السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
دوسری روایت بھی سیوطی صاحب کی کتاب سے منقول ہے کہ ہر نبی نے اپنے امتی کے پیچھے نماز پڑھی اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت آدم علیہ السلام نے کس کے پیچھے نماز پڑھی۔(عابد حسین شاہ ولد ظہور شاہ)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حافظ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
"ما قبض نبي قط حتى يصلي خلف رجل صالح من أمته "
"مفہوم : حدیث میں آیا ہے کہ ایسا کوئی نبی بھی فوت نہیں ہوا جس نے اپنی وفات سے پہلے اپنے کسی امتی کے پیچھے نماز نہیں پڑھی۔(تاریخ الخلفاءص88)
یہ روایت بزار (البحرالزخار1/55ح 3کشف الستار 3/211ح 2591) اور احمد بن حنبل (المسند 1/13ح78) نے:
"عن عاصم بن كليب، قال : حدثني شيخ من قريش من بني تيم عن عبدالله بن الزبير عن عمر بن الخطاب عن ابي بكر الصديق رضي الله عنهم" الخ کی سند سے بیان کی ہے۔
یہ ضعیف ہے۔(تحقیق احمد شاکر 1/79نیز دیکھئے الموسوعہ الحدیثیۃ ۔تحقیق مسند الامام احمد1/240)
اس کا راوی شیخ مجہول ہے۔ مجہول راوی کی بیان کردہ حدیث ضعیف ہوتی ہے الایہ کہ اس کی تائید و متابعت کسی دوسری صحیح یا حسن روایت سے ہو جائے۔
ابو نعیم الاصبہانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
"حدثنا ابو محمد بن حيان حدثنا ابو صالح عبدالرحمان بن احمد الزهري الاعرج حدثنا ابراهيم بن احمد النابتي حدثنا علي بن الحسن بن شفيق حدثنا ابو حمزة السكري عن عاصم بن كليب عن عبدالله بن الزبير حدثنا عمر بن الخطاب عن ابي بكر الصديق رضي الله عنهم قال:سمعت النبي صلي الله عليه وسلم يقول :مابعث الله نبيا الا وقد امه بعض امته"(اخبار اصبہان 2/114)
یہ روایت تین وجہ سے ضعیف ہے۔
اول:عاصم بن کلیب اور عبد اللہ بن الزبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے درمیان مجہول شیخ کا واسطہ گر گیا ہے۔مجہول شیخ کے واسطے والی روایت "المزید فی متصل الاسانید "کے باب سے ہے۔
دوم:عبد الرحمٰن بن احمدالاعرج مجہول الحال ہے۔
سوم:ابراہیم بن احمد النابتی کی تو ثیق نامعلوم ہے۔
دیکھئے الضعیفۃ للشیخ الالبانی رحمۃ اللہ علیہ (13/533ح6246)
خلاصہ یہ ہے کہ یہ روایت اپنی دونوںسندوں کے ساتھ ضعیف ہے لہٰذا یہ سوال کہ "آدم علیہ السلام نے کس کے پیچھے (نماز)پڑھی؟"کسی جواب کا محتاج نہیں ہے۔
تنبیہ :نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن (کسی شرعی عذر کی وجہ سے)نماز پڑھنے والی جگہ دیر سے آئے تو عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز پڑھا رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد الرحمٰن کے پیچھے نماز پڑھی اور اپنی فوت شدہ رکعت کو بعد میں دہرالیا۔
دیکھئے صحیح مسلم( کتاب الطہارہ باب المسح علی الناصیہ والعمامہ 8/274)اور سنن ابن ماجہ (کتاب اقامہ الصلوٰۃ باب ماجاء فی صلوٰۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خلف رجل من امتہ ح1236)
یاد رہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجود گی میں دوسرا شخص امام نہیں ہو سکتا ،جو شخص آپ کی غیر حاضری میں نماز پڑھا رہا تھا وہ اس حکم سے مستثنیٰ ہے(الحدیث:10)
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب