سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(108) امام کا اونچی آواز سے تکبیریں کہنا

  • 21001
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 2806

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک تبلیغی دیوبندی(علی آفاق)نے مجھے لکھ کر دیا ہے۔"اگر جناب عمران صاحب نماز شروع کرنے کی تکبیر یعنی تکبیر تحریمہ ادا کرنے کا طریقہ حدیث سے بیان کردیں  کہ امام صاحب کس طرح ادا کریں اونچی یا آہستہ اور مقتدی کس طرح ادا کرے اونچی یا آہستہ ،بہر صورت حدیث بیان کریں میں اسی وقت بھائی کا مسلک قرآن وحدیث اختیار کر لوں گا۔اور اگر ایسا نہ ہو سکا تو بھائی عمران صاحب حنفیت اختیار کریں گے دستخط علی آفاق (مولانا 2004ء)انتھی کلامہ۔

کیا اس بات کا ثبوت ہے کہ امام نماز میں اونچی تکبیریں کہے اورمقتدی دل میں یعنی سراً تکبیریں کہں دلیل سے جواب دیں جزاکم اللہ خیراً(عمران بن تسلم خان حضرو ضلع اٹک)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

امام بیہقی  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:

"اخبرنا ابو القاسم طلحة بن علي ابن الصقر وابوعبدالله محمد بن احمد بن ابي طاهر الدقاق ببغداد قالا:انبااحمد بن عثمان بن يحيٰ الادمي:حدثنا عباس بن محمد بن حاتم الدوري:حدثنا يونس بن محمد:حدثنا فليح وعن سعيد بن الحارث قال‏:‏ اشتكى أبو هريرة - أو غاب - فصلى لنا أبو سعيد الخدري فجهر بالتكبير حين افتتح الصلاة وحين ركع وحين قال‏:‏ سمع الله لمن حمده، وحين رفع رأسه من السجود، وحين سجد، وحين قام من الركعتين، حتى قضى صلاته على ذلك، فلما صلى قيل له‏:‏ اختلف الناس على صلاتك‏.‏ فخرج فقام على المنبر فقال‏:‏ يا أيها الناس والله ما أبالي اختلفت صلاتكم أو لم تختلف‏.‏ هكذا رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي‏.‏رواه البخاري في الصحيح عن يحيٰ بن صالح عن فليح بن سليمان"

 (ترجمہ)سعید بن الحارث (تابعی)بیان کرتے ہیں ابو ہریرہ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ )جو کہ امام تھےایک (دفعہ)بیمار ہوئے یا (کسی وجہ سے مسجد سے)غائب تھے تو ابو سعید الخدری( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) نے(ہمیں) نماز پڑھائی پس انھوں نے تکبیر افتتاح رکوع والی تکبیر ،سمع لمن حمدہ کےبعد (سجدے کے لیے جانے)والی تکبیر ،سجدے سے اٹھنے والی تکبیر (دوبارہ ) سجدہ کرنے والی تکبیر (سجدے سے)اٹھنے والی تکبیر اور دورکعتیں پڑھ کر اٹھنے والی تکبیر (یہ سب تکبیریں)جہراً(اونچی آواز سے)کہیں حتی کہ انھوں نے اسی (طریقے)پر نماز پوری کی۔ پھر جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو کہا گیا: لوگوں کا آپ کی نماز پر اختلاف ہو گیا ہے۔تو آپ(وہاں سے)نکل کر منبر پر کھڑے ہوگئے پھر فرمایا :اے لوگو!اللہ کی قسم مجھے اس کی کوئی پروا نہیں کہ تمھاری نمازوں میں اختلاف ہوا ہے یا نہیں بیشک میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو اسی طرح نماز پڑھتے (پڑھاتے )دیکھا ہے۔

اسے(امام) بخاری رحمۃ اللہ علیہ  نے صحیح(بخاری)میں یحییٰ بن صالح عن فلیح بن سلیمان کی سند سےروایت کیا ہے۔(السنن الکبری للبیہقی ج2ص18باب جہرالامام بالتکبیر)

سند کی تحقیق

اس حدیث کی سند کے روایوں کا مختصر تعارف درج ذیل ہے۔

(١)۔ "ابوالقاسم طلحة بن علي بن الصقر:كان ثقة"(تاريخ بغداد 9ص 353)

(2)۔"ابوعبدالله محمد بن احمد بن ابي طاهر الدقاق:كان ثقة"(تاریخ بغداد 1/353،354ت 281)

(3)۔"احمد بن عثمان بن يحييٰ الآدمي :وكان ثقة حسن الحديث"(تاریخ بغداد 4/299)

(4)۔"عباس بن محمد بن حاتم الدوري:ثقة حافظ"(تقریب التہذیب:3189)

(5)۔ "يونس بن محمد(المؤدب) :ثقة ثبت"(تقریب التہذیب:3189)

(6)۔ "فليح بن سليمان": صحیح بخاری رحمۃ اللہ علیہ  وصحیح مسلم کے راوی ہیں جمہور نے ان کی توثیق کی ہے۔ جس کی جمہور محدثین توثیق کریں وہ راوی(کم ازکم)حسن الحدیث ہوتا ہے۔ حافظ ذہبی  رحمۃ اللہ علیہ  اس کی بیان کردہ حدیثوں کو صحیح کہتے ہیں۔

 مثلاً:دیکھئے المستدرک للحاکم (4407ح8244)امام بخاری ومسلم کے علاوہ درج ذیل محدثین نے بھی ان کی حدیثوں کو صحیح قراردیا ہے۔

(1)ترمذی:260۔

(2)حاکم۔

(3) ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ :5894۔ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ ۔589۔

(4)ابن حبان،29ح2302،دوسرا نسخہ 6/79،80،ح 2305)

خلاصہ یہ کہ فلیح بن سلیمان حسن الحدیث راوی ہیں۔ والحمد للہ۔

حافظ ذہبی  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں ۔"وحدیثہ فی رتبۃ الحسن"اور ان کی حدیث حسن درجے کی ہوتی ہے۔(تذکرہ الحفاظ 1/224ت 209)

محمد بن علی النیموی نے فلیح مذکور کی حدیث کو"اسنادہ حسن"قراردے کر حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ  کا قول نقل کیا ہے۔(آثار السنن ح604مع التعلیق )

(7)سعید بن الحارث : ثقہ ہیں۔(التقریب :2280)

خلاصہ : یہ سند حسن لذاتہ ہے۔

تنبیہ: یہی روایت حافظ ہیثمی نے بحوالہ مسند احمد نقل کی ہے۔ مجمع الزوائد 2/103،104)اور حافظ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ  سے ظفر احمد تھانوی دیوبندی نے نقل کر کے اس سے استدلال کیا ہے۔(اعلاء السنن 2/185ح 662)واحیا ء السنن 1/372)

فائدہ:بیہقی والی یہ حدیث صحیح بخاری (ح825)میں مختصراً موجود ہے۔

اس حدیث سے صاف معلوم ہوا کہ جماعت میں امام کو بلند آواز سے تکبیریں کہنی چاہئیں ۔

مقتدیوں کا دل میں (خفیہ) تکبیریں کہنا  

مقتدیوں کا دل میں آہستہ آواز سے خفیہ تکبیریں کہنا کئی دلائل سے ثابت ہے۔

1۔اس پراجماع ہے کہ مکبرکے علاوہ تمام مقتدیوں کو، امام کے پیچھے دل میں سراً آہستہ آواز سے اور خفیہ تکبیریں کہنی چاہئیں۔ اس اجماع کا نظارہ دنیا کی کسی بھی مسجد میں جا کر کیا جا سکتا ہے،والحمد للہ۔

مولانا نذیر احمد رحمانی  رحمۃ اللہ علیہ  (متوفی 1065ء)فرماتے ہیں۔

"اس کا کوئی بھی قائل نہیں ہے کہ تکبیرات انتقال امام زور سے کہتا ہے تو مقتدی بھی اس کی اتباع میں زور سے کہیں۔"(نوافل کی جماعت کے ساتھ فرض نماز کا حکم ص84مطبوعہ ادارۃ العلوم الاثریہ فیصل آباد)

ماہنامہ الحدیث حضرو میں بار بار یہ ثابت کر دیا گیا ہے کہ اجماع شرعی حجت ہے مثلاً دیکھئے الحدیث:1ص4،والحمد للہ۔

2۔زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے۔

"عَنْ زَيد بْنِ أرقَمَ رَضيَ الله عَنْهُ قال: "كُنَا نَتَكَلَّمُ في الصَّلاةِ يُكَلِّم الرَّجُلُ مِنَّا صَاحبَهُ وهُوَ إِلى جَنْبِهِ في الصلاةِ حَتى نَزَلَتْ ﴿وقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ ﴾ فأُمِرْنَا بالسُّكوتِ ونُهيِنَا عَنِ الْكَلام"

ہم نماز میں باتیں کرتے تھے۔ ہر آدمی اپنے (ساتھ والے بھائی سے ضروری بات کر لیتا تھا۔ پھر یہ آیت نازل ہوئی ۔نمازوں کی حفاظت کرو اور درمیانی نماز (عصر )کی حفاظت کرو۔ اور اللہ کے سامنے عاجزی سے کھڑے ہو جاؤ۔(البقرۃ :238)پھر ہمیں سکوت (خاموشی )کا حکم دے دیا گیا۔(صحیح بخاری:4534وصحیح مسلم :539)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مقتدی خاموشی سے نماز پڑھے گا۔ اس حکم سے تین حالتیں مستثنیٰ ہیں۔

اول:مقتدی اگر مکبرہو تو دوسرے مقتدیوں کو سنانے کے لیے بلند آواز سے تکبیریں کہے گا۔اس کی دلیل آگے آرہی ہے۔

دوم:امام اگر بھول جائے تو مقتدی مرد سبحان اللہ کہے گا۔

دلیل کے لیے دیکھئے صحیح بخاری (1234) وصحیح مسلم (421)

سوم:اگر امام قرآءت میں بھول جائے تو مقتدی اسے بلند آواز میں لقمہ دے سکتا ہے دیکھئے سنن ابی داؤد(907)وجزءالقراء للبخاری بتحقیقی (194)وسندہ حسن ۔

3۔سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   فرماتی ہیں۔

"وقعد النبي - صلى الله عليه وسلم إلى جنبه وأبو بكر يسمع الناس التكبير"

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان(ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) لوگوں کو تکبیر سناتے تھے۔(صحیح البخاری:712وصحیح مسلم:96/418)

اس حدیث سے دو مسئلے معلوم ہوئے۔

اول:حالت ضرورت اور اضطرار میں مکبر بننا اور بنانا جائز ہے۔

دوم:سارے مقتدی بغیر جہر کے خفیہ آواز سے دل میں تکبیریں کہیں گے۔ ورنہ پھر مکبر بنانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟

4۔عکرمہ سے روایت ہے۔"میں نے مکہ میں ایک شیخ کے پیچھے نماز پڑھی ۔ انھوں نے بائیس (22)تکبیریں کہیں ، میں نے ابن عباس( رضی اللہ تعالیٰ عنہ )سے ذکر کیا تو انھوں نے فرمایا: "سنة ابي الاقاسم صلي الله عليه وسلم"

" یہ القاسم (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کی سنت ہے(صحیح البخاری:788)

چار رکعتوں میں تکبیر تحریمہ ،رکوع اور سجدوں والی تکبیریں اور دو رکعتیں پڑھ کر اٹھنے والی تکبیریں یہ کل تکبیریں بائیس(22)ہوتی ہیں۔

اس حدیث سے امام جہراً تکبیریں کہنا بطور نص (دلیل )اور مقتدیوں کا دل میں تکبیریں کہنا بطور اشارہ ثابت ہوتا ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ احادیث صحیحہ اور اجماع سے ثابت ہے کہ مقتدی حضرات دل میں سراً تکبیریں کہیں گے۔(الحدیث:6)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد1۔كتاب الصلاة۔صفحہ281

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ