السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔جب قرآن پڑھا جائے تو اس کو غور سے سنو اور خاموش رہو۔ (الاعراف:204)اس سے کیا مراد ہے؟(عبدالستار سومروکراچی)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جب قرآن مجید پڑھا جاتا تھا تو کفار شور مچاتے تھے اور کہتے تھے:
﴿لا تَسمَعوا لِهـٰذَا القُرءانِ وَالغَوا فيهِ لَعَلَّكُم تَغلِبونَ ﴿٢٦﴾... سورةحم السجدة
(1)یہ قرآن نہ سنو (اور شور مچاؤ(3)تاکہ غالب آجاؤ۔(حم السجدہ:26)
یہ آیت کریمہ بالاتفاق مکی ہے اور ان کافروں اور مشرکوں کے جواب میں نازل ہوئی ہے جو تلاوت وتبلیغ قرآن کے وقت شور مچاتے تھے۔
دیکھئے تفسیر قرطبی (ج1ص121) البحرالمحیط لابی حیان الاندلسی (ج4س 448)تفسیر الکبیر للرازی (ج15ص104)فوائد القرآن لعبد الجبار بن احمد بحوالہ قرطبی (ج7ص354)
عبدالماجددریا آبادی دیوبندی کی تفسیر ماجدی (ج2ص263)اشرف علی تھانوی دیوبندی نے کہا: "میرے نزدیک"وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا" "جب قرآن مجید پڑھا جائے تو کان لگا کر سنو تبلیغ پر محمول ہے اس جگہ قرآءت فی الصلوٰۃ مراد نہیں سیاق سے یہی معلوم ہوتا ہے تو اب ایک مجمع میں بہت آدمی مل کر قرآن پڑھیں تو کوئی حرج نہیں۔"
(الکلام الحسین جلد دوم ص212مطبوعہ المکتبۃ الاشرفیہ جامعہ اشرفیہ لاہور)
بعض لوگ اس آیت کریمہ کے عموم سے استدلال کرتے ہوئے فاتحہ خلف الامام سے منع کرتے ہیں حالانکہ اصول میں یہ مسئلہ مقرر ہے کہ خاص دلیل کے مقابلے میں عام دلیل پیش نہیں کی جاسکتی ۔ مزید تفصیل کے لیے(امام بخاری کتاب جزء القرآءۃ مع تحقیقی نصرالباری اور)جماعت اہل حدیث کے نامور عالم اور محقق مولانا عبدالرحمٰن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ کی معرکۃ الآراء کتاب"تحقیق الکلام فی وجوب قرآءۃ الفاتحہ خلف الامام "نیز میری کتاب "الکواکب الدریہ فی وجوب الفاتحہ خلف الامام فی الجہر یہ"کا مطالعہ کریں۔(شہادت فروری2000ء)
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب