عثمان بن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ  ثقہ ہیں اور ان پر جروح مردود ہیں۔

دیکھئے میری کتاب "

"الأسانيد الصحيحة في أخبار الإمام أبي حنيفة"

 (ص81اور تحقیقی مقالات (ج1ص475)  

شمس الحق عظیم آبادی رحمۃ اللہ علیہ  نے ابن سید الناس سے نقل کیا کہ" اسنادہ حسن"(تعلیق المغنی 1/252) یعنی اس کی ایک روایت بلحاظ سند حسن ہے۔

خلاصہ یہ کہ جمہور کے نزدیک ثقہ و صدوق تھے لہٰذا ان کی حدیث حسن ہے۔

حافظ ذہبی  رحمۃ اللہ علیہ   لکھتے ہیں۔

"وقد يرتقي حديثه إلى رتبة الحسن"

اور ان کی حدیث حسن کے رتبے تک پہنچ جاتی ہے۔(سیراعلام النبلاء 6/343)

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا:"صدوق یھم "(التقریب :317)

حافظ صاحب امام ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ  سے ایک راوی کے بارے میں میں نقل کرتے ہیں۔

"لم أر له متنا منكرا ربما يهم وهو حسن الحديث انتهى"

(الکامل لا بن عدی3/1178،لسان المیزان 3/69)

معلوم ہوا کہ يهم والی روایت کا راوی حسن الحدیث ہوتا ہے(بشرطیکہ اس کے موثقین زیادہ ہوں اور روایت مذکورہ میں اس کا وہم ہونا ثابت نہ ہو۔)

دیوبندیوں کا اصول ہے کہ مختلف فیہ راوی کی حدیث حسن ہوتی ہے۔ظفر احمد تھانوی صاحب لکھتے ہیں:

"حسن وكذا إذا كان الراوي مختلفاً فيه وثقه بعضهم، وضعفه بعضهم فهو حسن الحديث"

"اور اس طرح اگر راوی میں اختلاف ہو، بعض نے اس کی توثیق کی ہواور بعض نے ضعیف قراردیا ہوتو وہ حسن الحدیث ہوتا ہے۔(قواعد فی علوم الحدیث ص46مع تحقیق ابی غدۃ الحنفی )

اور اسامہ بھی مختلف فیہ راوی ہیں۔بعض نے جرح کی اور اکثر و جمہور علماء نے انھیں ثقہ قراردیا لہٰذا ان کی حدیث بذات کود حسن ہے واللہ اعلم۔

ابن وہب کتب ستہ کے راوی اور ثقہ حافظ عابد ہیں۔ (التقریب :3694)

ابو سعید(یحییٰ بن سلیمان )الجعفی ،صحیح بخاری کے راوی ہیں ان سے ابوزرعہ رحمۃ اللہ علیہ  وغیرہ نے روایت کی۔ ابو زرعہ رحمۃ اللہ علیہ  صرف ثقہ سے روایت کرتے ہیں ۔(لسان المیزان 2/416)

ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ  نے ثقہ قراردیا ہے۔(کتاب الثقات 9/263وقال :ربما اغرب)

دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا:"ثقہ "

مسلمہ بن قاسم نے کہا:

"لا باس به وكان عند العقيلي ثقة وله احاديث مناكير"

(مسلمہ بذات خود ضعیف ہے)

ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی صحیح میں ان سے روایت کی ہے ابو حاتم رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا: "شیخ"ان کے مقابلے میں امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا:"لیس بثقۃ"

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا:"صدوق یخطی "(مخلصا من تہذیب التہذیب 11/227وتقریب التہذیب :7564)

جمہور کے مقابلے میں یہ جرح مردود ہے لہذا ابو سعید الجعفی کی حدیث حسن لذاتہ ہے۔

ان کے شاگرد محمد بن یحییٰ (الذہلی ) ثقہ حافظ جلیل تھے۔(التقریب:6387)

خلاصہ یہ کہ حدیث بلحاظ سند حسن ہے۔ لہٰذا شیخ ناصر الدین البانی رحمۃ اللہ علیہ  کا اسے اسناد ضعیف کہنا قرین صواب نہیں ہے۔ واللہ اعلم۔

امام بیہقی  رحمۃ اللہ علیہ  لکھتے ہیں:

"وروينا عن ابن عمر رضى الله عنه " أنه كان يرفع بها صوته ، إماما كان أو مأموما "

ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  امام ہوتے یا مقتدی (دونوں صورتوں میں) آمین بلند آواز سے کہتے تھے۔(السنن الکبری2/59)

ان کا غالباً اس حدیث کی طرف اشارہ ہے:

"وقال نافع: كان ابن عمر لا يدعه، ويحضهم، وسمعت منه في ذلك خبراً"

نافع  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے کہا: ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آمین (کہنا) نہیں چھوڑتے تھے اور انھیں (اپنے شاگردوں کو) اس کی ترغیب دیتے تھے اور میں نے اس سلسلہ میں ان سے ایک خبر سنی ہے۔(بخاری مع فتح الباری 2/209)

بعض روایات میں ہے کہ میں نے خیر سنی ہے۔

یہ روایت مصنف عبدالرازق (2641)میں موصولاً موجود ہے۔

تنبیہ:

مصنف عبدالرزاق (2/97)میں ابن خریج کے بعد"اخبرت نافع" چھپ گیا ہے۔جبکہ صحیح" اخبرنی نافع" ہے جیسا کہ فتح الباری 2/209) میں ہے۔

فوائد بن معین میں صحیح سند کے ساتھ نافع سے روایت ہے۔

"قول ابن جريج: أُخبرتُ عن نافع أن ابن عمر كان إذا ختم أمّ القرآن قال: «آمين»، لا يدع أن يؤمن إذا ختمها، ويحضهم على قولها قال: وسمعت منه في ذلك خبرا"

"ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  جب سورۃ فاتحہ ختم کرتے تو آمین (کہنا )نہ چھوڑتے، جب فاتحہ ختم کرتے تو آمین کہتے اور اسے کہنے کی ترغیب دیتے ،میں نے ان سے اس کے متعلق ایک روایت بھی سنی ہے۔

روایت ابن حجر  رحمۃ اللہ علیہ نے تغلیق التعلیق (2/319)میں اپنی سند کے ساتھ یحییٰ بن معین  رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کی ہے۔

میرے اس مضمون کا صرف وہی جواب قابل مسموع ہوگا جس میں اس مضمون کےمکمل متن کو درج کر کے ہر مطلوبہ بات کا جواب دیا جائے گا۔ اس شرط کی عدم موجودگی والا جواب شروع سے ہی مردود سمجھا جائے گا۔

"وَالمُسْلِمُونَ عَلَى شُرُوطِهِمْ"

یادرہے کہ یہ شرط کتاب اللہ کے مخالف نہیں ہے بلکہ عین تحقیق مطلوب ہے تاکہ مخالف شخص اصل بحث سے ہٹ کر ادھر اُدھرکی باتیں نہ چھیڑدے۔مزید تفصیل کے لیے دیکھئے میری کتاب"القول المتین فی الجہربالتامین"

تنبیہ:

اس مضمون "زاد الیقین فی تحقیق بعض روایات التامین" کا جواب ابھی تک نہیں آیا۔(18ستمبر2004ء

لہٰذا عامۃ المسلمین کے فائدے کے لیے اسے ماہنامہ "الحدیث"میں شائع کیا جارہا ہے۔(16/شعبان 1423ھ بمطابق 23/اکتوبر 2002ء)(الحدیث:7)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد1۔كتاب الصلاة۔صفحہ334

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ