سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(47) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود اور فرشتوں کا اسے پہنچانا

  • 20940
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-04
  • مشاہدات : 1459

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:مجھ پر کثرت سے درود بھیجو کیونکہ بے شک اللہ نے میری قبر پر ایک فرشتہ مقرر کیا ہےجب میری اُمت میں سے کوئی شخص مجھ پر درود پڑھے گا تو یہ فرشتہ مجھے کہے گا:اےمحمد صلی اللہ علیہ وسلم !  فلاں شخص کے فلاں بیٹے نے اس وقت آپ پردرود بھیجا ہے۔

اس روایت کوشیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی مشہور کتاب السلسلۃ الصحیحۃ میں ذکر کیا ہے۔(ج4 ص 43 ح1530)

 کیا یہ روایت صحیح ہے ؟(راحیل شاہ،برطانیہ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمۃ اللہ علیہ  نے اس روایت کی دو سندیں پیش کی ہیں:

1۔ "عن محمد بن عبدالله بن صالح المروزي حدنا بكر بن خداش عن فطر بن خليفة عن ابي الطفيل عن ابي بكر الصديق رضي الله عنه مرفوعاً اي عن رسول الله صلي الله عليه وسلم"(بحوالہ الدیلمی 1/1/31 الصحیحہ 4/44)

اس سند میں محمد بن عبداللہ بن صالح مجہول ہے،جس کے بارے میں البانی   صاحب نے خود لکھا:"لم اعرفه"میں نے اسے نہیں پہچانا۔(الصحیحہ ص44)

دوسرے یہ کہ محمد بن عبداللہ تک محدث دیلمی کی سند تامعلوم ہے۔

خلاصہ یہ کہ یہ سند ثابت نہیں ہے۔

2۔ "إِنَّ لِلَّهِ مَلَكًا أَعْطَاهُ أَسْمَاءَ الْخَلائِقِ كُلَّهَا، وَهُوَ قَائِمٌ عَلَى قَبْرِي، إِذَا مُتُّ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، فَلَيْسَ أَحَدٌ مِنْ أُمَّتِي يُصَلِّي عَلَيَّ صَلَاةً إِلاَّ أَسْمَاهُ بِاسْمِهِ، وَاسْمِ أَبِيهِ، قَالَ: يَا مُحَمَّدُ، صَلَّى عَلَيْكَ فُلانٌ....."

"اللہ نے ایک فرشتے کو مخلوقات کی سماعتیں عطا فرمائی ہیں جو میری وفات کے بعد میری قبر پر کھڑا ہوگا پھر جو کوئی مجھ پر ایک درود پڑھے گا تو وہ کہے گا:اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !  فلاں کے فلاں بیتے نے آپ پر درود پڑھا ہے۔الخ"

(بحوالہ ابوالشیخ بن حیان والطبرانی وغیرہما عن القول البدیع للسخاوی ص 112،الصحیحہ 4/44)

اس سند کا راوی نعیم بن ضمضم مجہول ہے،جسے ہمارے علم کے مطابق کسی نے بھی ثقہ نہیں کہا۔دیکھئے لسان المیزان (6/169 طبعہ جدیدہ 7/213)

اس سند کا دوسرا راوی عمران بن الحمیری مجہول الحال ہے جسے سوائے ابن حبان کے کسی نے بھی ثقہ نہیں قراردیا۔دیکھئے لسان المیزان(4/345،دوسرا نسخہ 5/264)

امام بخاری  رحمۃ اللہ علیہ  نے التاریخ الکبیر(6/416) میں یہ روایت ذکر کرکے "لا يُتَابَعُ عَلَى حَدِيثِهِ" کہہ کر اسکے ضعف کی طرف اشارہ کردیا ہے۔

مجہول راویوں کی ان دوسندوں کے بارے میں البانی  رحمۃ اللہ علیہ  صاحب نے لکھا:

"فالحديث بهذا الشاهد وغيره مما في معناه حسن ان شاء الله تعاليٰ"

پس اس شاہد وغیرہ سے یہ حدیث ان شاء اللہ تعالیٰ حسن ہے۔(الصحیحہ 4/45)

عرض ہے کہ یہ روایت ان دونوں سندوں کے ساتھ ضعیف ومردود ہی ہے اور مجہول راویوں کی روایتیں مردود ہوتی ہیں نہ کہ ضعیف+ضعیف کے خود  ساختے کلیے کے ذریعے سے انھیں حسن قرار دیا جائے۔۔۔!

دوسرے یہ کہ یہ ضعیف روایت اُس صحیح حدیث کے خلاف ہے جس میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"إِنَّ لِلَّهِ مَلائِكَة سَيَّاحِينَ يُبَلِّغُونِي مِنْ أُمَّتِي السَّلامَ"

"بے شک اللہ کے فرشتے زمین میں پھرتے رہتے ہیں،وہ مجھے اپنی اُمت کی طرف سے سلام پہنچاتے ہیں۔

(سنن النسائی 3/43 ح 1283 وھو حدیث صحیح،مسند احمد 1/387،452فضل  الصلوٰۃ علی النبی  صلی اللہ علیہ وسلم  للامام اسماعیل القاضی:21 وسندہ صحیح  ،وصححہ ابن حبان الاحسان 910دوسرا نسخہ 914 والحاکم 2/431ح3576ووافقہ الذہبی)

ایک اعتراض:اس کی سند میں سفیان ثوری مدلس ہیں۔

الجواب۔امام اسماعیل بن اسحاق القاضی نے فرمایا:

"حدثنا مسدد قال:حدثنا يحيٰ عن سفيان:حدثني عبدالله بن السائب عن زاذان عن عبدالله  هو ابن مسعود عن النبي صلي الله عليه وسلم قال:( إِنَّ لِلَّهِ مَلائِكَة سَيَّاحِينَ يُبَلِّغُونِي مِنْ أُمَّتِي السَّلامَ)"

(فضل الصلوٰۃ علی النبی  صلی اللہ علیہ وسلم  ص 11ح 21 وسندہ صحیح)

معلوم ہواکہ امام سفیان ثوری نے سماع کی تصریح کردی ہے اور دوسرے یہ کہ سلیمان بن مہران الاعمش(ثقہ مدلس) نے اُن کی متابعت کررکھی ہے۔

دوسرا اعتراض:اس کی سند میں زاذان راوی شیعہ ہے۔

جواب:زاذان ابوعمر کا شیعہ ہونا ثابت نہیں ہے بلکہ حافظ ابونعیم الاصبہانی نے زاذان کو اہل سنت کے اولیاء میں شمار کیا ہے۔

(دیکھئے حلیۃ الاولیاء(4/199۔204)اور ماہنامہ الحدیث حضرو:14ص25 جمہورمحدثین نے انھیں ثقہ وصدوق قراردیا ہے لہذا زاذان مذکور پر ہر قسم کی جرح مردود ہے،تفصیل کے لیے دیکھئے میرا مضمون"الیاقوت والمرجان فی توثیق ابی عمر زاذان"والحمدللہ (3/نومبر 2008ء)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد1۔كتاب العقائد۔صفحہ182

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ