سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(48) نذر اور تقدیر

  • 20941
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1750

سوال

(48) نذر اور تقدیر

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حدیث میں ہے کہ"نذر سے تقدیر نہیں بدلتی لیکن بخیل کامال نکل جاتاہے"اس کا کیا مطلب ہے۔نذرونیاز اللہ کے نام پر جائز ہے یاسنت ہے کہ نہیں؟

(عبدالعزیز بن) عبداللہ بن باز کے فتاویٰ  میں انھوں نے یہ فرمایا ہے کہ اگر کسی نے نذر مانی ہے تو پوری کرے مگر آئندہ ایسا نہ کرے اور پھر مندرجہ بالاحدیث بیان کی۔(محمد عادل شاہ،برطانیہ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"لا يأتي ابن آدم النذر بشيء لم يكن قدر له ولكن يلقيه النذر إلى القدر قد قدر له فيستخرج الله به من البخيل فيؤتي عليه ما لم يكن يؤتي عليه من قبل... "

ابن آدم(انسان) کو  نذر کوئی چیز نہیں دیتی جو اُس کی  تقدیر میں نہ ہو لیکن نذر اُسے اُس تقدیر کی طرف لے جاتی ہے جو اُس کے مقدر میں تھی،البتہ اللہ اس نذر کے ذریعے سے بخیل سے اس کا مال نکلواتا ہے لہذا وہ شخص وہ(مال وغیرہ صدقے میں) دیتا ہے جو وہ اس سے پہلے نہیں دیتا تھا۔(صحیح بخاری :6694 صحیح مسلم :1640)

اس حدیث سے ثابت شدہ مسئلے کی تشریح میں مولانا محمد داود راز  رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:

"اکثر لوگوں کا قاعدہ ہے کہ یوں تو اللہ کی راہ میں اپنا پیسہ خرچ نہیں کرتے جو کوئی مصیبت آن پڑے اس وقت طرح طرح کی منتیں اور نذریں مانتے ہیں۔باب کی حدیث میں۔۔۔ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ نذر اور منت ماننے سے تقدیر نہیں پلٹ سکتی ہوتا وہی ہے جو تقدیر میں ہے۔مسلم کی حدیث میں صاف یوں ہے کہ نذر نہ مانا کرو اس لیے کہ نذر سے تقدیر نہیں پلٹ سکتی۔حالانکہ نذر کاپورا کرنا واجب ہے۔مگر آپ نے جو نذر سے منع فرمایا وہ اس نذرسے جس میں یہ اعتقاد ہوکہ نذر ماننے سےبلاٹل جائے گی جیسے اکثر جاہلوں کا عقیدہ ہوتا ہے لیکن اگر یہ جان کر نذر کرے کہ نافع اورضار اللہ ہی ہے اور جو اس نے قسمت میں لکھا ہے وہی ہوگا تو ایسی نذر منع نہیں بلکہ اس کا پورا کرناایک عبادت اور واجب ہے۔اب ان لوگوں کے حال پر بہت ہی افسوس ہے جو خدا کو چھوڑ کر دوسرے بزرگوں یادرویشوں کی نذر مانیں وہ علاوہ گنہگار ہونے کے اپنا ایمان بھی کھوتے ہیں کیونکہ نذر ایک مالی عبادت ہے اس لیے غیر اللہ کی نذر ماننے والا مشرک ہوجاتا ہے۔"

(صحیح بخاری مطبوعہ مکتبہ قدوسیہ لاہور ج 8 ص 64،65قبل ح6608)

مثلاً ایک آدمی کی اولاد نہیں ہے،اسے چاہیے کہ صدقات وغیرہ اورنیک اعمال میں مصروف رہ کر مسلسل دعائیں کرتا رہے،لیکن اگر وہ ایسا کرنے کے بجائے یہ نذر مانتا ہے کہ اے اللہ! اگر تُونے مجھے بیٹا دے دیا تو میں مسجد،مدرسہ یا ہسپتال وغیرہ تعمیر کروں گا۔ایسی نذر ماننا ممنوع ہے اور اگر مان لے تو اسے  پورا کرناواجب ہے۔

دوسری طرف ایک شخص ہے ،اسے اللہ نے بیٹا دےدیایا کوئی نعمت عطا فرمائی تو خوش ہوکر اس نے نذر مان لی:"اے اللہ تیرا شکر ہے ،میں تیرے دین کے لیے فلاں کام کروں گا۔"

یہ نذر بالکل صحیح اور پسندیدہ ہے۔

اللہ کے نام پر نذر ونیاز جائز  اور صحیح ہے بلکہ نذرونیاز ہوتی ہی صرف ایک اللہ کے لیے ہے۔غیراللہ کے نام پر نذرو نیاز حرام ہے۔اُمید ہے کہ آپ یہ مسئلہ سمجھ چکے ہوں گے۔واللہ اعلم۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد1۔كتاب العقائد۔صفحہ185

محدث فتویٰ

تبصرے