سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(98) عورتوں کی جماعت میں خیر؟

  • 20991
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-03
  • مشاہدات : 963

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اس روایت کی تخریج درکار ہے؟

"لاخير في جماعة النساء الا في مسجد"

 (عورتوں کی جماعت میں کوئی خیر نہیں ہے سوائے مسجد کے)

(مجمع الزوائد منبع الفوائد کتاب الصلاۃ 2/118حدیث 2104 المعجم الاوسط للطبرانی حدیث 9359)طبع جدید)(محمد محسن سلفی کراچی)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مسند احمد (6/66ح2488)میں ہے۔

"فقال حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا حسن ثنا بن لهيعة ثنا الوليد بن أبي الوليد قال سمعت القاسم بن محمد يخبر عن عائشة ان رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : (لا خير في جماعة النساء الا في مسجد أو جنازة قتيل)"

کوئی خیر نہیں ہے(عورتوں کی جماعت (یعنی اکٹھا ہونے)میں سوائے مسجد میں یا کسی مقتول کے جنازے میں۔

"حدثنا حجاج:حدثنا ابن لهيعة عن الوليد ابي الوليد قال:سمعت القاسم يخبر عن عائشة أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال لا خير في جماعة النساء إلا في مسجد جماعة أو جنازة قتيل" (ج6ص154ح25728)

اسے امام طبرانی  رحمۃ اللہ علیہ نے درج ذیل سندو متن سے روایت کیا ہے۔

"فقال حدثنا هارون بن كامل ثنا أبو صالح الحراني نا بن لهيعة عن الوليد بن أبي الوليد عن القاسم بن محمد عن عائشة أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال لا خير في جماعة النساء إلا في مسجد جماعة أو جنازة قتيل"(المعجم الوسط ج10ص166ح9355)

عبد اللہ بن لہیعہ  المصری مختلف فی راوی تھے۔ ان کے بارے میں اعدل الاقوال یہ ہے کہ وہ اختلاط کی وجہ سے ضعیف تھے اور ان کی روایت دو شرطوں کے ساتھ حسن ہوتی ہے۔

1۔وہ سماع کی تصریح کریں کیونکہ وہ مدلس تھے۔(قال ابن حبان : یدلس عن اقوام ضعفاء )

2۔ان کی روایت اختلاط سے پہلے کی ہو۔

درج ذیل راویوں نے ان اختلاط سے پہلے احادیث سنی تھیں۔

عبد اللہ بن المبارک  رحمۃ اللہ علیہ ،عبد اللہ بن وہب رحمۃ اللہ علیہ ، عبد اللہ بن یزید المقری رحمۃ اللہ علیہ  (تہذیب التہذیب 5/330)یحییٰ بن اسحاق السلحینی رحمۃ اللہ علیہ (تہذیب التہذیب 2/361ترجمہ حفص بن ہاشم بن عقبۃ الزہری رحمۃ اللہ علیہ )عبد اللہ بن مسلمہ القعنبی رحمۃ اللہ علیہ  (میزان الاعتدال 2/482)الولید بن مزید رحمۃ اللہ علیہ (المعجم الصغیر 1/231)عبد الرحمٰن بن مہدی رحمۃ اللہ علیہ (مقدمہ لسان المیزان 1/10،11)اسحاق بن عیسیٰ (میزان الاعتدال 2/477) لیث بن سعد (فتح الباری 4/345تحت ح2127) بشر بن بکر (الضعفاء للعقیلی 2/294)سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ  ،شعبہ اوزاعی  رحمۃ اللہ علیہ ، عمر و بن الحارث المصری رحمۃ اللہ علیہ  (ذیل الکواکب النیرات ص47)

اوپر ذکر کردہ روایت میں ابن لہیعہ کے تین شاگرد ہیں۔

1۔حجاج (لعلہ ابن محمد الاعوراوابن سلیمان الرعینی)

2۔حسن بن موسیٰ الاشیب ۔

3۔ابو صالح الحرانی (عبدالغفار بن داود)

ان تینوں کا سماع قبل از اختلاط ثابت نہیں ہے لہٰذا یہ ضعیف ہے۔ یار رہے کہ ولید بن ابی الولید پر جرح مردود ہے۔

المعجم الاوسط للطبرانی (ج8ص64ح7126)میں ایک روایت ہے کہ:

"لاخير في جماعة النساء إلا عند ميت فإنهن إذا اجتمعن قلن وقلن"

اس کا راوی الوازع بن نافع متروک ہے دیکھئے المیزان (ج6ص259،260)وغیرہ متروک کی روایت شواہد و متابعت میں بھی پیش نہیں کی جا سکتی ۔

دیکھئے اختصار علوم الحدیث  لا بن کثیر (ص38النوع الثانی تعریفات اخری للحسن )المعجم الکبیر للطبرانی (ج12ص317ح 1228) میں ہے کہ:

"لاخير في جماعة النساء إلا عند ميت فإنهن إذا اجتمعن قلن وقلن "

"اس کا راوی بھی الوازع بن نافع ہے،وازع کا شاگرد مغیرہ بن سقلاب ضعیف علی الراجح اور موسیٰ بن ایوب صاحب خبر منکر ہے۔ یہ سند بھی مردود ہے۔ اس کے مقابلے میں سنن ابی داؤد (کتاب الصلوۃ باب امامۃ النساء ح592ومن طریقہ البیہقی فی الخلافات مخطوط مصور 4 ب) میں ہے کہ:

"وأمرھا أن توم أھل دارھا "

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ام ورقہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کو حکم دیا کہ وہ اپنے گھر والوں کی امامت کریں۔ اس روایت کو ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ (1676) اور ابن جارود (333)نے صحیح قراردیا ہے۔

شیخ ناصر الدین البانی رحمۃ اللہ علیہ  نے اسے حسن قراردیا ہے اور محمد بن علی النیموی (تقلیدی )نے بھی اسے اسنادہ حسن لکھا ہے(آثار سنن ح513)اس حدیث کے راویوں کا مختصر تذکرہ پڑھ لیں۔

1۔عبد الرحمٰن بن خلادالانصاری انھیں ابن حبان نے کتاب الثقات میں ذکر کیا اور ابن القطان الفاسی المغربی نے کہا:"حالہ مجہول "ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ  اور ابن الجارد رحمۃ اللہ علیہ  نے تصحیح کے ذریعے سے انھیں ثقہ وصدوق قراردیا یعنی وہ ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ  ، ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ  اور ابن الجارد  رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ثقہ تھے لہٰذاابن القطان وغیرہ کی تجہیل (مجہول قراردینے) کا یہاں کوئی اعتبار نہیں ہے۔ لیلیٰ بنت مالک نے ان کی متابعت کر رکھی ہے۔

2۔ولید بن عبد اللہ بن جمیع صحیح مسلم وغیرہ کے راوی تھے۔ امام یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ  اور جمہور محدثین نے انھیں ثقہ ولا باس بہ قراردیا ہے۔ ان پر ابن حبان عقیلی اور حاکم کی جرح مردود ہے لہٰذا ان کی روایت صحیح یا حسن ہوتی ہے۔

3۔محمد بن فضیل بن غزوان :کتب ستہ کے راوی اور موثق عند الجمہور تھے۔ان پر تشیع کا الزام چنداں مضر نہیں ہے۔ ان کی روایت صحیح ہوتی ہیں۔ والحمد للہ۔

4۔الحسن بن حماد المصری صدوق تھے۔(دیکھئے تقریب الہتذیب ص69وغیرہ)

خلاصہ یہ کہ یہ سند حسن ہے اسے عبد الرحمٰن بن خلاد کی وجہ سے ضعیف کہنا صحیح نہیں ہے مصنف عبد الرزاق (5086)اور السنن الکبری للبیہقی (3/131)میں ایک روایت ہے کہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   نے گھر والیوں کے درمیان کھڑے ہو کر فرض نماز کی امامت کی تھی۔(آثار السنن :514وقال : اسنادہ صحیح وصححہ النووی اعلاء السنن 4/243)اس کی سند حسن ہے سفیان ثوری نے سماع کی تصریح کر دی ہے۔

السنن الکبری (3/131) مصنف ابن ابی شیبہ(2/89ح4954)اور سنن دارقطنی (1/404ح 1422) میں اس کے متعدد شواہد بھی ہیں۔(انوارالحسن ص103)

ریطہ کو امام عجلی نے ثقہ امام قراردیا ہے۔(الثقات:2094)

مصنف عبدالرزاق (5082)میں اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ انھوں نے (عورتوں کے)درمیان کھڑے ہو کر عصر کی نماز پڑھائی تھی۔

(آثار السنن :515وقال :اسنادہ صحیح وصححہ النووی کمافی اعلاء السنن 244ح1222)

سفیان ثوری نے سماع کی تصریح کر دی ہے(الاوسط لا بن المنذر ج4ص 227ح207)

سفیان بن عیینہ نے ان کی متابعت کر رکھی ہے(ابن شیبہ 2/88ح 4952)السنن الکبری للبیہقی 131)

حجیرۃ بنت حصین کی توثیق نہیں ملی لیکن یہ روایت دوسرے شواہد کی روسے حسن ہے اور مرفوع حدیث بھی اس کی مؤید ہے والحمدللہ۔

ان کے مقابلے میں باسند صحیح امامت نساء کی ممانعت ثابت نہیں ہے۔

ظفر احمد تھانوی دیوبندی نے سیدنا علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے نقل کیا ہے کہ "لاتؤم المراة"عورت امامت نہ کرائے (اعلاء السنن ج4ص243ح 1220بحوالہ المدونہ ج 1ص86)

اس روایت سے استدلال کئی وجہ سے مردود ہے۔

1۔مدونہ کتاب سحنون تک صحیح و متصل سند منقود ہے۔

2۔مدونہ کتاب بذات خود وغیرہ معتبر ہے۔

3۔مولیٰ بنی ہاشم نامعلوم ہے۔ مطلقاً ابن ابی ذئب کے شیوخ کو ثقات کہہ کر اسے ثقہ قراردینا غلط ہے۔

4۔مولیٰ بنی ہاشم کی سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے ملاقات ثابت نہیں ہے لہٰذا ظفرصاحب کا اسے"فالسند صحیح"کہنا غلط ہے۔

5۔اگر یہ روایت صحیح ہوتی تو اس کا مطلب صرف یہ ہوتا کہ عورت (مردوں کی ) امامت نہ کرائے اور اس طرح تمام روایات میں تطبیق وتوفیق ہوجاتی ہے۔(شہادت فروری 2003ء)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد1۔كتاب الصلاة۔صفحہ266

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ