سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(68) جرابوں پر مسح جائز ہے

  • 20961
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1092

سوال

(68) جرابوں پر مسح جائز ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیاجرابوں پر مسح جائز ہے؟ (ایک سائل)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جی ہاں! حدیث میں آیا ہے کہ"

"عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ: «بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَرِيَّةً، فَأَصَابَهُمُ الْبَرْدُ فَلَمَّا قَدِمُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَهُمْ أَنْ يَمْسَحُوا عَلَى الْعَصَائِبِ وَالتَّسَاخِينِ"

"ثوبان ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مجاہدین کی ایک جماعت بھیجی۔۔۔انھیں حکم دیا کہ پگڑیوں اور پاؤں کو گرم کرنے والی اشیاء(جرابوں اور موزوں) پر مسح کریں۔(سنن ابی داود ج1ص 21ح146)

اس روایت کی سند صحیح ہے،اسے حاکم نیشاپوری رحمۃ اللہ علیہ اور حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ  دونوں نے صحیح کہاہے۔(المستدرک والتلخیص ج1 ص 169 ح602)

اس حدیث پر امام احمد  رحمۃ اللہ علیہ  کی جرح کے جواب کے لیے نصب الرایہ(ج 1ص 165) وغیرہ دیکھیں۔

امام ابوداود السجستانی  رحمۃ اللہ علیہ   فرماتے ہیں:

"ومسح على الجوربين علي بن أبي طالب وابن مسعود والبراء ابن عازب وأنس بن مالك وأبو امامة وسهل بن سعد وعمرو بن حريث، وروي أيضا عن عمر بن الخطاب وابن عباس"

"اور علی بن ابی طالب ،ابومسعود(ابن مسعود) اور براء بن عازب،انس بن مالک،ابوامامہ،سہل بن سعد اور عمرو بن حریث نے جرابوں پر مسح کیا اور عمر بن خطاب اور ابن عباس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے بھی جرابوں پر مسح مروی ہے( رضوان اللہ عنھم اجمعین ) (سنن ابی داود 1/24 ح159)

صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کے یہ آثار مصنف ابن ابی شیبہ (1/188،189) مصنف عبدالرزاق (1/199،200) محلی ابن حزم(2/84) الکنیٰ للدولابی(1/181) وغیرہ میں باسند موجود ہیں۔

سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا اثر الاوسط لابن المنذر (ج1ص 462) میں صحیح سند کے ساتھ موجود ہے ،جیسا کہ آگے آرہا ہے۔علامہ ابن قدامہ فرماتے ہیں:

"الصَّحَابَة رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ، مَسَحُوا عَلَى الْجَوَارِبِ ، وَلَمْ يَظْهَرْ لَهُمْ مُخَالِفٌ فِي عَصْرِهِمْ ، فَكَانَ إجْمَاعًا "

"اور چونکہ صحابہ نے جرابوں پر مسح کیاہے اور ان کے زمانے میں ان کا کوئی مخالف ظاہر نہیں ہوا لہذا اس پر اجماع ہے کہ جرابوں پر مسح کرنا صحیح ہے۔(المغنی 1/181 مسئلہ 426)

خفین پر مسح متواتر احادیث سے ثابت ہے جرابیں بھی خفین کی ایک قسم ہیں جیسا کہ سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ابراہیم نخعی اور نافع وغیرہم سے مروی ہے۔جو لوگ جرابوں پرمسح کے منکر ہیں،ان کے پاس قرآن ،حدیث اور اجماع سے ایک بھی صریح دلیل نہیں ہے۔

1۔امام ابن المنذر النیسابوری  رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:"

"حدثنا محمد بن عبدالوهاب:حدثنا جعفر بن عون:حدثنا يزيد بن مردانبة:حدثناالوليد بن سريع عن عمرو بن حريث قال: رأيت علياً بال ثم توضأ ومسح على الجوربين"

عمرو بن حریث( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) نے کہا:میں نے دیکھا(سیدنا) علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے پیشاب کیا،پھر وضو کیا اور جرابوں پر مسح کیا۔(الاوسط ج1ص 462 وفی الاصل : مردانیۃ وھو خطا مطبعی)

اس کی سند صحیح ہے۔

2۔سیدنا ابو امامہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے جرابوں پر مسح کیا۔

دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ (1/188 ح1979) وسندہ حسن

3۔سیدنا براء بن عازب  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے جرابوں پر مسح کیا۔دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ (1/189ح 1984) وسندہ صحیح

4۔سیدنا عقبہ بن عمرو  رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جرابوں پر مسح کیا۔دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ(1/189ح1987) اور اس کی سند صحیح ہے۔

5۔سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے جرابوں پر مسح کیا۔دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ(1/189ح1990)وسندہ حسن

ابن منذر نے کہا:(امام) اسحاق بن راہویہ نے فرمایا:"صحابہ کا اس مسئلے پر کوئی اختلاف نہیں ہے ۔"(الاوسط لابن المنذر 1/464  ،465)

تقریباً یہی بات ابن حزم نے کہی ہے۔(المحلی 2/86 مسئلہ نمبر 212)

ابن قدامہ کا قول سابقہ صفحے پر گزر چکا ہے۔

معلوم ہوا کہ جرابوں پر مسح کے جائز ہونے کے بارے میں صحابہ کااجماع ہے۔ رضوان اللہ عنھم اجمعین  اوراجماع(بذات خود مستقل)شرعی حجت ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:"اللہ میری امت کوگمراہی پر کبھی جمع نہیں کرے گا۔"(المستدرک للحاکم 1/116 ح  397 ،398)

نیز دیکھئے: "ابراء اهل الحديث والقرآن مما في الشواهد من التهمة والبهتان"

ص 32 ،تصنیف حافظ عبداللہ محدث غازی پوری  رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 1337ھ)

مزید معلومات:۔

1۔ابراہیم النخعی   رحمۃ اللہ علیہ  جرابوں پر مسح کرتے تھے۔(مصنف ابن ابی شیبہ 1/188 ح1977) اس کی سند صحیح ہے۔

2۔سعید بن جبیر  رحمۃ اللہ علیہ  نے جرابوں پر مسح کیا۔(ایضاً 1/189ح1989)اس کی سند صحیح ہے۔

3۔عطاء بن ابی رباح  رحمۃ اللہ علیہ  جرابوں پر مسح کے قائل تھے۔(المحلیٰ 2/86)

معلوم ہوا کہ تابعین  رحمۃ اللہ علیہ  کا بھی جرابوں پر مسح کے جواز پر اجماع ہے۔والحمدللہ

1۔بقول حنفیہ محمد بن الحسن الشیبانی بھی جرابوں پر مسح کا قائل تھا۔(ایضاً 1/61 باب المسح علی الخفین)

3۔آگے آرہاہے کہ(بقول حنفیہ) امام ابوحنفیہ پہلے جرابوں پرمسح کے قائل نہیں تھے لیکن بعد میں انھوں نے رجوع کرلیا تھا۔

امام ترمذی  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:سفیان الثوری ،ابن المبارک ،شافعی ،احمد اور اسحاق(بن راہویہ) جرابوں پر مسح کے قائل تھے(بشرط یہ کہ وہ موٹی ہوں) دیکھئے سنن الترمذی(ج99)

سید نذیرحسین محدث دہلوی  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ"باقی رہا صحابہ  رضوان اللہ عنھم اجمعین  کا عمل ،تو ان سے مسح جراب ثابت ہے،اور تیرہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کے نام صراحتاً سے معلوم ہیں،کہ وہ جراب پر مسح کیا کرتےتھے۔۔۔"(فتاویٰ نذیریہ ج1ص 332)

لہذا سید نزیر حسین محدث دہلوی  رحمۃ اللہ علیہ  کا جرابوں پر مسح کے خلاف فتویٰ اجماع صحابہ کے خلاف ہونے کی وجہ سےمردود ہے۔

جورب:سوت یا اون کے موزوں کو کہتے ہیں۔(درس ترمذی ج 1ص 334 تصنیف محمد تقی عثمانی دیوبندی)

نیز دیکھئے البنایہ فی شرح الہدایہ للعینی(ج1ص  597)

امام ابوحنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ  خفین(موزوں) جوربین مجلدین اور جوربین منعلین پر مسح کے قائل تھے مگرجوربین(جرابوں) پر مسح کے قائل نہیں تھے۔

ملامرغینانی لکھتے ہیں:

"وعنه أنه رجع إلى قولهما وعليه الفتوى"

اور امام صاحب سے مروی ہے کہ انھوں نے صاحبین کے قول پر رجوع کرلیا تھا اور اسی پر فتویٰ ہے۔(الہدایہ1/61)

صحیح احادیث،اجماع صحابہ  رضوان اللہ عنھم اجمعین  ،قول ابی حنیفہ اور مفتی بہ قول کے مقابلہ میں دیوبندی اور بریلوی حضرات کا یہ دعویٰ ہے کہ جرابوں پر مسح جائز نہیں ہے۔اس دعویٰ پر ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔(شہادت،جنوری 2001ء)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد1۔كتاب العقائد۔صفحہ220

محدث فتویٰ

تبصرے