سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(96) مسجد میں دوسری جماعت کرانے کا حکم

  • 20989
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-04
  • مشاہدات : 12522

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہم یہ دیکھتے چلے آئے ہیں کہ مسجد میں ایک جماعت کے بعد دوسری جماعت بھی کی جاتی ہے لیکن میں نے مسجد بلال ماڑی پور میں لکھا ہوا دیکھا ہے کہ مسجد میں دوسری جماعت کرنا مکروہ تحریمی ہے۔وضاحت فرما دیجیے ۔

(سیدصفی اللہ شاہ گڑھی نواب بٹگرام)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے نماز جماعت کے بے شمار فضائل بیان فرمائے ہیں اور ترک جماعت پر وعید بھی فرمائی ہے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا۔"منافقین پر سب سے زیادہ دشوار عشاء اور فجر کی نماز ہے۔ اگر ان لوگوں کو ان نمازوں کوکا ثواب معلوم ہو جائے تو انھیں پڑھنے ضرور آئیں گے خواہ انھیں گھٹنوں کے بل چل کر آنا پڑے۔میں نے ارادہ کیا تھا کہ ایک شخص کو نماز پڑھانے کا حکم دوں،پھر چند لوگوں کے ساتھ لکڑیوں کا گٹھرلے کر ان لوگوں کے پاس جاؤں جو جماعت میں نہیں آتے اور ان کے گھروں کو آگ لگادوں ۔"(صحیح مسلم)بشری تقاضے کے تحت اگر کسی شرعی عذرکی بناء پر جماعت چھوٹ جائے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کے لیے جماعت کے اجر کا اہتمام فرمایااور ترغیب دی۔

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص (مسجد نبوی میں)آیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نماز پڑھ چکے تھے۔(یعنی جماعت ہو چکی تھی)تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے) فرمایا:"کون ہے جو اس کے ساتھ (جماعت کے ثواب کی) تجارت کرے؟تو ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے اس شخص کے ساتھ(نفل کی نیت کر کے باجماعت)نماز پڑھی ۔(سنن ترمذی)

اسی طرح رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک شخص کو دیکھا کہ تنہا نماز پڑھ رہا ہے۔آپ نے فرمایا:کوئی شخص ہے جو اس پر (جماعت کے ثواب کا)صدقہ کرے اور اس کے ساتھ(نفل کی نیت کر کے جماعت ) نماز پڑھے ؟ (سنن ابی داؤد)

مسجد میں جماعت ثانی کے متعلق علامہ نظام الدین لکھتے ہیں۔"مسجد میں جب امام مقررہواور پابندی سے جماعت ہوتی ہواور وہاں کے رہنے والے باجماعت نماز پڑھتے ہوں تو ایسی مسجد میں اذان ثانی کے ساتھ جماعت ثانیہ جائز نہیں ہے البتہ جب وہ بغیر اذان کے جماعت کے ساتھ نماز ادا کریں تو بالاتفاق دوسری جماعت جائز ہے جیسے شارع عام کی مسجد میں جائز ہے۔"فتاوی عالمگیری)

علامہ علاءالدین حصکفی لکھتے ہیں۔"مسجد محلہ میں اذان واقامت کے ساتھ دوسری جماعت مکروہ ہے مگر جو مسجد شارع عام پر ہو یا جس میں امام مؤذن مقرر نہ ہوں(اس میں جماعت ثانی مکروہ ) نہیں ہے۔"

علامہ ابن عابد ین شامی لکھتے ہیں۔"مسجد محلہ میں اذان واقامت کے ساتھ جماعت کی تکرار مکروہ ہےمگر اس صورت میں کہ پہلے غیر محلہ والوں نے وہاں اذان واقامت کے ساتھ جماعت کرائی ہویا اہل محلہ نے آہستہ اذان دے کر جماعت کروائی ہو(مکروہ نہیں ہے)اور اگر اہل محلہ نے اذان  واقامت کے بغیر جماعت کی تکرار کی تو یہ بالاتفاق جائز ہے یا اگر مسجد شارع عام پر ہےتو(جماعت ثانی )بالا تفاق تکرار جماعت جائز ہے جیسا کہ اس مسجد کا حکم ہے جس کے لیے امام مؤذن مقرر نہ ہواور لوگ اس میں گروہ درگروہ نماز ادا کرتے ہوں وہاں افضل یہ ہے کہ ہر فریق اپنی اپنی اذان واقامت کے ساتھ الگ الگ نماز پڑھے۔" فقہائے احناف کا معتمد مذہب یہ ہے کہ دوسری جماعت اذان کے اعادے کے ساتھ مکروہ ہےاور بلا اعادہ اذان دوبارہ جماعت کرانے میں کوئی ہرج نہیں جب کہ وہ جماعت ثانی جماعت اولیٰ کی ہیئت پر نہ ہو۔

علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں ۔امام ابو یوسف سے روایت ہے کہ جب جماعت پہلی ہیئت پر نہ ہوتو مکروہ نہیں ورنہ مکروہ ہے، یہی صحیح ہے اور محراب سے ہٹ کر ادا کرنے سے ہیئت بدل جاتی ہے۔

امام احمد رضا قادری نے ایک ہی مسجد میں جماعت ثانیہ قائم کرنے کے مسئلے پر ایک مستقل رسالہ تصنیف فرمایا ہے جس میں آپ نے تقریباً12ممکنہ صورتیں اور ان کے احکام بیان فرمائے ہیں۔ ان میں آج کل کے حالات کی مناسبت سے چند اہم صورتیں یہ ہیں۔

1۔جو مسجدشارع عام ، بس اسٹینڈ، ریلوے اسٹیشن ،ائیرپورٹ یا سرائے وغیرہ کی ہے، جہاں لوگوں کے قافلے آتے جاتے رہتے ہیں ،وہاں نئی اذان واقامت کے ساتھ کسی کراہت کے بغیرتکرار جماعت جائز ہے۔

2۔ایک مسجد کسی محلے یا بستی کے لیےہے وہاں کچھ اجنبی لوگ یا مسافر اذان واقامت کے ساتھ جماعت کر کے چلے گئے تو اہل محلہ کےلیے دوبارہ اذان واقامت کے ساتھ جماعت کرانا جائز ہے۔ کیونکہ اس مسجد میں اقامت جماعت انہی لوگوں کا حق ہے۔ جیسے اصولاً تو نماز جنازہ کی تکرار جائز نہیں ہے۔لیکن اگر ولی کی اجازت کے بغیر دوسرے لوگوں نے نماز جنازہ پڑھ لی ولی کو اعادے کا حق ہے۔

3۔محلے یا بستی کی جماعت میں بعض اہل محلہ  نے اذان کے بغیر جماعت کر لی تو بھی وہاں اذان واقامت کے ساتھ تکرار جماعت جائز ہے۔

4۔محلے یا بستی کی مسجد میں کچھ لوگوں نے آہستہ اذان دے کر جماعت کرالی تو اہل محلہ کا دوبارہ اذان واقامت کے ساتھ جماعت کرانا جائز ہے کیونکہ اذان کا اصل مقصد اعلان عام ہے جو آہستہ اذان اول سے حاصل نہیں ہوا۔

5۔امام کسی دوسرے مسلک کا ہو مثلاً شافعی اور اس کے بارے میں ظن غالب یا یقین ہو کہ وہ بعض فقہی مسائل میں ایسا طریقہ اختیار کرتا ہے کہ مسلک حنفی کے مطابق وضو نہیں ہوتا مثلاً (الف)وہ پچھنا لگوانے کے بعد نماز کے لیے دوبارہ وضو نہیں کرتا ۔(ب)جسم کی کسی عضو یا مقام سے خون نکل کر بہہ جانے سے دوبارہ وضونہیں کرتا(ج)نماز کے اندر قہقہہ لگا کر ہنسنے سے نماز تو بالا تفاق فاسدہو جاتی ہے مگر شوافع کے نزدیک وضو نہیں ٹوٹتا ،اور اب شافعی امام ایسی صورت میں احتیاط پر عمل کرتے ہوئے نماز کے لیے وضو کا اعادہ نہیں کرتا (د) امام شافعی المسلک ہے اور وہ وضو کرتے وقت احتیاط پر عمل کرتے ہوئے چوتھائی سریا اس سے زیادہ کا مسح نہیں کرتا، بلکہ چند بالوں کے مسح پر اکتفاء کرتا ہے۔ان تمام صورتوں میں چوں کہ احناف کے نزدیک وضو یا ہوتا ہی نہیں ہے فاسد ہو جاتا ہے تو اس سے نماز ادا نہیں کی جا سکتی،اب اگر کہیں صورت حال ایسی ہے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  المسلک ہے اور یہ جاننے کے باوجود کہ اس کے مقتدی سب کے سب یا اکثر حنفی ہیں اور وہ مندرجہ بالا مسائل میں احتیاط پر عمل نہیں کرتا تو حنفی اپنی نماز کی حفاظت کے لیے جماعت ثانی کر سکتے ہیں۔

6۔پہلی جماعت میں امام ایسی قرآءت کرتا ہے جو موجب فساد نماز ہے۔

7۔ظن غالب یا یقین کی حد تک معلوم ہے کہ پہلی جماعت کا امام تو ہین الوہیت ورسالت کا مرتکب ہے۔آخر میں لکھتے ہیں کہ اب محل نظر صرف ایک صورت رہی کہ مسجد محلہ میں اہل محلہ نے بہ اذان واقامت بروجہ سنت امام موافق المذہب سالم العقیدہ ،متقی مسائل داں ،صحیح خواں کے ساتھ جماعت اولیٰ خالی عن الکراہت ادا کر لی ،پھر ماندہ لوگ آئے، انھیں دوبارہ اس مسجد میں جماعت  قائم کرنے کی اجازت ہے یا نہیں؟ اور ہے توبہ کراہت یا بے کراہت اس بارے میں عین تحقیق وحق و ثیق و حاصل انیق ونظر دقیق واثر توفیق یہ ہے کہ اس صورت میں تکرار جماعت بہ اعادہ اذان ہمارے نزدیک ممنوع و بدعت ہے یہی ہمارے امام کا مذہب مہذب و ظاہر الرایہ ہے۔

متن متین مجمع البحرین ،وبحرالرائق علامہ زین میں ہے کہ مسجد محلہ میں دوسری اذان کے ساتھ تکرار جامعت جائز نہیں۔(البحرالرائق)

فقہا ئے کرام نے ایک ہی مسجد میں"جماعت ثانیہ"پر اس لیے تفصیل کے ساتھ گفتگو فرمائی کہ لوگ بلا ضرورت و بلا جواز شرعی اسے انتشار کا ذریعہ نہ بنائیں اور دانستہ فتنہ و تفریق بین المسلمین کا سبب نہ بنیں۔"

جواب الجواب: وعلیکم السلام ورحمة اللہ ،امابعد:    

آپ کا خط ملا جس میں مفتی منیب الرحمٰن نے ایک سوال کا جواب بعنوان:"مسجد میں جماعت ثانی کا حکم"لکھا ہے جو روزنامہ ایکسپریس 23فروری 2007ءبروز جمعہ شائع ہوا ہے۔ راقم الحروف نے اس جواب کا مطالعہ کیا۔ جس کا خلاصہ درج ذیل ہے۔

1۔نماز باجماعت کے بے شمار فضائل ہیں جیسا کہ صحیح مسلم (وغیرہ)سے ثابت ہیں۔

2۔اگر کسی شرعی عذر سے جماعت رہ جائے تو دوسری جماعت کا اجر ہے جیسا کہ سنن ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  و سنن  رحمۃ اللہ علیہ ابی داؤد  رحمۃ اللہ علیہ کی احادیث سے ثابت ہے۔

3۔حصکفی حنفی ابن عابدین شامی حنفی اور احمد رضا بریلوی نے یہ کہا ہے اور فتاوی عالمگیری اورالبحرالرائق وغیرہ حنفی کتابوں میں یہ لکھا ہوا ہے۔

4۔حنفی (و تقلیدی لوگ)اپنی نماز کی حفاظت کے لیے جماعت ثانی کر سکتے ہیں بحوالہ احمد رضا بریلوی ۔

5۔مسجد محلہ میں دوسری اذان کے ساتھ تکرار جماعت جائز نہیں بحوالہ البحرالرائق ۔

عرض ہے کہ اول الذکر: نماز باجماعت کے فضائل پر سب کااتفاق ہے۔سوم ،چہارم اور پنجم کا تعلق قرآن و حدیث کے دلائل سے نہیں بلکہ فقہ حنفی و فقہ بریلوی وغیرہما سے ہے جس کا جواب دینے کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ان اقوال وفتاوی کا شرعی حجت ہونا ہی ثابت نہیں ہے۔دوم کے سلسلے میں عرض ہے کہ سنن  ترمذی( 220) وسنن ابی داود (554)کی حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک آدمی کو جماعت ہو جانے کے بعد اکیلے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"أَلَارَجُلٌ يَتَصَدَّقُ عَلَى هَذَا فَيُصَلِّيَ مَعَهُ ؟"

کیا کوئی ایسا آدمی نہیں ہے جو( ثواب کی تجارت کرتے ہوئے)اس آدمی پر صدقہ کرے اور اس کے ساتھ مل کر نماز (با جماعت )پڑھے ؟(واللفظ لا بی داؤد:554)

سنن ترمذی میں اس حدیث کے آخر میں یہ اضافہ ہے کہ ایک آدمی نے کھڑے ہو کر اس جماعت سے رہنے والے آدمی کے ساتھ مل کر نماز باجماعت پڑھی ۔

 اس حدیث کی سند صحیح ہے۔اسے امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  نے"حسن"ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ (1632)ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ (مواردالظمآن 436۔438)حاکم (1/209)ذہبی  رحمۃ اللہ علیہ اور حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ (فتح الباری2/142تحت ح658)نے صحیح قراردیا ہے۔اس حدیث سےثابت ہوا کہ(مسجد کے امام یا انتظامیہ کی اجازت سے)دوسری جماعت بغیر کسی کراہت کے جائز ہے۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ یہی قول کئی صحابہ اور تابعین کا ہے کہ جس مسجد میں جماعت ہو چکی ہو تو دوسری جماعت جائز ہے اور یہی قول(امام )احمد  رحمۃ اللہ علیہ اور (امام ) اسحاق (بن راہویہ رحمۃ اللہ علیہ ) کا ہے۔(سنن الترمذی ص64باب ماجاء فی الجماعۃ فی المسجد قد صلی فیہ مرۃ )سنن دارقطنی (1/276ح1068)میں اس حدیث کا ایک حسن شاہد(تائید کرنے والی روایت )بھی ہے جس کے بارے میں زیلعی حنفی نے کہا:"وسندہ جید"اور اس کی سند اچھی ہے۔(نصب الرایۃ 1/58)

سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایک جگہ تشریف لے گئے وہاں فجر کی نماز باجماعت ہو چکی تھی، تو انھوں نے ایک آدمی کو اذان دینے کا حکم دیا پھر انھوں نے نماز فجرسے پہلی دو رکعتیں پڑھیں پھر انھوں نے اقامت کا حکم دیا اور آگے ہو کر اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھائی۔

(دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ ج2ص321ح7093،وسندہ صحیح وقال الحافظ ابن حجر فی تغلیق التعلیق (2/277)"ھذا اسنادصحیح موقوف "وصحیح البخاری قبل ح646)

محدث محمد بن ابراہیم بن المنذر النیساپوری  رحمۃ اللہ علیہ (متوفی318ھ) فرماتے ہیں جو آدمی اس(جماعت ثانیہ) سے منع کرتا ہے یا مکروہ سمجھتا ہے ہمارے علم کے مطابق اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔(الاوسط فی السنن والا جماع والاختلاف ج4ص218)

ایک صحیح حدیث میں آیا ہے کہ:

"وَلا تَؤُمَّنَّ الرَّجُلَ فِي أهْلِهِ وَلا فِي سُلْطَانِهِ، وَلا تَجْلِسْ عَلَى تَكْرِمَتِهِ، فِي بَيْتِهِ، إِلا أنْ يَأْذَنَ لَكَ، أَوْ بِإِذْنِهِ"

تم کسی آدمی کے گھر میں یا اس کی سلطنت (زیراختیار جگہ)میں اس کی امامت نہ کرو اور نہ اس کے گھر میں اس کی مسند تکریم پر بیٹھو الایہ کہ وہ تمھیں اجازت دے یا اس کی( عام)اجازت ہو۔(صحیح مسلم:673(1535)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی مسجد میں اس کے امام یاا نتظامیہ کی مرضی اور اجازت کے بغیر دوسری جماعت نہیں کرنی چاہیے۔راستوں پر جو مسجد یں بغیر مستقل امام کےہیں ،ان میں عرفاً ہر ایک کے لیے جماعت ثانیہ یا ثالثہ وغیرہ کی اجازت ہوتی ہے۔

تنبیہ: (1)منیب الرحمٰن صاحب کے مردود علیہ جواب میں اور بھی کئی باتیں قابل رد میں مثلاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  پر پورا درود نہ لکھنا اور صرف "ص"لکھنا وغیرہ۔

تنبیہ:(2)راقم الحروف نے اپنی کتاب "بدعتی کے پیچھے نماز کا حکم "میں یہ ثابت کیا ہےکہ اہل حق کو اہل بدعت کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی چاہیے۔ وماعلینا الا البلاغ (4/مارچ2007ء) (الحدیث :37)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد1۔كتاب الصلاة۔صفحہ260

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ