سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

والدین کی اجازت کے بغیر جہاد پر جانا

  • 210
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 3160

سوال

والدین کی اجازت کے بغیر جہاد پر جانا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا والدین کی اجازت لئے بغیر جہاد کی ٹریننگ کے لئے جا سکتے ہیں۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اصول یہ ہے کہ شرک وبدعت، حرام کے ارتکاب اور گناہ کے کاموں میں والدین کی اطاعت نہیں ہے۔ اسی طرح اگر والدین کسی فرض یا واجب کی ادائيگی سے روکیں تو بھی ان کی اطاعت نہیں ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے۔

﴿وَإِن جَاهَدَاكَ عَلَىٰ أَن تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۖ وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا ۖ وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ ۚ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ١٥﴾

اور اگر وه دونوں تجھ پر اس بات کا دباؤ ڈالیں کہ تو میرے ساتھ شریک کرے جس کا تجھے علم نہ ہو تو تو ان کا کہنا نہ ماننا، ہاں دنیا میں ان کے ساتھ اچھی طرح بسر کرنا اور اس کی راه چلنا جو میری طرف جھکا ہوا ہو تمہارا سب کا لوٹنا میری ہی طرف ہے تم جو کچھ کرتے ہو اس سے پھر میں تمہیں خبردار کروں گا۔

آپ کا ارشاد ہے:

لا طاعة لمخلوق فی معصیة الخالق۔(مسند احمد)

خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی کسی قسم کی بھی اطاعت جائز نہیں ہے۔

لیکن یہاں اصل سوال یہ ہے کہ ایک مسلمان کے لیے جہاد بمعنی قتال کی ٹریننگ فرض عین ہے یا نہیں۔؟ اگر فرض عین ہے تو والدین کی اطاعت نہیں ہے اور اگر فرض عین نہیں ہے تو والدین کی اطاعت  ضروری ہے۔جہاد بمعنی قتال عام حالات میں اہل علم کی نظر میں فرض کفایہ ہے اور ایک جماعت کی ادائیگی سے سب کی طرف سے ادا ہو جاتا ہے لہذا اس کی ٹریننگ بھی فرض کفایہ ہو گی۔ پس آپ جہادی ٹریننگ کے لیے اپنی والدہ کو راضی کریں اور ان کی اجازت کے بغیر جانا درست نہیں ہے۔جہاں تک گن وغیرہ چلانے کا تعلق ہے تو اس کے سیکھنے کے لیے معسکرات کی ٹریننگ کے علاوہ بھی بہت سی آپشنز ہوتی ہیں۔

شیخ صالح المنجد اس بارے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں؛

سوال؛ اس وقت اور دور ميں كيا ہر استطاعت ركھنے والے شخص پر جہاد فرض ہے ؟

الحمد للہ:

اول:

جہاد كے كئى ايك مراتب اور درجات ہيں، ان ميں كچھ تو ہر مكلف پر فرض عين ہے، اور كچھ فرض كفايہ يعنى جب بعض مكلفين جہاد كر رہے ہوں تو باقى سے ساقط ہو جاتا ہے، اور كچھ مستحب ہے.

جہاد نفسى اور شيطان كے خلاف جہاد تو ہر مكلف پر فرض ہے، اور منافقين اور كفار اور ظلم و ستم كرنے والوں اور برائى اور بدعات پھيلانے والوں كے خلاف جہاد فرض كفايہ ہے، اور بعض اوقات كفار كے خلاف جہاد معين حالات ميں فرض عين ہو جاتا ہے جس كا بيان آگے آ رہا ہے.

ابن قيم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

جب يہ معلوم ہو گيا تو پھر جہاد كى چار اقسام اور مراتب و درجات ہيں: جہاد بالنفس، شيطان كے خلاف جہاد، كفار كے خلاف جہاد، اور منافقين كے خلاف جہاد.

جہاد بالنفس كے بھى چار درجات اور مراتب ہيں:

پہلا مرتبہ:

ہدايت و راہنمائى كى تعليم اور دين حق كے حصول كے ليے نفس كے خلاف جہاد كيا جائے، كيونكہ اس كے بغير نہ تو دنيا ميں سعادت حاصل ہوتى ہے اور نہ ہى آخرت ميں كاميابى فلاح سے ہمكنار ہوا جا سكتا ہے، جب اس پر عمل نہ كيا جائے تو دونوں جہانوں ميں شقاوت و بدبختى حاصل ہوتى ہے.

دوسرا مرتبہ:

علم كے حصول كے بعد وہ اس پر عمل كرنے كے ليے جہاد اور كوشش كرے، كيونكہ عمل كے بغير صرف علم اگر اسے نقصان نہ دے تو اسے كوئى فائدہ بھى نہيں دے سكتا.

تيسرا مرتبہ:

وہ اس علم كو آگے پھيلانے اور جنہيں اس كا علم نہيں انہيں تعليم دينے ميں جہاد اور كوشش كرے، اگر ايسا نہيں كرتا تو وہ ان لوگوں ميں شامل ہوگا جو اللہ تعالى كى نازل كردہ ہدايت و راہنمائى اور واضح دلائل كو چھپاتے ہيں، اور اس كا يہ علم اسے نہ تو اللہ كے عذاب سے نجات دےگا اور نہ ہى اسے كوئى نفع دے سكتا ہے.

چوتھا مرتبہ:

اللہ تعالى كے دين كى دعوت دينے ميں جو تكاليف اور مشكلات پيش آئيں، اور لوگوں كى جانب سے حاصل ہونے والى اذيت پر صبر كرنے كا جہاد، اور ان سب كو وہ اللہ كے ليے برداشت كرے.

تو جب يہ چار مرتبے مكمل كر لےگا تو وہ ربانيين ميں شامل ہو جائيگا، سلف رحمہ اللہ كا اس پر اتفاق ہے كہ عالم اس وقت تك ربانى كے نام سے موسوم ہونے كا مستحق نہيں جب تك وہ حق كى پہچان كر كے اس پر عمل كرنے كے بعد اس كى لوگوں كو تعليم نہ دے، تو جو شخص علم حاصل كرے اور اس پر عمل كر كے لوگوں كو اس كى تعليم بھى دے تو يہى شخص ہے جو آسمان ميں عظيم شان ركھتا ہے.

شيطان كے خلاف جہاد كے دو مرتبے ہيں:

پہلا مرتبہ:

شيطان كى جانب سے بندے كو ايمان ميں پيدا ہونے والے شكوك و شبہات دور كرنے كے ليے جہاد كرنا.

دوسرا مرتبہ:

شيطان كى جانب سے فاسد قسم كے ارادے اور شہوات دور كرنے كى كوشش اور جہاد كرنا.

تو پہلے جہاد كے بعد يقين اور دوسرے كے بعد صبر حاصل ہوگا اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

﴿ اور جب ان لوگوں نے صبر كيا تو ہم نے ان ميں سے ايسے پيشوا اور امام بنا ديے جو ہمارے حكم سے لوگوں كو ہدايت كرتے تھے، اور وہ ہمارى آيتوں پر يقين ركھتے تھے ﴾السجدۃ ( 24 ).

تو اللہ سبحانہ وتعالى نے خبر دى ہے كہ امامت دين صبر اور يقين كے ساتھ حاصل ہوتى ہے، چنانچہ صبر شہوات اور فاسد قسم كے ارادوں كو دور اور ختم كرتا ہے، اور يقين شكوك و شبہات كو ختم كرتا ہے.

اور كفار اور منافقين كے خلاف جہاد كے چار مراتب ہيں:

دل اور زبان اور مال اور نفس كے ساتھ.

ہاتھ كے ساتھ جہاد كرنا كفار كے خلاف خاص ہے.

اور منافقين كے خلاف زبان كے ساتھ جہاد كرنا خاص ہے.

اور ظلم و ستم اور بدعات و منكرات كے خلاف جہاد كے تين مراتب ہيں:

پہلا:

اگر قدرت و استطاعت ہو تو ہاتھ كے ساتھ، اور اگر استطاعت نہ ہو تو يہ منتقل ہو كر زبان كے ساتھ، اور اگر اس كى بھى استطاعت اور قدرت نہ ہو تو پھر دل كے ساتھ جہاد كرنے ميں منتقل ہو جاتا ہے.

تو جہاد كے يہ تيرہ ( 13 ) مراتب ہيں، اور حديث :

" جو شخص بغير جہاد كيے مر گيا اور نہ ہى اس كے نفس ميں جہاد كرنے كى خواہش پيدا ہوئى تو وہ نفاق كى ايك علامت پر مرا "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1910 ).

ديكھيں: زاد المعاد ( 3 / 9 - 11 ).

اور شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:

جہاد كى كئى ايك اقسام ہيں:

نفس كے ساتھ، مال كے ساتھ، دعاء كے ساتھ، توجيہ و ارشاد اور راہنمائى كر كے، كسى بھى طرح خير وبھلائى پر معاونت كر كے جہاد كرنا.

ليكن ان سب ميں عظيم نفس كے ساتھ جہاد ہے، پھر مال كے ساتھ اور رائى اور راہنمائى كے ساتھ جہاد كرنا، اور اسى طرح دعوت و تبليغ بھى جہاد ہى ہے، تو نفس اور جان كے ساتھ جہاد سب سے اعلى درجہ ہے "

ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن باز ( 7 / 334 - 335 ).

دوم:

اور كفار كے خلاف ہاتھ سے جہاد ميں امت مسلمہ كے حسب حال كئى قسم كے مراحل گزرے ہيں:

ابن قيم رحمہ اللہ كا كہنا ہے:

اللہ سبحانہ وتعالى نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر جو پہلى وحى نازل فرمائى كہ وہ اس رب كے نام سے پڑھيں جس نے انہيں پيدا كيا ہے، اور يہ نبوت كى ابتدا تھى، تو اللہ سبحانہ وتعالى نے اپنے نبى كو حكم ديا كہ وہ اپنے دل ميں اسے پڑھيں اور اس وقت انہيں اس كى تبليغ كا حكم نہيں ديا پھر اللہ سبحانہ وتعالى نے سورۃ المدثر كى يہ آيت نازل فرمائى:

﴿ اے چادر اوڑھنے والے اٹھو اور ڈراؤ ﴾.

تو اللہ سبحانہ وتعالى نے آپ كو ﴿ اقراء ﴾كہہ كر نبى بنايا اور ﴿ يا ايھا المدثر ﴾ كہہ كر رسول بنايا.

پھر اللہ تعالى نے حكم ديا كہ اپنے كنبہ قبيلہ والوں اور قريبى رشتہ داروں كو تبليغ كرو، اور پھر اس كے بعد اپنى قوم كو، اور پھر اس كے بعد اپنے ارد گرد رہنے والے عرب كو، اور پھر دور رہنے والے عرب كو، اور پھر پورى دنيا ميں رہنے والوں كو.

تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نبى بننے كے بعد دس برس تك بغير كسى قتال اور لڑائى اور جہاد اور بغير جزيہ كے تبليغ كرتے رہے، اور آپ كو صبر و تحمل اور معاف و درگزر كرنے اور ہاتھ روك كر ركھنے كا حكم ديا گيا.

پھر آپ صلى اللہ عليہ وسلم كو ہجرت كى اجازت دى گئى اور اس كے بعد پھر لڑائى اور جہاد كرنے كى.

پھر آپ كو ان لوگوں سے لڑنے كا حكم ديا گيا جو آپ سے لڑائى كرتے تھے، اور جو آپ سے نہيں لڑے اور قتال نہيں كيا ان سے روك ديا گيا.

پھر مشركوں كے خلاف اس وقت تك لڑائى كا حكم ديا گيا جب تك كہ پورا دين اللہ كے ليے نہ ہو جائے.

پھر كفار كے خلاف جہاد كا حكم ملنے كے بعد كفار كى آپ كے ساتھ تين اقسام تھيں:

جن كے ساتھ صلح اور جنگ بندى تھى.

جن كے ساتھ لڑائى تھى يعنى اہل حرب.

اورذمى لوگ.

ديكھيں: زاد المعاد ( 3 / 159 ).

سوم:

كفار كے خلاف ہاتھ سے جہاد كرنا فرض كفايہ ہے:

ابن قدامہ رحمہ اللہ كا كہنا ہے:

قال:

( اور جہاد فرض كفايہ ہے، جب قوم كے كچھ افراد جہاد كر رہے ہوں تو باقى افراد سے ساقط ہو جاتا ہے ).

فرض كفايہ كا معنى يہ ہے كہ:

وہ فرض چيز اگر اتنے لوگ اس كى ادائيگى نہ كريں جو كافى ہوں تو سب لوگ گنہگار ہونگے، اور اگر اتنے لوگ ادا كر ليں جو كافى ہوں تو باقى سب لوگوں سے ساقط ہو جاتا ہے.

ابتدا ميں خطاب سب كو شامل ہے، مثلا فرض كفايہ، اور پھر اس ميں مختلف ہے كہ فرض كفايہ بعض كے ادا كرنے سے باقى افراد سے ساقط ہو جاتا ہے، اور فرض عين كسى دوسرے كے كرنے سے كسى سے بھى ساقط نہيں ہوتا، عام اہل علم كے قول كے مطابق جہاد فرض كفايہ ميں شامل ہوتا ہے .

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 9 / 163 ).

اور شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ كا كہنا ہے:

يہ پہلے بھى گزر چكا ہے كہ ہم پہلے كئى بار بيان كر چكے ہيں كہ جہاد فرض كفايہ ہے نہ كہ فرض عين، اور سب مسلمانوں پر ضرورى ہے كہ وہ اپنے بھائيوں كى اپنے نفس اور اپنے مال اور اسلحہ اور دعوت اور مشورہ كے ساتھ معاونت ضرور كريں، تو جب جہاد كے ليے اتنے لوگ نكل جائيں جو كافى ہوں باقى افراد گنہگار ہونے سے بچ جائينگے، اور جب سب لوگ ہى جہاد ترك كر ديں تو سب گنہگار ہونگے.تو مملكت سعودى عرب، اور افريقہ اور مغرب وغيرہ ميں بسنے والے مسلمانوں كو اپنى طاقت صرف كرنى چاہيے، اور زيادہ قريب والا شخص زيادہ حصہ ڈالے، تو جب ايك يا دو يا تين يا اس سے زيادہ ملكوں ميں سے افراد كافى ہو جائيں تو باقى مسلمانوں سے ساقط ہو جائيگا.اور وہ نصرت و مدد اور تائيد كے مستحق ہيں ان كى مدد كى جائے، ان كے دشمن كے خلاف ان مسلمانوں كى مدد كرنا فرض ہے؛ كيونكہ وہ مظلوم ہيں، اور اللہ سبحانہ وتعالى نے سب كو جہاد كا حكم ديا ہے، انہيں چاہيے كہ وہ اللہ كے دشمنوں كے خلاف جہاد كر كے اپنے بھائيوں كى مدد كريں، اور اگر وہ ايسا نہيں كرتے تو گنہگار ہونگے، اور جب اتنے افراد جہاد كرنے لگيں جو كافى ہوں تو باقى سے گناہ ساقط ہو جائيگا .

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن باز ( 7 / 335 ).

چہارم:

كفار كے خلاف جہاد چار حالتوں ميں فرض ہو جاتا ہے:

1 - جب مسلمان شخص جہاد ميں حاضر ہو جائے.

2 - جب دشمن آ جائے اور علاقے اور ملك كا محاصرہ كر لے.

3 - جب امام المسلمين اور حكمران رعايا كو جہاد كى طرف بلائے تو رعايا پر جہاد كے ليے نكلنا فرض ہو جاتا ہے.

4 - جب اس شخص كى ضرورت ہو اور اس كے بغير كوئى اور اس ضرورت كو پورا نہ كر سكتا ہو.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

جہاد واجب اور اس وقت فرض عين ہو جاتا ہے جب كوئى انسان قتال ميں حاضر ہو جائے، يہ فرض عين ہونے كى پہلى جگہ ہے جہاں جہاد فرض عين ہوتا ہے، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

﴿ اے ايمان والو جب تم كفار كے مد مقابل ہو جاؤ اور دو بدو ہو جاؤ تو ان سے پشت مت پھيرنا، اور جو شخص ان سے اس موقع پر اپنى پشت پھيرےگا مگر ہاں جو لڑائى كے ليے پينترا بدلتا ہو، يا جو ( اپنى ) جماعت كى طرف پناہ لينے آتا ہو وہ مستثنى ہے، باقى اور كوئى جو ايسا كريگا وہ اللہ كے غضب ميں آ جائيگا اور اس كا ٹھكانہ دوزخ ميں ہوگا، اور بہت ہى برى ہے وہ جگہ ﴾الانفال ( 15 - 16 ).

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بتايا ہے كہ لڑائى والے لڑائى ميں سے پيٹھ پھير كر بھاگنا سات تباہ كن اشياء ميں سے ايك ہے، فرمان نبوى ہے:

" سات تباہ كن اشياء سے بچ كر رہو: اور اس ميں لڑائى والے دين لڑائى سے پيٹھ پھير كر بھاگنا بھى ذكر كيا "

متفق عليہ.

ليكن اللہ سبحانہ وتعالى نے اسے دو حالتوں ميں استثنى كيا ہے:

پہلى حالت:

وہ شخص لڑائى كا پينترا بدلنے كے ليے وہاں سے بھاگے، يعنى دوسرے معنوں ميں اس طرح كہ وہ اس سے بھى زيادہ قوت و طاقت كے ساتھ آنا چاہتا ہو.

دوسرى حالت:

وہ اپنى جماعت كے ساتھ ملنا اور پناہ حاصل كرنا چاہتا ہو، وہ اس طرح كہ اسے بتايا جائے كہ دوسرى طرف سے مسلمانوں كى ايك جماعت اور لشكر شكست كھانے كے حالت ميں ہے، تو وہ ان كى تقويت اور كے ليے ان كے ساتھ ملنے كے ليے جائے، اور اس حالت ميں شرط يہ ہے كہ وہ اس گروہ اور لشكر كا خوف نہ ركھے جس ميں رہ كر وہ خود لڑ رہا ہے، اور اگر اس جماعت كا خدشہ ركھتا ہو جس ميں وہ خود ہے تو پھر اس كا وہاں سے نكل كر دوسرى جماعت ميں جانا جائز نہيں، تو اس حالت ميں اس پر فرض عين ہوگا اور اس كے وہاں سے جانا جائز نہيں.

دوم:

جب اس كے علاقے اور ملك كو دشمن گھير لے تو اس شخص پر اپنے وطن كے دفاع كے ليے لڑائى اور قتال فرض عين ہو جاتا ہے، اور يہ اس شخص كے مشابہ ہے جو لڑائى كى صف ميں موجود ہو؛ كيونكہ جب دشمن ملك اور علاقے كا محاصرہ كر لے تو اس كا دفاع كرنا ضرورى ہے؛ كيونكہ دشمن اس علاقے ميں جانے اور وہاں سے باہر نكلنے سے روك دے گا، اور اس طرح ان كے ليے غلہ وغيرہ بھى نہيں آ سكے گا، اور اس كے علاوہ جو كچھ معروف ہے اس پر بھى پابندى لگ جائيگى، تو اس حالت ميں اس علاقے كے لوگوں پر اپنے ملك كے دفاع كے ليے لڑنا فرض عين ہے.

سوم:

جب امام اور حكمران لڑنے كا حكم دے، امام وہ ہے جو ملك كا حكمران اور سربراہ ہو، اور اس ميں امام المسلمين ہونے كى شرط نہيں؛ كيونكہ يہ عمومى امامت بہت زمانے سے ختم ہو چكى ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" اگر تم پر حبشى غلام بھى امير اور حكمران بنا ديا جائے تو اس كى سمع و اطاعت اور فرمانبردارى كرو "

تو جب كوئى انسان كسى بھى جہت ميں امير بن گيا تو وہ امام عام كى طرح ہى ہے اور اس كا قول نافذ ہوگا اور اس كا حكم مانا جائيگا.

ديكھيں: الشرح الممتع ( 8 / 10 ).

ھذا ما عندی واللہ أعلم بالصواب

محدث فتوی

فتوی کمیٹی

تبصرے