السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا درج ذیل باتیں ثابت ہیں کہ:
1۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوسکتے کیا کرتے تھے۔
2۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سکتہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنے کا حکم دیا کرتے تھے۔
3۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سکتوں میں سورۃ فاتحہ پڑھا کرتے تھے۔
4۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین جب امامت کرتے تو قرآءت شروع کرنے سے پہلے مقتدیوں کو سورۃ فاتحہ پڑھنے کے لیے کافی وقت دیا کرتے تھے۔(عبد الستار سومرو کراچی)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ان دو سکتات کے علاوہ ہر آیت کریمہ پر ٹھہرنا بھی ثابت ہے۔ ایک حسن روایت میں آیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سورۃ فاتحہ کی ہر آیت پر ٹھہرتے تھے۔
"كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَطِّعُ قِرَاءَتَهُ يَقْرَأُ: {الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ} [الفاتحة: 2]، ثُمَّ يَقِفُ، {الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ} [الفاتحة: 1]، ثُمَّ يَقِفُ"
(سنن ترمذی:2927وقال:"غریب و"وصححہ ابن خزیمہ والحاکم علی شرط الشیخین 2/232،دوافقہ الذہبی)
مسند احمد (6/288ح26470)میں اس روایت کا ایک شاہد ہے جس کی سند صحیح ہے۔نماز میں فاتحہ خلف الامام کے چار طریقے ہیں۔
1۔امام سے پہلے یعنی سکتہ اولیٰ میں پڑھ لے۔
سیدناابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں۔
"إذا قرأ الإمام بأم القرآن فاقرأ بها واسبقه"
جب امام سورۃ فاتحہ پڑھے تو تم بھی پڑھو اور اس سے آگے نکل جاؤ۔
(جزء القراءت للبخاری ص73ح53وسندہ حسن نصرالباری 259،آثار السنن للنیموی ص223ح358وقال :اسنادہ حسن)
اسے نیموی تقلیدی نے بھی حسن کہا ہے۔
2۔سکتہ ثانیہ (بعد از قرآءت علی الراجح یا بعد از فاتحہ پڑھے)
3۔سکتات قرآءت میں پڑھے۔
4۔امام سکتہ یا سکتات نہ کرے تو اس کے ساتھ ہی پڑھ لیں۔ دیکھئے میری کتاب "الکواکب الدریہ فی وجوب الفاتحہ خلف الامام فی الصلوٰۃ الجہریہ"
یہ چاروں طریقے صحیح ہیں مگر ثانی الذکر اور ثالث الذکر (3،2)سب سے راجح ہیں۔
رشید احمد گنگوہی دیوبندی صاحب فرماتے ہیں۔
"اگر سکتات میں پڑھا جاوے تو مضائقہ نہیں۔"(سبیل الرشاد وتالیفات رشید یہ ص511)
نیز فرماتے ہیں ۔"پس جب اس کو اس قدر خصوصیت بالصلوٰۃ ہے تو اگر سکتات میں اس کو پڑھ لو تو رخصت ہے اور یہ قدر قلیل آیات محل ثنا میں ختم بھی ہو سکتی ہیں اور خلط قرآن امام کی نوبت نہیں آتی۔"(ایضاً) (شہادت مارچ 2000ء)
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب