سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(100) نماز عصر کا وقت

  • 20993
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-02
  • مشاہدات : 801

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں کہ(نماز )عصر کا وقت کب شروع ہوتا ہے؟(چراغ حسین شاہ کامرہ کلاں ضلع اٹک)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سنن ابی داؤد (ج1ص62)سنن ترمذی (ج1ص38)اور صحیح ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ  (ج1ص168) میں سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"عن ابن عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أَمَّنِي جِبْرِيلُ عِنْدَ البَيْتِ مَرَّتَيْنِ، فَصَلَّى الظُّهْرَ فِي الأُولَى مِنْهُمَا حِينَ كَانَ الفَيْءُ مِثْلَ الشِّرَاكِ، ثُمَّ صَلَّى العَصْرَ حِينَ كَانَ كُلُّ شَيْءٍ مِثْلَ ظِلِّهِ، ثُمَّ صَلَّى المَغْرِبَ حِينَ وَجَبَتِ الشَّمْسُ وَأَفْطَرَ الصَّائِمُ، ثُمَّ صَلَّى العِشَاءَ حِينَ غَابَ الشَّفَقُ، ثُمَّ صَلَّى الفَجْرَ حِينَ بَرَقَ الفَجْرُ وَحَرُمَ الطَّعَامُ عَلَى الصَّائِمِ، وَصَلَّى المَرَّةَ الثَّانِيَةَ الظُّهْرَ حِينَ كَانَ ظِلُّ كُلِّ شَيْءٍ مِثْلَهُ لِوَقْتِ العَصْرِ بِالأَمْسِ، ثُمَّ صَلَّى العَصْرَ حِينَ كَانَ ظِلُّ كُلِّ شَيْءٍ مِثْلَيْهِ، ثُمَّ صَلَّى المَغْرِبَ لِوَقْتِهِ الأَوَّلِ، ثُمَّ صَلَّى العِشَاءَ الآخِرَةَ حِينَ ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ، ثُمَّ صَلَّى الصُّبْحَ حِينَ أَسْفَرَتِ الأَرْضُ، ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَيَّ جِبْرِيلُ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، هَذَا وَقْتُ الأَنْبِيَاءِ مِنْ قَبْلِكَ، وَالوَقْتُ فِيمَا بَيْنَ هَذَيْنِ الوَقْتَيْنِ"

"مجھے جبریل علیہ السلام  نے بیت اللہ کے قریب دو دفعہ امامت کرائی۔پس اس نے پہلے دن ظہر کی نماز اس وقت پڑھی جب سایہ تسمے کے برابر تھا ۔ پھر اس نے عصر کی نماز اس وقت پڑھی جب ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہو گیا۔

اور دوسری دفعہ ظہر اس وقت پڑھی جب ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہو گیا۔ جس وقت کل (پہلے دن)کی عصر پڑھی تھی ۔پھر اس نے عصر اس وقت جب ہر چیز کا سایہ اس کے دو مثل ہو گیا۔ پھر جبریل علیہ السلام  نے میری طرف رخ کر کے فرمایا:اے محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  ) ! یہ آپ سے پہلے انبیاء کا وقت ہے اور نماز کا وقت ان دونوں وقتوں کے درمیان ہے"

اس حدیث کے بارے میں امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:"حدیث ابن عباس حدیث حسن "ابن عباس کی حدیث حسن ہے۔نیز اسے ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ  وغیرہ نے بھی صحیح کہا ہے۔

(دیکھئے نصب الرایہ للزیلعی ج1ص221،وراجع التلخیص الجبیر ج1ص173)

محمد بن علی النیموی نے لکھا:"واسنادہ حسن "اور اس کی سند حسن ہے(آثار السنن ص51)

یہ صحیح روایت اپنے مدلل پر واضح اور صریح ہے۔ اس کے متعدد شواہد بھی ہیں۔ مثلاً

1۔ عن ابي هريره رضي الله عنه /اخرجه النسائي(ج١ص٨٧) وغيره عن محمد بن عمرو بن ابي سلمة عند به وفيه ثم صلي العصر حين راي الظل مثله.....الخ

واخرجه الحاكم(ج١ص ١٩٤) مختصراً وصححه علي شرط مسلم ووافقه الذهبي وصححه ابن السكن وحسنه الترمذي في العلل وقال الحافظ في التلخيص الجير(ج١ص ١٧٣) باسناد حسن"

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی بیان کردہ حدیث جسے امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ  وغیرہ نے آپ سے روایت کیا ہے اور اس میں ہے پھر آپ نے اس وقت عصر پڑھی جب سائے کو چیز کے مثل (برابر) دیکھ لیا۔ اسے حاکم نے بھی مختصراً روایت کیا ہے اور حاکم  رحمۃ اللہ علیہ و ذہبی  رحمۃ اللہ علیہ دونوں نے صحیح علیٰ شرط مسلم (!)اور ابن السکن نے صحیح کہا ہے امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  اور ابن حجر عسقلانی  رحمۃ اللہ علیہ نے حسن کہا۔

2۔عن ابي مسعود رضي الله عنه(اخرجه ابوداود(ج١ص٦٣)وغيره مختصراً وفيه:"يصلي العصر والشمس مرتفعة بيضاء قبل أن تدخلها الصفرة فينصرف الرجل من الصلاة فيأتي ذا الحليفة قبل غروب الشمس وصححه الحاكم(ج١ص١٩٢.١٩٣) وغيره"

سیدناابو مسعود  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی بیان کردہ حدیث جسے ابو داودوغیرہ نے مختصراً روایت کیا ہے اور اس میں ہے اور آپ اس وقت عصر پڑھتے جب کہ سورج بلند اور سفید ہوتا اس سے پہلے کہ اس میں زردی آجائے ۔پس نمازی نماز سے فارغ ہو کر غروب آفتاب سے پہلے ذوالحلیفہ تک پہنچ سکتا تھا۔ اسے حاکم  رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے صحیح کہا ہے۔

3۔ "عن جابر رضي الله عنه(اخرجه النسائي(ج١ص٨٨) وغيره عنه قال:سال رجل رسول الله صلي الله عليه وسلم عن مواقيت الصلاة؟فقال:(صلي معي)  فصلي الظهر حين زاغت الشمس والعصر حين كان في كل شئي مثله ....الخ وللحديث طرق اخري عند الترمذي(ج١ص ٣٨) وغيره وصححه الحاكم (/١٩٦) ووافقه الذهبي"

سیدنا جابر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی بیان کردہ حدیث جسے امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ  وغیرہ نے روایت کیا ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے نماز کے اوقات کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: میرے ساتھ نماز پڑھ !پس آپ نے ظہر اس وقت پڑھی جب سورج ڈھل گیا اور عصر اس وقت پڑھی جب ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہو گیا الخ۔

اس حدیث کی امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  وغیرہ کے پاس اور بھی سندیں ہیں اور اسے حاکم  رحمۃ اللہ علیہ و ذہبی  رحمۃ اللہ علیہ دونوں نے صحیح کہا ہے مزید تحقیق کے لیے التلخیص الجبر(ج173۔174)وغیرہ کا مطالعہ کریں۔

ان احادیث صحیحہ صریحہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ عصر کا وقت ایک مثل پر شروع ہو جاتا ہے۔نیموی صاحب نے اعتراف کرتے ہوئے کہا:"اور بے شک مجھے ایسی کوئی صریح صحیح یا ضعیف حدیث نہیں ملی جو اس پر دلالت کرتی ہو کہ ظہر کا وقت دو مثل تک باقی رہتا ہے۔(آثار السنن ص53)وما علینا الا البلاغ۔(ہفت روزہ الاعتصام لاہور12/صفر 1417ھ جلد 48شمارہ )

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد1۔كتاب الصلاة۔صفحہ272

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ