السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کن صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے ثابت ہے کہ وہ قرآءت کے بعد رکوع کرنے سے پہلے مقتدی کو فاتحہ پڑھنے کی مہلت دینے کے لیے سکتہ کرنے کے قائل و فاعل تھے؟(وقار علی مبین الیکٹرونکس امین پارک لاہور)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے یہ سکتے کرنا کتاب القرآءت للبیہقی (ص103) میں باسند حسن لذاتہ ثابت ہے۔ حسن لذاتہ روایت حجت ہوتی ہے۔
تنبیہ:راقم الحروف نے راویوں پر جرح وتعدیل کے جو اقوال پیش کئے ہیں ان کا اصل مقصد یہ ہے کہ جمہورمحدثین کا موقف بیان کر کے اسے ترجیح دی جائے۔ میرے نزدیک جرح وتعدیل میں تعارض کی صورت میں اگر تطبیق وتوثیق ممکن نہ ہو تو ہمیشہ جمہورمحدثین کو ترجیح حاصل ہوتی ہے اور اسی پر میرا عمل ہے۔
دیکھئے میری کتاب نورالعین فی مسئلہ رفع الیدین(ص 59/60وطبع قدیم ص41،42)تاج الدین عبد الوھاب بن علی السبکی (متوفی 771ھ) کہتے ہیں)
"والجرح مقدم ان كان عدد الجارح اكثر من المعدل اجماعا وكذا ان تساويا او كان الجارح اقل وقال ابن شعبان يطلب الترجيح"
اگر معدلین (توثیق کرنے والوں)کے مقابلے میں جارحین کی تعدادزیادہ ہوتو بالا جماع جرح مقدم ہوجاتی ہے اور اگر برابر ہوں تو بھی جرح مقدم ہو جاتی ہے یا اگر جارح کم ہوں تو (سبکی کے نزدیک جرح مقدم ہے)اور ابن شعبان نے کہا: ترجیح دیکھی جائے گی،یعنی دوسرے دلائل سے ترجیح دیں گے۔
(قاعدہ فی الجرح والتعدیل ص50،51واللفظ لہ جمع الجوامع 2/172)
اس عبارت سے معلوم ہوا کہ اس پر اجماع ہے کہ جارحین (یعنی ماہر اہل فن ثقہ محدثین)کی اکثریت کی حالت میں جرح مقدم ہوتی ہے۔رہا مسئلہ جرح میں برابری یا جارحین کی قلت کا تو اس صورت میں راقم الحروف کےنزدیک تحقیق درج ذیل ہے۔
1۔جارحین ومعدلین دونوں برابربرابرہوں،ایسی کوئی مثال میرے علم میں نہیں ہے۔
2۔جارحین کی قلت کی صورت میں معد لین کی تعدیل مقدم ہو گی۔
محمد ادریس کاندہلوی دیوبندی لکھتے ہیں۔"جب کسی راوی میں توثیق اور تضعیف جمع ہو جائیں محدثین کے نزدیک اکثر کے قول کااعتبار ہے اور فقہاء کا مسلک یہ ہے کہ جب کسی راوی میں جرح وتعدیل جمع ہو جائیں تو جرح مبہم کے مقابلہ میں تعدیل کو ترجیح ہوگی اگرچہ جارحین کا عدد معدلین کے عدد سے زیادہ ہوااور احتیاط بھی قبول ہی کرنے میں ہے۔(سیرت المصطفیٰ ج1ص79)
اس میں (دیوبندی ) فقہاء کے مقابلے میں محدثین کا قول ہی راجح ہے۔
سرفراز خان صفدر دیوبندی لکھتے ہیں۔"بایں ہمہ ہم نے توثیق وتضعیف میں جمہور آئمہ جرح وتعدیل اور اکثر آئمہ حدیث کا ساتھ اور دامن نہیں چھوڑا۔"(احسن الکلام ج1ص40)
تنبیہ: محدث اگر کسی روایت کی تصحیح یا تحسین کرے۔(یعنی صحیح یا حسن کہے) تو یہ اس محدث کے نزدیک اس روایت کے راویوں کی توثیق ہوتی ہے۔
حافظ ذہبی فرماتے ہیں۔"
"وصحح حديثه ابن المنذر، وابن حزم، وغيرهما، فذلك توثيق له "
"اس کی حدیث کو ابن المنذر اور ابن حزم نے صحیح کہا اور یہ اس (راوی) کی توثیق ہے واللہ اعلم(سیزان الاعتدال 4/558ت10478)
ابن القطان الفاسی نے کہا:
"وفي تصحيح الترمذي إياه توثيقها وتوثيق سعد بن إسحاق"
"اور ترمذی کے اس حدیث کو صحیح کہنے میں زینب اور سعد بن اسحاق کی توثیق ہے۔(بیان الوہم والا یہام الواقعین فی کتاب الاحکام 5/395ح2562،نصب الریۃ 3/263)
یہی موقف صاحب الامام (نصب الرایۃ 1/149) اور شیخ ناصر الدین الالبانی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔
(السلسلۃ الصحیحۃ 6/660ح2783،7/16،ح 3007)نیز دیکھئے الاقتراح لا بن دقیق العید (ص 325۔328)اور توجیہ القاری للشیخ ثناء اللہ الزہدی (ص63)
تنبیہ:ان جوابات میں بعض مقامات پر ضروری اصلاح اور اضافہ بھی کیا گیا ہے تاکہ قارئین کی خدمت میں زیادہ سے زیادہ معلومات پیش کردی جائیں۔ والحمدللہ (الحدیث:14)
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب