سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(79) مساجد اور صحیح سمتِ قبلہ

  • 20972
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-13
  • مشاہدات : 1538

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سائل کا تعلق ڈیرہ غازی خان شہر سے ہے۔ہمارے شہر میں قبلے کا رخ مغرب میں تھوڑاترچھا ہے اور شہر کے تمام مسالک:دیوبندی،بریلوی،اہلحدیث (اور)شیعہ حضرات کی مسجدیں اسی رخ میں بنی ہوئی ہیں اور بغیر کسی اختلاف کے لوگ اسی رخ میں مساجد بنارہے ہیں۔لیکن ہمارے شہر میں ایک مسجد والوں نے مسجد کا رخ مغرب میں سیدھا کردیا ہے اور متولی مسجد کا کہنا ہے کہ اس طرف رخ کرنے سے قبلہ رخ میں کوئی فرق نہیں پڑتا اور آپ کی نمازوں کا میں ذمہ دار ہوں جب کہ متولی صاحب نہ تو عالم ہیں ،نہ مفتی ہیں نہ قاری ہیں۔جبکہ قبلہ نما میٹر سے قبلہ کا رخ مغرب میں ترچھا ہی آتا ہے ۔

آپ سے التماس ہے کہ آپ ہمیں قرآن وسنت کی روشنی میں بتائیں کہ کیا اُن کی یہ بات ٹھیک ہے؟اور یہ کہ بقیہ اہل شہر جو مساجد کا رخ مغرب میں ترچھا کرکے بنارہے ہیں جو کہ قبلہ نمامیٹر کے عین مطابق ہے وہ سب غلط ہے؟یا یہ لوگ کسی نئے فتنہ کا آغاز کررہے ہیں؟

جب کہ مسافر ہونے کی صورت میں قبلہ کی صحیح سمت کا علم نہ ہونے کی وجہ سے جس طرف منہ کرےگا نماز ہوجائےگی۔لیکن اگر علم ہوجائے کہ قبلہ کا رخ صحیح سمت میں نہیں بلکہ سیدھا ہے تو اس صورت میں بھی نماز ہوجائے گی؟

اس سوال کے جواب کے سلسلے میں براہ مہربانی فتویٰ ارسال فرماکر عنداللہ ماجور ہوں۔فتویٰ قرآن وحدیث کی روشنی میں ہو۔ضروری ہے کہ  فتویٰ ہمیں ارسال کریں کیونکہ ہمیں کسی بھی ساتھی کوسمجھانا ہو یا دکھانا ہوتو علمائے کرام کا فتویٰ دکھا یا جاسکے اور اصلاح ہوسکے(عبدالوہاب ،ڈیرہ غازی خان)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:

﴿وَجهَكَ شَطرَ المَسجِدِ الحَرامِ وَحَيثُ ما كُنتُم فَوَلّوا وُجوهَكُم شَطرَهُ ...﴿١٤٤﴾... سورةالبقرة

"پس آپ(نماز میں) اپنا چہرہ مسجد حرام(بیت اللہ) کی طرف  پھیردیں اور تم جہاں کہیں بھی ہو(نماز میں) اپنے چہرے اسی طرف پھیرو"(سورۃ البقرۃ:144)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے مسئ الصلاۃ کو حکم دیا:

"إذا قُمْتَ إلَى الصَّلاةِ فَأَسْبغِ الوُضُوءَ، ثم أسْتَقْبِلِ القِبْلَةَ، فَكَبِّرْ"

"جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو پورا وضو کرو  پھر قبلہ رُخ ہوکرتکبیر(اللہ اکبر) کہو۔" (صحیح بخاری،کتاب الاستئیذان باب من ردفقال :علیک السلام ح6251 صحیح مسلم،کتاب الصلوٰۃ باب وجوب قراءۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃ ح 46/397 وتر قیم دارالسلام :886)

ان دلائل اور دیگر دلائل سے ثابت ہے کہ نمازی کو حالت نماز میں بیت اللہ کی طرف رُخ کرنا چاہیے اور اسی پر اُمت کا اجماع ہے۔

جب مسلمانوں کو نماز میں قبلہ رُخ کرنے کاحکم دیاگیا تو سب کعبہ کی طرف پھر گئے۔

دیکھئے صحیح بخاری(ح403) وصحیح مسلم(ح 526 وترقیم دارالسلام: 1178)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابہ  رضوان اللہ عنھم اجمعین  نے مکے کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھی۔(دیکھئے صحیح بخاری :40)

معلوم ہوا کہ مکہ سے باہر اور دُور والوں کے لیے یہ حکم ہے کہ مکہ کی طرف رُخ کرکے فرض نمازیں پڑھیں۔نوافل کے لیے سواری کی حالت میں دوسرا حکم ہے جس کا ہمارے موضوع سے فی الحال کوئی تعلق نہیں ہے۔

مسئلہ نمبر1:۔

بیت اللہ کے پاس بیت اللہ کی طرف رُخ کرکے اور مکہ سے باہرمکہ کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھنا فرض ہے۔

مسئلہ نمبر2:۔

جان بوجھ کر ،علم ہوجانے کے باوجود بیت اللہ سے ہٹ کرکسی دوسری طرف  رُخ کرکے نماز پڑھنا جائز نہیں ہے۔

مسئلہ نمبر3:۔

اپنی پوری کوشش کے باوجود اگر سمت قبلہ میں کوئی غلطی ہوجائے تو معاف ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   کا ارشاد ہے کہ:

"مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ قِبْلَةٌ"

مشرق اور مغرب کے درمیان جو ہے وہ(مدینہ والوں کے لیے) قبلہ ہے۔

(سنن الترمذی :344 وقال:"ھذا حدیث حسن صحیح"وسندہ حسن)

سیدنا عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایا:"

"مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ قِبْلَةٌ"

مشرق اور مغرب کے درمیان جو ہے وہ(مدینہ والوں کے لیے) قبلہ ہے۔

(مصنف ابن ابی شیبہ 2/362 ح7430 وسندہ صحیح)

سیدناابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نےفرمایا:

"مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ قِبْلَةٌ"

(ابن ابی شیبہ 2/362 ح7432 وسندہ صحیح)

سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایا:

"ما بين المشرق والمغرب قبلة إذا تُوُجِّه قِبَلَ البيت"

"جب تم بیت اللہ کی طرف رُخ کرلوتو مشرق اور مغرب کے درمیان قبلہ ہے" (السنن الکبریٰ للبیہقی 2/9 وسندہ حسن نافع بن ابی نعیم حسن الحدیث وثقہ الجمہور رواخطا ابن الترکمانی فتکلم فیہ بجروح مرجوحۃ)

خلاصۃ التحقیق:۔

نمازوں میں حتیٰ الوسع کعبہ(بیت اللہ) مکہ کی طرف ہی رُخ کرنا چاہیے۔جان بوجھ کر مکہ(بیت اللہ) کے علاوہ کسی دوسری طرف رُخ کرکے فرض نماز پڑھنا جائز نہیں ہے۔اگرسمت قبلہ میں اجتہادی غلطی ہوجائے تو معاف  ہے۔

سائل کے سوال کا مختصر جواب: بشرطِ صحتِ سوال عرض ہے کہ جن لوگوں نے بغیر کسی واضح دلیل کے مسجد کا رخ قبلے کی طرف سے ہٹا کر مغرب کی طرف سیدھا کردیا ہے،اُن کا یہ عمل غلط ہے اور اس سے بڑا فرق پڑتا ہے کیونکہ عین ممکن ہے کہ اس طرح کی حرکت سے لوگ بجائے مکہ کے قبلہ اول کی طرف نماز پڑھ رہے ہوں۔کوئی شخص کسی کی نمازوں کا کبھی ذمہ دار نہیں ہوتا لہذا متولی کا قول باطل ہے۔وماعلینا الاالبلاغ (3/اگست 2007ء) (الحدیث:41)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد1۔كتاب المساجد۔صفحہ236

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ