سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(111) باقی ماندہ رکعات کی ادائیگی کیسے؟

  • 21004
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-03
  • مشاہدات : 1307

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مختلف حالات میں داخل ہونے والا نمازی (جماعت میں)بقایا نماز کس طرح ادا کرے گا؟(سید عبدالناصر ،ضلع مروان)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حدیث میں ہے :

"أَدْرَكْتُمْ فَصَلُّوا ، وَمَا فَاتَكُمْ فَأَتِمُّوا"

جتنی نماز امام کے ساتھ پاؤ،پڑھو اور جتنی فوت ہو جائے ، پوری کرو۔(دیکھئے صحیح بخاری :635،صحیح مسلم :603)

مولانا عبد اللہ محدث روپڑی  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں ۔"اس سے معلوم ہوا کہ مسبوق امام کے فارغ ہونے کے بعد جتنی نماز پڑھتا ہے وہ اس کی پچھلی نماز ہے اور جو امام کے ساتھ پڑھی ہے وہ اس کی پہلی ہے۔ کیونکہ حدیث میں فوت شدہ کی ابابت اتمام کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔جس کے معنی اخیر سے پورا کرنے کے ہیں۔ اورا خیر سے پورا کرنا اسی صورت میں ہو سکتا ہے،کہ جو امام کی فراغت کے بعد پڑھے وہ اس کی اخیر ہو گی۔ اور بعض روایتوں میں اتمام کی جگہ قضاء کا لفظ آیا ہے تو وہ بھی اس کے خلاف نہیں ہے۔ کیونکہ قضاء کے معنی پورا کرنے کے بھی آتے ہیں جیسے قرآن مجید میں ہے۔

﴿فَإِذا قُضِيَتِ الصَّلو‌ٰةُ فَانتَشِروا فِى الأَرضِ ... ﴿١٠﴾... سورةالجمعة

یعنی جب نماز پوری ہوجائے تو پھر روزی کی تلاش کے لیے زمین میں پھیل جاؤ۔

پس جب اخیری نماز ہوئی تو اس میں اثناء نہیں پڑھنی چاہیے۔اگر غلطی سے پڑھ لی جائے تو معاف ہے۔ یہ ایسا ہے جیسے قرآن مجید میں متشابہ لگ جاتا ہے۔ دیدہ دانستہ پڑھنی ٹھیک نہیں خواہ مغرب کی نماز ہو یا کوئی اور چار رکعت والی نماز ہو یا دورکعت والی نماز ہو۔ کسی میں اثنا نہیں اور التحیات بھی اسی حساب سے بیٹھے یعنی امام کے ساتھ ایک رکعت والی نماز ہویا دورکعت والی نماز ہو۔ کسی میں ثناء نہیں اور التحیات بھی اسی حساب سے بیٹھے یعنی امام  کے ساتھ ایک رکعت پائی ہے تو ایک اور پڑھ کر بیٹھے۔اگر رکوع میں امام کے ساتھ ملا ہے تو اسے رکعت شمار نہ کرے۔"

(فتاوی اہل حدیث ج1ص570،571،از عبد اللہ روپڑی  رحمۃ اللہ علیہ )

محدث روپڑی  رحمۃ اللہ علیہ  کی تحقیق سے معلوم ہوا کہ مسبوق امام کے ساتھ جو رکعت پائے گاوہ اس مسبوق کی پہلی رکعت ہے۔ وہ بعد میں باقی نماز پوری کرے گا۔ سلف صالحین میں سے یہی موقف امام سعید بن المسیب  رحمۃ اللہ علیہ  وغیرہ کا ہے۔دیکھئے السنن الکبری للبیہقی (ج2ص299)

ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ  نے صحیح سند کے ساتھ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے نقل کیا ہے کہ وہ امام کے ساتھ پائی جانے والی نماز کو اس کی آخری نماز قراردیتے تھے۔"

"يجعل ما أدرك مع الامام آخر صلاته"

 (ج2ص324ح7121)جب امام کی نماز اس(امام ) کی آخری نماز ہے تو معلوم ہوا کہ وہ اپنی نماز کو اپنی پہلی نماز ہی سمجھتے تھے۔(شہادت دسمبر 200ء)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد1۔كتاب الصلاة۔صفحہ293

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ