سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(138) نماز میں ہاتھ کہاں باندھے جائیں؟

  • 21031
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-09
  • مشاہدات : 1948

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

درج ذیل احادیث کے بارے میں تفصیل سے بتائیں کہ ان کی اسنادی حیثیت کیا ہے۔

1۔"عن وائل بن حجر قال; رايت النبي صلي الله عليه وسلم يضع يمينه على شماله في الصلاة تحت السرة"(مصنف ابن ابی شیبہ1/390)

2۔ "عن علي السنة وضع اليدين في الصلاة هل وضع اليد تحت السرة في الصلاة"(ابن ابی شیبہ1/391،مسند احمد1/110ح 875)

3۔"وعن أنس قال : ثلاث من أخلاق النبوة : تعجيل الإفطار ، وتأخير السحور ، ووضع اليد اليمنى على اليسرى في الصلاة تحت السرة" (الجوہر النقی 2/32)بحوالہ ابن حزم المحلیٰ 4/113)

4۔ "عن أبي هريرة قال : وضع الكف على الكف في الصلاة تحت السرة" (الجوہر النقی 2/32)بحوالہ ابن حزم)

5۔ "عن إبراهيم قال: "يضع يمينَهُ على شِماله في الصلاة تحت السُّرَّة" (ابن ابی شیبه1/390)

6۔ "يَضَعُ بَاطِنَ كَفِّ يَمِينِهِ على ظَاهِرِ كَفِّ شِمَالِهِ، وَيَجْعَلُهُمَا أَسْفَلَ مِنَ السُّرَّةِ" (ابن ابی شیبه1/391)

7۔ابن حزم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے تعلیقاً اور مسند الامام زید میں سند کے ساتھ سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ تین چیزیں انبیاء کے اخلاق میں سے ہیں۔ ایک نماز میں دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھنا۔

محترم!ان روایات کا حوالہ تخریج اور" فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ" کی تفسیر اور سینے پر ہاتھ باندھنے کی احادیث کن کن کتب حدیث میں وارد ہیں اور ان کی اسانید کس طرح ہیں؟(عبدالقادر)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ کی مطلوبہ روایات مذکورہ کی تخریج و تحقیق درج ذیل ہے۔

1۔وائل بن حجر  رحمۃ اللہ علیہ والی روایت مصنف ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ (1ص390)طبع العزیز یہ حیدر آباد،الہند،1386ھ بمطابق 1966ء)میں"تحت السرۃ"کے اضافے کے بغیر موجود ہے۔

اسی طرح میرے استاد محترم الشیخ ابو القاسم محب اللہ شاہ الراشدی السندھی  رحمۃ اللہ علیہ  کے کتب خانے میں مصنف ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ  کا جو قلمی نسخہ موجود ہے اس میں بھی "تحت السرۃ"کے الفاظ نہیں ہیں۔

انور شاہ کاشمیری دیوبندی نے کہا کہ میں نے مصنف (ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ )کے تین نسخے دیکھے ہیں ان میں سے کسی ایک بھی "تحت السرۃ"کے الفاظ نہیں ہیں۔(فیض الباری ج2ص267)

مصنف ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ  کا جو نسخہ بیروت سے چھپا ہے۔

اس میں بھی  "تحت السرۃ" کے الفاظ نہیں ہیں۔(ج1ص342حدیث 3938)

مصنف ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ  والی روایت امام وکیع سے ہے۔ امام احمد بن حنبل  رحمۃ اللہ علیہ  نےیہی روایت امام وکیع سے "تحت السرۃ"کے بغیر نقل کی ہے۔(مسند احمد ج4ص316حدیث :19051)

کراچی سے ادارہ القرآن والعلوم الاسلامیہ کے دیوبندی ناشرین نے حال ہی میں ابن ابی شیبہ  رحمۃ اللہ علیہ  کا نسخہ شائع کیا ہے اس میں بغیر کسی حوالے کے "تحت السرۃ"کے الفاظ کا اضافہ کر دیاسوال یہ ہے کہ دیوبندیوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  پر جھوٹ بولنے کی جرات کیوں ہوئی ؟ تو اس کے دوسبب ہیں۔

1۔دیوبندیوں سے پہلے ایک حنفی مولوی قاسم بن قطلوبغا(پیدائش 802وفات 979ھ)نے یہ روایت مصنف ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ  سے "تحت السرۃ"کے اضافے کے ساتھ نقل کی ہے اور اس کے بارے میں برہان الدین ابو الحسن ابراہیم بن عمیر البقاعی (متوفی 885ھ)مصنف "نظم الدررفی تناسب الآیات والسور"جو آٹھ جلدوں میں چھپی ہے نے فرمایا: قاسم بن قطلوبغاكان كذاباً "قاسم بن قطلو بغا۔ کذاب (یعنی جھوٹا )تھا۔(الضوء اللا مع للسخاوی ج6ص186)

2۔دیو بندی حضرات کو جھوٹ بولنے کی عادت ہے!

دیوبندی مکتب فکر کے بانی محمد قاسم نانوتوی (متوفی 1297ھ)نے کہا:

"میں سخت نادم ہوا اور مجھ سے بجز اس کے کچھ بن نہ پڑا کہ میں جھوٹ بولوں لہٰذا میں نے جھوٹ بولا(اور صریح جھوٹ میں نے اسی روز بولا تھا)الخ۔(ارواح ثلاثہ ص390حکایت نمبر 391ومعارف الاکابر ص260)

دیوبندی مکتب کے دوسرے بانی اور رکن رشید احمد گنگوہی (متوفی 1323ھ)نے کہا کہ"جھوٹا ہوں۔"الخ(مکاتب رشیدیہ ص10وفضائل صدقات ص558مطبوعہ کتب خانہ فیضی لاہور)

2۔عن علی۔(مسند احمد ج1ص110ابو داؤد 756وابن ابی شیبہ ج1ص391)    اس روایت کی سند ضعیف ہے اس کا راوی عبد الرحمٰن بن اسحاق الکوفی الواسطی جمہورمحدثین کے نزدیک ضعیف ہے بلکہ انور شاہ کاشمیری نے کہا:

"الواسطي وهو متفق على ضعفه"

"بے شک واسطی ضعیف ہے اس کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے"(العرف الشذی ج1ص76سطر نمبر28)

3۔یہ روایت المحلیٰ میں بلا سند ہے لیکن الخلافات للبیہقی (قلمی ص37)میں یہ روایت ۔

"اخبرنا ابوالحسين بن الفضل ببغداد:انبا ابوعمرو بن السماك :حدثنا محمد ابن عبيدالله بن المنادي :حدثنا ابوحذيفة:حدثنا سعيد بن زربي عن ثابت عن انس قال : من أخلاق النبوة: تعجيل الإفطار، وتأخير السّحور، ووضع اليمين على الشمال في الصلاة تحت السرة"

"کی سندو متن سے موجود ہے۔بیہقی رحمۃ اللہ علیہ  نے سعید بن زربی کو اس مقام پر"ولیس بالقوی"کہا ہے جب کہ تقریب التہذیب میں"منکر الحدیث"لکھا ہوا ہے لہٰذا یہ روایت ضعیف ہے۔

4۔یہ روایت سنداً صحیح ہے لیکن ابو مجلز تابعی کا قول ہے۔ ظاہر ہے کہ تابعی کا قول سنت صحیحہ کے مقابلے میں پیش نہیں کیا جا سکتا ۔ عین ممکن ہے کہ ابو مجلز تک اس مسئلے میں سنت صحیحہ نہ پہنچی ہو اور انھوں نے یہ فتوی اپنے اجتہاد سے دیا ہو۔

5۔مسند زید بن علی کا بنیادی راوی ابو خالد (عمرو بن خالد)الواسطی ہے(مسند زید ص50،51) یہ مشہور کذاب راوی تھا۔

دیکھئے میزان الاعتدال (3/257)وغیرہ کتاب مذکور( مسند زید )میں آپ کا حوالہ ص204)پر ہے۔ یہ ساری کتاب ہی موضوع ہے۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کی روایت محلیٰ (ج4ص113مسئلہ 448) میں "تحت السرۃ "کے الفاظ کے بغیر اور بلا سند مذکور ہے لہٰذا یہ استدلال بھی باطل ہے۔

"فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ" کی تشریح میں سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ:

 "وضع يده اليمنى على وسط ساعده اليسرى ثم وضعهما على صدره"

"یعنی انھوں نے اپنا دایاں ہاتھ اپنی کلائی کے درمیان اپنے سینے پر رکھا۔(التاریخ الکبیر للبخاری ج6ص437والسنن الکبری للبیہقی ج2ص30)

اس کے راوی (عاصم الجحدری)کے والد العجاج کے حالات نہیں ملے لہٰذا یہ سند ضعیف ہے بعض راویوں نے العجاج کو سند سے گرادیا ہے ایک شخص عبد اللہ بن ردبۃ العجاج ہے جسے ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ  نے کتاب الثقات (ج5ص287) میں ذکر کیا ہے۔

اس کے حالات تاریخ دمشق میں بھی ہیں تاہم اس کے استادوں میں عقبہ بن ظبیان اور شاگردوں میں عاصم الجحدری کا نام نہیں ملا۔ واللہ اعلم غالباً یہ دوسرا شخص ہے۔

بہر حال یہ سند ضعیف ہے التمہید لابن عبد البر(ج20ص78)میں اس روایت میں بحوالہ الاثرم، آخر میں"علی صدرۃ"کے بجائے "تحت السرۃ "کا اضافہ ہے اور سند سے عاصم الجحدری کے بعد"عن ابیہ کا واسطہ گر گیا ہے التمہید (9ص217)سے معلوم ہوتا ہےکہ حافظ ابن عبد البر الاثرم سے الخضر بن داؤد کی سند سے روایتیں بیان کرتے ہیں۔الخضر بن داؤد کے حالات نامعلوم ہیں اور باقی سند میں بھی نظر ہے لہٰذا یہ سند بھی ضعیف ہے۔

یہ مختصر تحقیق جلدی میں لکھ دی ہے۔ اس مسئلے میں مفصل تحقیق لکھنے کا میرے پاس فی الحال وقت نہیں ہے مسند احمد(ج5ص226ح 22313)میں قبیصہ بن ہلب والی قوی روایت سینے پر ہاتھ باندھنے کی زبردست دلیل ہے۔

صحیح بخاری (ح740) کی ذراع والی حدیث کا عموم بھی اس کا مؤید ہے:

"على ظهر كفه اليسرى والرسغ"

والی حدیث بھی اس کی دلیل ہے۔(دیکھئے ابو داؤد :727وسندہ صحیح)

نیز اس موضوع پر میری کتاب "نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام " کا مطالعہ بھی مفید ہوگا(ان شاء اللہ)(شہادت جولائی 2002)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد1۔كتاب الصلاة۔صفحہ313

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ