سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(94) نماز باجماعت کے بعد دوسری جماعت

  • 20987
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 753

سوال

(94) نماز باجماعت کے بعد دوسری جماعت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک روایت میں آیا ہے۔کہ"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے اطراف سے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نماز ادا کرنا چاہتے تھے۔آپ نے دیکھا کہ لوگو ں نے نماز پڑھ لی ہے تو آپ اپنے گھر کی طرف چلے گئے۔ آپ نے گھر والوں کو جمع کیا۔ پھر ان کے ساتھ نماز پڑھی ۔" کیا یہ روایت صحیح ہے۔؟(ایک سائل)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ روایت نہ صحیح ہے نہ حسن ۔

اسے حافظ ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ  نے الکامل(ج6ص2398)اور امام طبرانی نے الاوسط (ج5ص304ح4598) میں۔"

"الوليد بن مسلم قال اخبرنى ابو مطيع معاوية بن يحيى عن خالد الحذاء عن عبد الرحمن بن ابى بكرة عن ابيه"

"کی سندکے ساتھ روایت کیا ہے۔ شیخ ناصر الدین البانی نے حافظ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ  سے"ورجلہ ثقات"اوراس کے راوی ثقہ ہیں۔

(مجمع الزوائد ج 2ص45)نقل کر کے اسے"حسن"قراردیا ہے۔

(دیکھئے تمام المنہ ج1ص155مجلہ الدعوۃ لاہور محرم 1418ھ مئی 1997ءص44)

حالانکہ اصول میں یہ مقرر و متعین ہے کہ کسی سند کے راویوں کا ثقہ ہونا اس وقت تک اس روایت کے صحیح ہونے کی دلیل نہیں جب تک سند کا متصل ،غیر شاذاور غیر معلول ہونا ثابت نہ ہوجائے۔اوپر بیان کردہ روایت کا متصل ہونا مشکوک ہے۔اس کے بنیادی راوی ولید بن مسلم ثقہ ہونے کے ساتھ مدلس بھی تھے خود شیخ البانی  رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے۔

"ثم ان الوليد بن مسلم وان كان ثقة فقد كان يدلس تدليس التسوية"

پھر(یہ کہ)بے شک ولید بن مسلم اگرچہ ثقہ تھے مگر تدلیس تسویہ کرتے تھے۔(السلسلۃ الضعیفۃ ج2ص81ح213)

بلکہ انھوں نے مزید لکھا ہے۔"

"فالمحققون لا يحتجون بما رواه الوليد إلا إذا كان مسلسلاً بالتحديث أو السماع"

پس محققین (حضرات)ولید کی روایت سے حجت نہیں پکڑتے سوائے اس کے کہ وہ مسلسل تحدیث(حدثنا حدثنی وغیرہ)یا سماع کی تصریح کریں۔(الضعیفۃ ج3ص409،410ح1253)

چونکہ اس سند میں سماع مسلسل (آخر تک ہر راوی کے سماع کی تصریح )نہیں ہے لہٰذا یہ روایت قابل حجت نہیں ہے۔اسے حسن قرار دینا محققین کی تحقیق کے خلاف ہے۔(ہفت روزہ الاعتصام لاہور27/جون 19997ءج9شمارہ24)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد1۔كتاب الصلاة۔صفحہ258

محدث فتویٰ

تبصرے