سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(56) جنابت اور حیض کی حالت میں قرآن کی تلاوت اور مسجد میں داخلہ

  • 20949
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1902

سوال

(56) جنابت اور حیض کی حالت میں قرآن کی تلاوت اور مسجد میں داخلہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

براہ مہربانی ایک سوال کاجواب(ماہنامہ) الحدیث میں شائع فرمادیں۔کیا  جنابت اور حیض کی حالت میں قرآن پڑھنا اور مسجد میں داخل ہونا حرام ہے؟( عابدہ پروین،لاہور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ سوال درج ذیل صورتوں پر مشتمل ہے:

1۔حالت جنابت میں قرآن مجید پڑھنا

2۔حالت حیض میں قرآن مجید پڑھنا

3۔جنبی کامسجد میں داخل ہونا

4۔حائضہ کا مسجد میں داخل ہونا

مندرجہ بالا صورتوں کے جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں:

1۔حالت جنابت میں قرآن مجید پڑھنا جائز نہیں ہے۔سیدنا علی بن ابی طالب  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو قرآن پڑھنے سے ،جنابت کے علاوہ کوئی چیز نہیں روکتی تھی۔

(سنن ابی داود 229 وسندہ حسن لذاتہ وصححہ الترمذی:146 وابن خذیمہ :208 وابن حبان،الاحسان :799/796 الموارد :192،193 وابن الجارود :94 والحاکم 4/107 ح7083 والذہبی والبغوی فی شرح السنۃ 2/42 ح273 وابن السکن وعبدالحق الاشبیلی کما فی التلخیص الجیر 1/139ح189)

اس حدیث کے راوی امام شعبہ نے فرمایا:"صحیح ابن خزیمہ 1/104 ح208 وسندہ صحیح)

امام شعبہ سے اس کے خلاف کچھ بھی ثابت نہیں ہے۔

حافظ ابن حجر العسقلانی  رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:

"وَالْحَقُّ أَنَّهُ مِنْ قَبِيلِ الْحَسَنِ يَصْلُحُ لِلْحُجَّةِ "

اور حق یہ ہے کہ یہ(حدیث) حسن کی قسم سے ہے،حجت ہونے کے لائق ہے۔(فتح الباری 1/408ح305)

اس حدیث کے راوی عبداللہ بن سلمہ کی توثیق جمہور محدثین سے ثابت ہے اور ائمہ کرام کی اس تصیح سے واضح ہواکہ انھوں نے یہ حدیث اختلاط سے پہلے بیان کی ہے۔

ایک دوسری سند کے ساتھ سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے موقوفاً ثابت ہے کہ قرآن مجید اس وقت تک پڑھو جب تک جنبی نہ ہوجاؤ اور اگر جنابت لاحق ہوجائے تو پھر ایک حرف(بھی) نہ پڑھو۔(سنن الداقطنی 1/118 ح419 وقال:" صحیح عن علی"وسندہ حسن)

یعنی تمھیں قرآن مجید پڑھنے سے جنابت کے علاوہ کوئی چیز نہ روکے ،تو معلوم ہوا کہ جنابت کی صورت میں قرآن مجید پڑھنا نہیں چاہیے۔

مشہور تابعی ابو وائل شقیق بن سلمہ نے فرمایا:جنبی اور حائضہ(دونوں) قرآن نہ پڑھیں۔(مصنف ابن ابی شیبہ 1/102 ح1085 وسندہ صحیح)

ان کے مقابلے میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے نزدیک جنبی کے لیے ایک دوآیتیں پڑھنا جائز ہے۔

(مصنف ابن ابی شیبہ بحوالہ تغلیق التعلیق 2/172  وسندہ صحیح عمدۃ القاری 3/274نیز دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ مطبوع 1/102ح1089 اور صحیح بخاری قبل ح 305)

امام محمد بن علی الباقر کے نزدیک بھی جنبی کا ایک دو آیتیں پڑھنا جائز ہے۔دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ (1/102 ح1088 وسندہ صحیح)

خلاصہ التحقیق:۔

راجح یہی ہے کہ جنبی کے لیے قرآن مجید کی تلاوت جائز نہیں ہے تاہم وہ مسنون اذکار مثلاً وضوسے پہلے"بسم اللہ"  پڑھ سکتا ہے جیسا کہ دوسرے دلائل سے ثابت ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  ہر وقت اللہ کا ذکر فرماتے تھے۔دیکھئے صحیح مسلم(373)

2۔حالت حیض میں قرآن مجید پڑھنا جائز نہیں ہے۔

ایک روایت میں آیاہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:جنبی اور حائضہ(عورت) قرآن میں سے کچھ بھی نہ پڑھیں۔(سنن الترمذی :131 وسنن ابن ماجہ :595 وسندہ ضعیف)

لیکن یہ روایت اسماعیل بن عیاش کی غیر شامیوں سے روایت کی وجہ سے ضعیف ہے ۔دیکھئے سنن الترمذی (131 بتحقیقی)

بعض علماء کے نزدیک حائضہ کاقرآن مجید پڑھنا(مشروط) جائز ہے اور بعض علماء اسے ناجائز سمجھتے ہیں جن میں سے ابو وائل  رحمۃ اللہ علیہ  کا قول گزر چکا ہے ۔بعض علماء کے نزدیک حائضہ(اگرحافظہ ہے تو اس) کے لیے قراءت قرآن جائز ہے ورنہ وہ قرآن بھول سکتی ہے۔دیکھئے خواجہ محمد قاسم  رحمۃ اللہ علیہ  کی کتاب" قَدْ قَامَتْ الصَّلَاةُ"(ص:96)

خلاصہ التحقیق:۔

حائضہ کے لیے تلاوت قرآن جائز نہیں ہے لیکن اگروہ حافظہ یا معلمہ ہو تو حالت اضطرار کی وجہ سے اس کے لیے یہ عمل جائز ہے۔واللہ اعلم۔

3۔جنبی کا مسجد میں داخل ہونا(بغیر شرعی عذر کے) جائز نہیں ہے۔

سیدہ عائشہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"لا أحل المسجد لحائض ولا جنب"

"پس بے شک میں مسجد کو حائضہ اور جنبی کے لیے  حلال قرار نہیں دیتا۔(سنن ابی داود :232 وسندہ حسن صحیح ابن خزیمہ:1327)

اس حدیث کی راویہ جسرہ بنت دجاجہ کی حدیث قول راجح میں حسن کے درجے سے نہیں گرتی اور افلت بن خلیفہ العامری صدوق ہیں،ان پر جرح مردود ہے۔

ایک مشہور حدیث میں آیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  جب اعتکاف  کی حالت میں مسجد میں ہوتے تو اپنا سرمبارک باہر نکالتے۔سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   اپنے حجرے سے ہی آپ کے سر مبارک کی کنگھی کرتی تھیں اور وہ حالت حیض میں ہوتی تھی۔(دیکھئے صحیح البخاری :296)

اس سے بھی جسرہ بنت دجاجہ کی حدیث کے بعض مفہوم کی تائید ہوتی ہے۔بعض علماء نے سورۃ النساء کی آیت:43

"وَلَا جُنُبًا إِلَّا عَابِرِي سَبِيلٍ حَتَّىٰ تَغْتَسِلُوا"

  سے استدلال کیا ہے کہ اگر جنبی کا راستہ ہی مسجد میں سے ہے تو وہ(غسل وغیرہ کے لیے) گزر سکتا ہے۔

4۔حائضہ کا بھی مسجد میں داخل ہونا جائز نہیں ہے۔اس کی دلیل شق نمبر 3 کے تحت گزر چکی ہے ۔والحمدللہ(28/مئی 2007ء) (الحدیث:39)

حائضہ اور جنبی کا مسجد میں داخلہ؟

سوال۔میں حائضہ عورت اور جنبی کا مسجد میں آنا حلال نہیں کرتا(عن عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سنن ابی داود:232) آپ نے اسے حسن کہا ہے جبکہ شیخ البانی  رحمۃ اللہ علیہ  اور حافظ عبدالرؤف نے ضعیف کہاہے مفصل دلائل سے آپ ا پنا"حسن" کا حکم ثابت کریں؟(محسن سلفی،کراچی)

الجواب۔روایت مذکورہ کو امام بیہقی  رحمۃ اللہ علیہ  نے السنن الکبری(2/442،443) میں ابوداود کی سند سے روایت کیا ہے اور اسے ابن خذیمہ(1327) اور ابن سید الناس نے صحیح قراردیا ہے۔ابن القطان الفاسی اسے حسن قراردیتے تھے جبکہ ابن حزم اور عبدالحق الاشبیلی اسے ضعیف سمجھتے تھے۔

یہ روایت افلت بن خلیفہ نے جسرہ بنت دجاجہ:سمعت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کی سند سے بیان کی ہے۔راقم الحروف کے نزدیک یہ سن حسن ہے۔

افلت بن خلیفہ کے بارے میں احمد بن حنبل  رحمۃ اللہ علیہ  نے"ماأرى به بأساً"اور دارقطنی  رحمۃ اللہ علیہ  نے صالح کہا۔ابن حبان نے الثقات میں ذکر کیا۔ابن خذیمہ نے ان کی حدیث کوصحیح قراردیا۔

ابوحاتم الرازی نے کہا"شیخ"

حافظ ذہبی بتاتے ہیں کہ"شیخ" کا لفظ نہ جرح ہے اور نہ توثیق اور استقراء سے آپ پر ظاہر ہوجائے گا کہ وہ(ابو حاتم کے نزدیک) حجت نہیں ہے۔

(میزان الاعتدال ج2 ص385 ترجمۃ العباس بن الفضل العدنی)

کسی راوی کا(امام مالک  رحمۃ اللہ علیہ  اور شعبہ رحمۃ اللہ علیہ  وغیرہماکی طرح روایت میں) حجت نہ ہونا، مجروح ہونے کی دلیل نہیں ہے بشرط یہ کہ اس کی توثیق بھی موجود ہو۔لہذا افلت مذکور کم از کم حسن الحدیث راوی تھے۔

حافظ ابن حجر  رحمۃ اللہ علیہ  نے لکھا:"صدوق(تقریب التہذیب :546)

حافظ ذہبی نے بھی انھیں"صدوق" ہی لکھا ہے۔(الکاشف 1/85)

ان پر ابن حزم،بغوی اورخطابی کی جرح مردود ہے۔احمد بن حنبل  رحمۃ اللہ علیہ  سے جرح باسند صحیح ثابت نہیں۔

جسرہ بنت دجاجہ کو امام معتدل العجلی،ابن خذیمہ اور ابن حبان نےثقہ قراردیا ہے جبکہ امام بخاری  رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا "عند جسرة عجائب" جسرہ کے پاس عجیب روایتیں ہیں۔

ابن القطان الفاسی کے نزدیک یہ جرح اس روایت کے ساقط ہونے کے لیے کافی نہیں ہے۔جسرہ پر ابن حزم کی جرح بھی باطل ہے لہذا  راجح یہی ہے کہ جسرہ مذکورہ کی روایت حسن ہوتی ہے۔اس روایت کے بہت سے شواہد بھی ہیں لہذا یہ ان کے ساتھ صحیح لغیرہ ہے۔والحمدللہ۔(شہادت ،مئی 2003ء)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد1۔كتاب العقائد۔صفحہ202

محدث فتویٰ

تبصرے