سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(57) حائضہ اور جنبی کا مسجد میں داخلہ؟

  • 20950
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 738

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں حائضہ عورت اور جنبی کا مسجد میں آنا حلال نہیں کرتا(عن عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سنن ابی داود:232) آپ نے اسے حسن کہا ہے جبکہ شیخ البانی  رحمۃ اللہ علیہ  اور حافظ عبدالرؤف نے ضعیف کہاہے مفصل دلائل سے آپ اپنا"حسن" کا حکم ثابت کریں؟(محسن سلفی،کراچی)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

روایت مذکورہ کو امام بیہقی  رحمۃ اللہ علیہ  نے السنن الکبری(2/442،443) میں ابوداود کی سند سے روایت کیا ہے اور اسے ابن خذیمہ(1327) اور ابن سید الناس نے صحیح قراردیا ہے۔ابن القطان الفاسی اسے حسن قراردیتے تھے جبکہ ابن حزم اور عبدالحق الاشبیلی اسے ضعیف سمجھتے تھے۔

یہ روایت افلت بن خلیفہ نے جسرہ بنت دجاجہ:سمعت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کی سند سے بیان کی ہے۔راقم الحروف کے نزدیک یہ سن حسن ہے۔

افلت بن خلیفہ کے بارے میں احمد بن حنبل  رحمۃ اللہ علیہ  نے"ماأرى به بأساً"اور دارقطنی  رحمۃ اللہ علیہ  نے صالح کہا۔ابن حبان نے الثقات میں ذکر کیا۔ابن خذیمہ نے ان کی حدیث کوصحیح قراردیا۔

ابوحاتم الرازی نے کہا"شیخ"

حافظ ذہبی بتاتے ہیں کہ"شیخ" کا لفظ نہ جرح ہے اور نہ توثیق اور استقراء سے آپ پر ظاہر ہوجائے گا کہ وہ(ابو حاتم کے نزدیک) حجت نہیں ہے۔

(میزان الاعتدال ج2 ص385 ترجمۃ العباس بن الفضل العدنی)

کسی راوی کا(امام مالک  رحمۃ اللہ علیہ  اور شعبہ رحمۃ اللہ علیہ  وغیرہماکی طرح روایت میں) حجت نہ ہونا، مجروح ہونے کی دلیل نہیں ہے بشرط یہ کہ اس کی توثیق بھی موجود ہو۔لہذا افلت مذکور کم از کم حسن الحدیث راوی تھے۔

حافظ ابن حجر  رحمۃ اللہ علیہ  نے لکھا:"صدوق(تقریب التہذیب :546)

حافظ ذہبی نے بھی انھیں"صدوق" ہی لکھا ہے۔(الکاشف 1/85)

ان پر ابن حزم،بغوی اورخطابی کی جرح مردود ہے۔احمد بن حنبل  رحمۃ اللہ علیہ  سے جرح باسند صحیح ثابت نہیں۔

جسرہ بنت دجاجہ کو امام معتدل العجلی،ابن خذیمہ اور ابن حبان نےثقہ قراردیا ہے جبکہ امام بخاری  رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا "عند جسرة عجائب" جسرہ کے پاس عجیب روایتیں ہیں۔

ابن القطان الفاسی کے نزدیک یہ جرح اس روایت کے ساقط ہونے کے لیے کافی نہیں ہے۔جسرہ پر ابن حزم کی جرح بھی باطل ہے لہذا  راجح یہی ہے کہ جسرہ مذکورہ کی روایت حسن ہوتی ہے۔اس روایت کے بہت سے شواہد بھی ہیں لہذا یہ ان کے ساتھ صحیح لغیرہ ہے۔والحمدللہ۔(شہادت ،مئی 2003ء)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد1۔كتاب العقائد۔صفحہ205

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ