سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(55) حالت جنابت اور قرآن کی قراءت

  • 20948
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-05
  • مشاہدات : 751

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

درج ذیل حدیث کی تحقیق کیا ہے:

سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  جب تک غسل کی حاجت والے نہ ہوتے ہمیں قرآن پڑھاتے تھے۔

(صلوٰۃ الرسول مع القول المقبول ص 127 حدیث:58 بحوالہ سنن ترمذی حدیث 146 سنن ابی داود حدیث :229)

شیخ البانی  رحمۃ اللہ علیہ نے اسے ضعیف کہاہے۔حافظ عبدالرؤف حفظہ اللہ نے بھی تفصیلی بحث کے ساتھ اس حدیث پرضعیف کا حکم لگایا ہے۔جبکہ آپ نے تسہیل الوصول الیٰ تخریج صلوۃ الرسول میں اسے حسن قرار دیا۔تفصیل سے وضاحت کریں،صحیح موقف کیا ہے؟ (محمدمحسن سلفی ،کراچی)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

روایت مذکورہ کو ابوداود(229) نسائی(267) اور ابن ماجہ(594)نےشعبہ سے اور ترمذی(146) نے اعمش اور(محمد بن عبدالرحمان) بن ابی لیلیٰ سے،ان تینوں نے عمرو بن مرہ عن عبداللہ بن سلمہ عن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی سند سے بیان کرتے ہیں۔

اس روایت کو ترمذی نے"حسن صحیح" اور ابن خزیمہ(208)ابن حبان (المورد:192،193)ابن الجارود(94) حاکم(4/107) اور ذہبی وغیرہم نے صحیح کہاہے۔

حافظ ابن حجر العسقلانی  رحمۃ اللہ علیہ  نے لکھا ہے:

"وَالْحَقُّ أَنَّهُ مِنْ قَبِيلِ الْحَسَنِ يَصْلُحُ لِلْحُجَّةِ "

اور حق یہ ہے کہ یہ روایت حسن کی قسم سے ہے(اور)استدلال کے لیے مناسب ہے۔(فتح الباری ج1ص 408 ح305)

بعض لوگوں نے اس حدیث پر دو طرح سے جرح کی ہے:

1۔عبداللہ بن سلمہ کا تفرد

اس کا جواب یہ ہے کہ عبداللہ بن سلمہ کو یعقوب بن شیبہ،العجلی المعتدل،ابن عدی اور جمہور محدثین نے موثق(ثقہ،صدوق وغیرہ) قرار دیا ہے لہذا ابو حاتم اور ابواحمد الحاکم الکبیر کی جرح مردود ہے۔

2۔عبدللہ بن سلمہ کا اختلاط

اس کا جواب یہ ہے کہ اس اختلاط کا علم عبداللہ مذکور کے شاگرد عمرو بن مرہ سے ہواہے اور اس حدیث کے راوی بھی عمرو بن مرہ ہی تھے لہذا یہ دلیل ہے کہ عمرو بن مرہ(ثقہ امام) نے عبداللہ بن سلمہ مذکور سے یہ روایت قبل ازاختلاط ہی سنی ہے ۔محدثین کرام کا اسے صحیح وحسن قرار دینا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے نزدیک یہ روایت عبداللہ بن سلمہ نے اختلاط سے پہلے بیان کی ہے۔

الکامل لابن عدی میں ہے:

"هذا الحديث قال شعبة روى عبد الله بن سلمة هذا الحديث بعد ما كبر وقال شعبة "

"اور شعبہ نے کہا:عبداللہ  بن سلمہ نے یہ حدیث بوڑھا ہونے کے بعد بیانکی ہے۔(4/1487)

یہ قول دووجہ سےمردود ہے:

اول:بے سند ہے۔

دوم:اگر اسے احمد بن حنبل  رحمۃ اللہ علیہ  عن سفیان بن عیینہ کی سند سے منسوب کیاجائے تو ابن ابی عصمہ کی توثیق اور ابن عیینہ کی تصریح سماع مطلوب ہے ،امام شعبہ سے اس قول کے برعکس بھی مروی ہے۔ابن خذیمہ (ج1ص104) نے صحیح سند سے نقل کیا کہ شعبہ نے کہا: "هذا ثلث رأس مالي" یہ(حدیث) میرے سرمائے کا ایک تہائی ہے۔

دارقطنی (ج1 ص119 ح423) نے حسن  سند کے ساتھ شعبہ سے نقل کیا:"مااحدث بحديث  احسن منه"میں اس حدیث سے بہتر کوئی حدیث بیان نہیں کرتا۔

سنن دارقطنی(1/118 ح419) اور السنن الکبریٰ للبیہقی(1/89) میں ابو الغریف عن علی کی سند سے موقوفاً مروی ہے کہ جنبی شخص قرآن سے ایک حرف بھی نہ پڑھے۔(ملخصاً)

دارقطنی  رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا:"ھو صحیح عن علی"

ابوالغریف عبیداللہ بن خلیفہ الہمدانی کو ابن حبان اور دارقطنی وغیرھما نے موثق قرار دیا ہے۔

اس پر صرف ابو حاتم الرازی نے جرح کی ہے جو کہ جمہور کی توثیق کے مقابلے میں مردود ہے۔امام دارقطنی  رحمۃ اللہ علیہ  کے قول"ھو صحیح عن علی" کے باوجود ابواسحاق الحوینی المصری صاحب یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ"لم یوثقہ سوا ابن حبان" اسے ابن حبان کے سوا کسی نے ثقہ قرار نہیں دیا۔(دیکھئے غوث المکددد تخریج منتقی ابن الجارود ج1 ص 97)

ابوالغریف مذکور کے بارے میں حافظ ابن حجر نے لکھا ہے:"صدوق رمی بالتشیع"(تقریب التہذیب ص224)

یہ روایت مسند احمد(1/110ح872) اور مسند ابی یعلیٰ (1/300ح365) میں بھی بقول راجح:موقوفاً ہی مروی ہے۔والحمدللہ

خلاصہ:۔

عبداللہ بن سلمہ کی روایت حسن لذاتہ ہے اور ابوالغریف وغیرہ کے شواہد کی رو سے صحیح لغیرہ ہے۔

تنبیہ:۔

راقم الحدیث کی صرف وہ کتاب معتبر ہے جس کے آخر میں میرے دستخط ہیں یا اُسے مکتبۃ الحدیث حضرو/مکتبہ اسلامیہ لاہور،فیصل آباد سے شائع کیا گیا ہے۔(شہادت،مئی 2003ء)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد1۔كتاب العقائد۔صفحہ199

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ