السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک سوال درپیش ہے کہ کیا عورت عورتوں کی امامت یا عورتوں مردوں کی اکٹھی امامت کرا سکتی ہے؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔(چوہدری محمد اکرم گجر ،جلال بلگن ضلع گوجرانوالہ)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس مسئلے میں علماء کرام کا اختلاف ہے کہ کیا عورت نماز میں عورتوں کی امام بن سکتی ہے یا نہیں؟ ایک گروہ اس کے جواز کا قائل ہے۔
ایک روایت میں آیا ہے۔
"وكان رسول اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَزُورُهَا في بَيْتِهَا وَجَعَلَ لها مُؤَذِّنًا يُؤَذِّنُ لها، وَأَمَرَهَا أَنْ تَؤُمَّ أَهْلَ دَارِهَا"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان(اُم ورقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ) کی ملاقات کے لیے ان کے گھر جاتے آپ نے ان کے لیے اذان دینے کے لیے ایک مؤذن مقرر کیا تھا اور آپ نے انہیں(اُم ورقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو) حکم دیا تھا کہ انہیں (اپنے قبیلے یا محلے والیوں کو)نماز پڑھائیں ۔(سنن ابی داؤد ،کتاب الصلوٰۃ باب امامۃ النساء ح 593 وعنہ البیہقی فی الخلافات قلمی 4ب)
یہ سند حسن ہے اسے ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ (1676)اور ابن الجارود رحمۃ اللہ علیہ (المثقی: 333)نے صحیح قراردیا ہے۔
اس حدیث کے بنیادی راوی ولید بن عبد اللہ بن جمیع صدوق ،حسن الحدیث تھے۔(دیکھئے تحریر قریب التہذیب :7432)
یہ صحیح مسلم وغیرہ کے راوی اور جمہور محدثین کے نزیدک ثقہ و صدوق تھے لہٰذا اس پر جرح مردود ہے۔
ولید کے استاد عبد الرحمٰن بن خلاد ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ ، ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ اور ابن الجارود رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ثقہ و صحیح الحدیث تھے لہٰذا ان پر "حالہ مجہول "والی جرح مردود ہے۔
لیلیٰ بنت مالک (ولید بن جمیع کی والدہ ) کی توثیق ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ اور ابن الجارود رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی حدیث کی تصحیح کر کے کر دی ہے لہٰذا ان کی حدیث بھی حسن کے درجہ سے نہیں گرتی۔
اس حدیث کا مفہوم کیا ہے؟ اس کے لیے دواہم باتیں مد نظر رکھیں ۔
اول:حدیث حدیث کی شرح وتفسیر بیان کرتی ہے اس کے لیے حدیث کی تمام سندوں اورمتون کو جمع کر کے مفہوم سمجھا جاتا ہے۔
دوم:سلف صالحین(محدثین کرام راویان حدیث)نے حدیث کی جو تفسیر اور مفہوم بیان کیا ہوتا ہے اسے ہمیشہ مد نظر رکھا جاتا ہے۔بشرطیکہ سلف کے مابین اس مفہوم پر اختلاف نہ ہو ۔اُم ورقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا والی حدیث پر امام ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 311ھ)نے درج ذیل باب باندھا ہے۔
"باب إمامة المرأة النساء في الفريضة"
فرض نماز میں عورت کا عورتوں کی امامت کرنے کاباب"
(صحیح ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ 3/89ح1676)امام ابو بکر بن المنذر النیسابوری رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 318ح ) فرماتے ہیں:
"امامة المرأة للنساء فقط " تؤم المرأة النساء فى "الصلاة" المكتوبة"
"فرض نمازوں میں عورت کا عورتوں کی امامت کرنے کا ذکر"(الاوسط فی السنن والا جماع والا ختلاف ج4ص226)
ان دونوں محدثین کرام کی تبویب سے معلوم ہوا کہ اس حدیث میں"أَهْلَ دَارِهَا" سے مراد عورتیں ہیں مرد نہیں ہیں محدثین کرام میں اس تبویب پر کوئی اختلاف نہیں ہے۔امام ابو الحسن الدارقطنی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 385ھ) فرماتے ہیں:
"حدثنا احمد بن العباس البغوي:حدثنا عمر بن شبه(حدثنا) ابو روى الدارقطني عن الوليد بن جميع عن أمه عن أم ورقة: «أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أذِن لها أن يؤذن لها ويقام وتؤم نساءها"
"بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُم ورقہ( رضی اللہ تعالیٰ عنہا )کو اس کی اجازت دی تھی کی ان کے لیے اذان اور اقامت کہی جائے اور وہ اپنی (گھر محلے کی)عورتوں کی(نماز میں)امامت کریں۔
(سنن دارقطنی ج1ص279ح1071وسندہ حسن وعنہ ابن الجوزی فی التحقیق مع التنقیح 1/253ح 424وضعفہ دوسرا 313ح387323)
اس روایت کی سند حسن ہے اور اس پر علامہ ابن الجوزی کی جرح غلط ہے۔
ابو احمدمحمد بن عبد اللہ بن الزبیر الزبیری کتب ستہ کے راوی اور جمہور کے نزدیک ثقہ تھےلہٰذا وہ صحیح الحدیث ہیں۔
امام یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ نے کہا:ثقہ ابو زرعہ رحمۃ اللہ علیہ نے کہا: صدوق ابو حاتم رازی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا:
"حافظ للحديث عابد مجتهد له اوهام"
حدیث کے حافظ محنتی عبادت گزار،آپ کو اوہام ہوئے۔(الجرح والتعدیل 7/297)
عمر بن شبہ:صدوق لہ تصانیف (تقریب التہذیب :4918)بلکہ ثقہ ہیں۔(تحریر تقریب التہذیب 3/79) حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا:ثقہ (لکاشف2/272)
احمد بن العباس البغوی:ثقہ تھے۔(تاریخ بغداد 4/329ت2144)
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ یہ سند حسن لذاتہ ہے۔ اس صحیح روایت نے اس بات کا قطعی فیصلہ کر دیا کہ:
"أَهْلَ دَارِهَا"سے مراد اُم ورقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر،محلے اور قبیلے کی عورتیں ہیں۔ مرد مراد نہیں ہیں۔
(تنبیہ:اس ے معلوم ہوا کہ اُ م ورقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پیچھے ان کا مؤذن نماز نہیں پڑھتا تھا)
یہاں یہ بات حیرت انگیز ہے کہ کوئی پرو فیسر خورشید عالم نای(؟) لکھتے ہیں۔
"یہ دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ کے اپنے الفاظ ہیں حدیث کے الفاظ نہیں۔ یہ ان کی اپنی رائے ہے۔سنن دارقطنی کے علاوہ حدیث کی کسی کتاب میں یہ اضافہ نہیں ،اس اضافے کو بطور دلیل پیش نہیں کیا جا سکتا" (اشراق17/5مئی 2005ءص3839)
حالانکہ آپ نے ابھی پڑھ لیا ہے کہ حدیث کے الفاظ ہیں دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ کے اپنے الفاظ نہیں ہیں بلکہ راویوں کی بیان کردہ روایت کے الفاظ ہیں۔ انہیں امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ کی "اپنی رائے " کہنا غلط ہے۔ جن لوگوں کو روایت اور رائے میں فرق معلوم نہیں ہے وہ کیوں مضامین لکھ کر اُمت مسلمہ میں اختلاف وانتشار پھیلانا چاہتے ہیں؟
رہا یہ مسئلہ کہ یہ الفاظ سنن دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ حدیث کی کسی کتاب میں نہیں ہیں تو عرض ہے کہ امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ ثقہ و قابل اعتماد امام تھے۔
شیخ الاسلام ابو الطیب طاہر بن عبد اللہ الطبری (متوفی 450ھ) نے کہا:
"كان الدارقطني أمير المؤمنين في الحديث "
حدیث میں دارقطنی اہل ایمان کے امیرتھے ۔(تاریخ بغداد 12/36ھ6404)
خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 363ھ)نے کہا:
"قال عنه الخَطيب البغداديّ: "كان فريد عصره، وقريع دهره، ونسيجٌ وحده، وإمام وقته، انتهى إليه علم الأثر والمعرفة بعلل الحديث، وأسماء الرِّجال، وأحوال الرُّواة، مع الصِّدق والأمانة، والفقه والعدالة، وقبول الشّهادة، وصحّة الاعتقاد، وسلامة المذهب، والاضطلاع بعلوم سوى علم الحديث".
وہ یکتا ئے روزگار اپنے زمانے کے سردار علم و ہنر میں یگانہ اور اپنے زمانے کے امام تھے۔علیم حدیث عمل کی معرفت ، اسماء رجال اور راویوں کے حالات معلوم کرنا ان پر ختم تھا وہ سچائی امانت ، فقہ عدالت(اور ثقاہت)قبول شہادت ،صحت اعتقاد اور سلامت مذہب کے ساتھ موصوف تھے۔ (تاریخ بغداد 123ت6404)
حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
"الدارقطني الإمام الحافظ المجود شيخ الإسلام علم الجهابذة" (سیراعلام النبلاء16/449)
اس جلیل القدر امام پر متاخر حنفی فقیہ محمد بن احمد العینی (متوفی 855ح) کی جرح مردود ہے۔عبد الحئ لکھنوی نے اس عینی کے بارے میں لکھا:"
"ولولم يكن فيه رائحة التعصب المذهبي لكان أجود وأجود"
اگر اس(عینی)میں مذہبی (یعنی حنفی) تعصب کی بدبونہ ہوتی تو بہت ہی اچھا ہوتا (الفوائدالبہیہ ص208)
تنبیہ:امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ تدلیس کے الزام سے بری ہیں۔
دیکھئے میری کتاب الفتح المبین فی تحقیق طبقات المدلسین (19/1)
حب حدیث نے بذات خود حدیث کا مفہوم متعین کر دیا ہے اور محدثین کرام بھی اس حدیث سے عورت کا عورتوں کی امامت کرانا ہی سمجھ رہے ہیں تو پھر لغت کی مدد اور الفاظ کے ہیر پھیر سے عورتوں کو مردوں کا امام بنا دینا کس عدالت کا انصاف ہے؟
ابن قدامہ لکھتے ہیں۔
"وهذه زيادة يجب قبولها"
اور اس زیادت (نساءھا )کا قبول کرنا واجب ہے(المغنی 2/16م1140)
یہاں یہ بھی یاد رہے کہ آثار سلف صالحین سے صرف عورت کا عورتوں کی امامت کرانا ہی ثابت ہوتا ہے۔ عورت کا مردوں کی امامت کرانا کسی اثر سے ثابت نہیں ہے۔
ریطہ الحنفیہ (قال العجلی : کو فیۃ تابعیۃ ثقہ) سے روایت ہے۔
"أَمَّتْنَا عَائِشَةُ فَقَامَتْ بَيْنَهُنَّ فِي الصَّلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ"
ہمیں عائشہ( رضی اللہ تعالیٰ عنہا ) نے فرض نماز پڑھائی تو آپ عورتوں کے درمیان کھڑی ہو ئی تھیں۔
(سنن دارقطنی 1/404ح1429وسندہ حسن وقال النیموی فی آثار السنن 514"واسنادہ صحیح"وانظرکتابی انوارالسنن فی تحقیق آثار السنن ق103)
امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ (مشہور تابعی )نے فرمایا:"
"تَؤُمُّ النِّسَاءَ ، تَقُومُ مَعَهُنَّ فِي صَفِّهِنَّ"
"عورت عورتوں کو رمضان کی نماز پڑھائے (تو ) وہ ان کے ساتھ صف میں کھڑی ہو جائے ۔(مصنف ابن ابی شیبہ 2/89ح4955وسندہ صحیح عنعنۃہشیم عن حصین محمولۃ علی السماع انظرشرح علل الترمذی لا بن رجب2/562والفتح المبین فی تحقیق طبقات المدلسین لراقم الحروف 111/3)
ابن جریج نے کہا:""عورت جب عورتوں کی امامت کرائے گی تو وہ آگے کھڑی نہیں ہوگی بلکہ ان کے برابر (صف میں ہی)کھڑی ہو کر فرض و نفل پڑھائے گی"
مصنف عبدالرزاق 3/140ح 5080اس روایت کی سند عبد الرزا ق کی تدلیس (عن) کی وجہ سے ضعیف ہے)
معمر بن راشد نے کہا:
"تؤمهن في رمضان، وتقوم معهن في الصف"
اس پر سلف صالحین کا اجماع ہے کہ عورت جب عورتوں کو نماز پڑھائے گی تو صف سے آگے نہیں بلکہ صف میں ہی ان کے ساتھ برابر کھڑی ہو کر نماز پڑھائے گی۔
مجھے ایسا ایک حوالہ بھی باسند نہیں ملا جس سے یہ ثابت ہو کہ سلف صالحین کے سنہری دور میں کسی عورت نے مردوں کو نماز پڑھائی ہو یا کوئی مستند عالم اس کے جواز کا قائل ہو۔
(اسی طرح کسی روایت میں اُم ورقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مؤذن کا ان کے پیچھے نماز پڑھنا بھی قطعاً ثابت نہیں)
ابن رشد(متوفی 515ھ)وغیرہ بعض متاخرین نے بغیر کسی سندوثبوت کے یہ لکھا ہے۔کہ ابو ثور(ابراہیم بن خالد متوفی 240ھ)اور محمد بن جریر )الطبری (متوفی 310 ھ)اس بات کے قائل ہیں کہ عورت مردوں کو نماز پڑھا سکتی ہے۔(دیکھئے بدایۃ المجتہد ج1ص145،المغنی فی فقہ الامام احمد 2/15مسئلہ : 1140)
چونکہ یہ حوالے بے سند ہیں لہٰذا مردود ہیں۔
عورت کا نماز میں عورتوں کی امامت کرانا جائز ہے مگر وہ مردوں کی امام نہیں بن سکتی۔وما علینا الا البلاغ (3ربیع الاول 1426ھ) (الحدیث :15)
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب