سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(142) "سورۃ الفاتحہ خلف الامام"

  • 21035
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-05
  • مشاہدات : 1228

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آپ نے"شہادت نومبر1999ء کے شمارہ میں"سورۃ الفاتحہ خلف الامام"کے بارے میں بہت سی احادیث تحریر فرما کر یہ ثابت کیا کہ مقتدی کو باجماعت نماز میں امام کے پیچھے بھی سورہ فاتحہ پڑھنی چاہیے۔ لیکن کیا یہ تمام احادیث قرآن  کی آیت سے تو نہیں ٹکرارہی ہیں؟ کہ"اور جب قرآن پڑھا جائے تو توجہ سے اور خاموشی سے سنو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔"مسئلہ یہ دریافت کرنا ہے کہ ادھر قرآن پاک میں باری تعالیٰ فرماتے ہیں۔ قرآن سنو اور ادھر آپ احادیث سے یہ ثابت کر رہے ہیں کہ قرآن کو خود بھی پڑھو ۔براہ مہربانی ذرا واضح طور پر جواب تحریر فرمائیں کہ آیا مقتدی کو امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنی چاہیے؟کیا یہ احادیث سے ثابت ہےاور حدیث قرآن کی اس آیت کا مقابلہ تو نہیں کر سکتی کیونکہ حدیث تو ظن ہے جبکہ قرآن من جانب اللہ ہے۔(طارق محمود آصف شاہ اور طاہرکراچی)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

احادیث صحیحہ کو ظنی کہنا غلط ہے بلکہ صحیح حدیث بھی قطعی الثبوت اور حتمی ہوتی ہے۔ جیسا کہ محدثین کرام کی تحقیق ہے۔ دیکھئے اختصار علوم الحدیث لا بن کثیر (ص34)

صحیح حدیث قرآن کی طرح حجت ہے۔ جب دونوں شرعی دلیلیں ہیں اور حجت ہیں تو دلیل کے ساتھ دلیل کی تشریح و تخصیص کرنا جائز ہے حدیث حدیث کی، قرآن قرآن کی اور قرآن و حدیث ایک دوسرے کی تشریح و تخصیص کرتے ہیں۔ آئمہ اربعہ کے نزدیک حدیث کے ساتھ قرآن کی تخصیص کرنا جائز ہے۔دیکھئے الاحکام للامدی (ج2ص347)

قرآن پاک کی آیت کریمہ:

﴿وَإِذا قُرِئَ القُرءانُ فَاستَمِعوا لَهُ وَأَنصِتوا لَعَلَّكُم تُرحَمونَ ﴿٢٠٤﴾... سورةالاعراف

میں فاتحہ کی ممانعت کی صراحت نہیں ہے جبکہ فاتحہ خلف الامام والی حدیث میں فاتحہ کی صراحت ہے لہٰذا دونوں میں کوئی تعارض نہیں ہے کیونکہ حدیث قرآن کی تخصیص کر رہی ہے۔ دوسرے یہ کہ "فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ ۚ "سے بعض علماء نے یہ مسئلہ استنباط کیا ہے کہ مقتدی پر قرآءت فرض ہے۔

(دیکھئے نورالانوار(ص193)اور خلاصۃ الا فکار شرح مختصر المنار(ص197)

بلکہ حنفیہ کا ایک نرالا اصول ہے کہ یہ دونوں آیتیں: (وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ اور فَاقْرَءُوا) آپس میں ٹکرا کر ساقط ہو گئی ہیں ظاہر ہے کہ یہ اصول ہر لحاظ سے باطل ہے۔

"فَاقْرَءُوا" سے قرآءت خلف الامام کے استدلال پر اس حدیث سے بھی تائید ہوتی ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: "اقْرَءُوا" تم پڑھو۔(موطا امام مالک ج1ص85کتاب الصلوٰۃ القراۃ خلف الامام فیما لا یجھر بالقراۃ)

یادرہے کہ یہ "فَاقْرَءُوا" والا حکم جہری وسری دونوں نمازوں کو شامل ہے۔ کیونکہ اس حدیث کے راوی سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  جہری نمازوں میں بھی فاتحہ خلف الامام کا فتوی دیتے تھے۔دیکھئے مسند ابی عوانہ (ج2ص38)مسند حمیدی بتحقیقی (980)جزء القرآءت للبخاری (56،135)آثار السنن(ص106)دوسرا نسخہ ص69)

یہاں پر چند باتیں مد نظر رکھیں۔

"وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ" والی آیت بالا تفاق مکی ہے جبکہ فاتحہ خلف الامام والی روایات مدنی ہیں۔

"وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ" اصل میں مشرکین کے رد میں نازل ہوئی ہے۔دیکھئے تفسیر قرطبی (ج1ص121)

3۔غیر اہل حدیث حضرات امام کے پیچھے تکبیر تحریمہ:"الله اكبر‘ سبحانك اللهم "پڑھتے ہیں۔ صبح کی دو سنتیں ،عین جماعت کے وقت پڑھ رہے ہوتے ہیں اس وقت اس آیت کا حکم کہاں چلا جاتا ہے؟

4۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اور آپ فاتحہ خلف الامام کا حکم دیتے تھے۔ کیا اس آیت کا مفہوم آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو معلوم نہیں تھا؟

5۔سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  جیسے جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  فاتحہ خلف الامام کا حکم دیتے تھے کیا وہ اس آیت کے مفہوم سے واقف نہ تھے۔مزید تفصیل کے لیے مولانا عبد الرحمٰن مبارکپوری  رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب "تحقیق الکلام"اور راقم الحروف کی کتاب"الکواکب الدریہ فی وجوب الفاتحہ خلف الامام فی الجہریہ "کا مطالعہ کریں۔(شہادت نومبر2000ء)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد1۔كتاب الصلاة۔صفحہ324

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ