السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
"میں اس وقت بھی نبی تھا جس وقت آدم کا خمیر بنایاگیا" اس ضمن میں کسی کتاب میں صحیح سند سے کوئی روایت ہے؟ (طاہرندیم ،لاہور)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے:
"قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَتَى وَجَبَتْ لَكَ النُّبُوَّةُ؟"
لوگوں نے کہا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کے لیے نبوت کب واجب ہوئی تھی؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ"
اور نبوت اس وقت واجب ہوئی جب آدم علیہ السلام روح اور جسد کے درمیان تھے۔
(جامع ترمذی،کتاب المناقب ،باب ماجاء فی فضل النبی صلی اللہ علیہ وسلم ح 3609 دلائل النبوہ للبیہقی 2/130 وابونعیم فی الدلائل ص 8ح8 المستدرک للحاکم 2/609 اخبار الصبہان لابی نعیم 2/226 کتاب القدر للفریابی ح14تاریخ بغداد للخطیب 1/146امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا:ھذا حدیث حسن صحیح غریب من حدیث ابی ہریرۃ لانعرفہ الا من ھذا الوجہ)
یہ روایت صحیح ہے۔ولید بن مسلم نے دلائل النبوۃ میں سماع کی تصریح کردی ہے اور اس روایت کے کئی شواہد ہیں۔
2۔سیدنامیسرۃ الفجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے کہا:
"قِيلَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَتَى كُتِبَتْ نَبِيًّا؟"
"اےاللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کب نبی لکھے گئے؟"
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ"
"اور آدم علیہ السلام روح اور جسد کے درمیان تھے"
(مسند احمد 5/59 ح20872،کتاب السنۃ لعبداللہ بن احمد 2/398 ح 864 واللفظ لہ،التاریخ الکبیر للبخاری 7/374 کتاب السنۃ لابن ابی عاصم ح410،کتاب القدر لجعفر بن محمد الفریابی ص 29 ح 17طبقات ابن سعد 7/60 المعجم الکبیر للطبرانی 20/353 ح 822،834 ،ابو یعلیٰ الموصلی اتحاف الخیرۃ المھرۃ للبوصیری 9/8 ح 488 حلیۃ الاولیاء لابی نعیم الاصبھانی 9/53 الحاکم فی المستدرک 2/608،609 وصححہ ووافقہ الذہبی معجم الصحابہ لعبد الباقی بن قانع ج14 ص 5043 ح 1992ء 1993)
اس روایت کی سند صحیح ہے بعض روایتوں میں:
"يَا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَتَى كُنْتَ نَبِيًّا؟"
آپ کب(سے) نبی تھے؟کے الفاظ آئے ہیں۔
3۔میسرۃ الفجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسی روایت عبداللہ بن ابی السجدعاء العبدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی مروی ہے۔
(طبقات ابن سعد 7/59 معجم الصحابہ لعبداللہ بن محمد بن عبدالعزیز البغوی 4/134 ح 1652 معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم الاصبہانی 3/1614 ح 4064 معجم الصحابۃ لعبد الباقی بن قانع البغدادی 9/3328 ح1039 الاحادیث المختارۃ للضیاء المقدسی 9/142،143،123،124)
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
4۔عن رجل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نحو روایۃ میسرۃالفجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ (کتاب السنۃ لابن ابی عاصم ح 411)
5۔عن عبداللہ بن شقیق التابعی مرسلاً نحوروایہ میسرۃ الفجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ
(مصنف ابن ابی شیبہ 14/292/292 ح 36542 کتاب القدر للفریابی ح 15،16 طبقات ابن سعد 1/148)
6۔مطرف بن عبداللہ بن الشخیر التابعی۔مرسل ،بلفظ : "رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَتَى كُنْتَ نَبِيًّا؟ .... قَالَ: «بَيْنَ الرُّوحِ وَالطِّينِ مِنْ آدَمَ" (طبقات ابن سعد 1/148 ،وسندہ ضعیف لارسالہ)
7۔عامر الشعبی التابعی مرسل بلفظ" "مَتَى اسْتُنْبِئْتَ؟ فَقَالَ: «وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ حِينَ أُخِذَ مِنِّي الْمِيثَاقُ" (طبقات ابن سعد 1/148 وسندہ ضعیف جدا مع ارسالہ فیہ جابر بن یزید الجعفی ضعیف جدارارفضی ومہتہم)
8۔"نصر بن مزاحم (ضعيف) :حدثنا قيس(ابن الربيع) (ضعيف) عن جابر الجعفي(ضعيف رافضي متهم) عن الشعبي عن ابن عباس قال: قِيلَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَتَى كُتِبَتْ نَبِيًّا؟ وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ"
(البزار :کشف الاستار 3/112 ح 2364 وسندہ ضعیف جدا منکر)
9۔عرباض بن ساریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"إني عند الله مكتوب: خاتم النبيين صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"
"میں یقیناً اللہ کے ہاں خاتم النبیین ( صلی اللہ علیہ وسلم )لکھا ہواتھا اور:
"وإنّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌ في طِينَتِه "
"بے شک آدم اپنی گوندھی ہوئی مٹی میں تھے"
(شرح السنۃ للبغوی ج13 ص207ح3626 واللفظ لہ وتفسیر البغوی المشکوٰۃ بتحقیقی ح5759واحمد 4/127،128البیہقی فی دلائل النبوۃ 2/130 ابن عساکر فی تاریخ دمشق 35/307 وصحیح ابن حبان الموارد:2093 وصححہ الحاکم 2/600 وتعقبہ الذہبی بقول:ابوبکر(بن ابی مریم)ضعیف"قلت :ولم ینفردبہ تابعہ الثقۃ معاویۃ بن صالح عن سعید بن سوید عن ابن ھلال السلمی عن عرباض بن ساریۃ وابونعیم فی دلائل النبوۃ ح9،وفی حلیۃ الاولیاء 6/89،90 طبقات ابن سعد 1/149 المعجم الکبیر للطبرانی 18/252،253ح629،631 کتاب المعرفۃ والتاریخ لیقوب بن سفیان الفارسی 2/345 التاریخ الکبیر للبخاری 6/68 ت 1736 تفسیر ابن ابی حاتم 1/236 ح 1254 تفسیر ابن جریر الطبری ج1ص 435(سورۃ البقرۃ:129) البزار،کشف الاستار 3/113 ح 2365 وعندہ بعض الالفاظ منکرۃ وسندہ ضعیف من اجل ابی بکر بن ابی مریم وغیرہ)
ابوبکر بن ابی مریم(العنسی) والی روایت ضعیف ہے لیکن معاویہ بن صالح والی روایت حسن ہے اور میں نے معاویہ بن صالح(ثقہ) کی روایت کو ہی اوپر متن میں لکھا ہے اس روایت کے رایوں کا مختصر تعارف درج ذیل ہے:
1۔عرباض بن ساریہ:صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
2۔عبدالاعلیٰ بن ھلال ویقال عبداللہ:تابعی ،لم اجدہ فی تعجیل المنفعۃ روی عنہ سعید بن سوید ویزید بن ایھم ومحمد بن مسلم الزھری(وغیرھم) ترجمۃ فی تاریخ دمشق(35/307) وغیرہ۔وذکرہ ابن حبان فی الثقات (5/128) وصحیح لہ الحاکم(2/600)
"فهو حسن الحديث علي الاقل واسقطه بعض الرواة من السند وهذا لايضر وهو من المزيد في متصل الاسانيد "
3۔سعید بن سوید:قال البخاری :
"سعيد بن سويد قال البخاري لم يصح حديثه وصحح حديثه ابن حبان والحاكم كما تقدم وانظر تعجيل المنفعة( ص ١٥٢ ت ٣٧١) فحديثه لا ينزل عن درجة الحسن وذكره ابن حبان في الثقات(٦/٣٦١)"
4۔معاویہ بن صالح المحصی الحضرمی ،روی لہ مسلم فی صحیحہ وغیرہ ووثقہ احمد والجمہور وقال صاحبا"تحریر تقریب التہذیب:"بل ثقۃ"(3/394 ت 6762)
اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ معاویہ بن صالح والی روایت بلحاظ سند حسن ہے بعض روایتوں میں"اني عبدالله" آیا ہے۔دونوں الفاظ صحیح ہیں۔جس طرح کہ"كتبت"اور"كنت" دونوں الفاظ صحیح ہیں۔
معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عبداللہ اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم ہونا تقدیر میں تخلیق آدم سے پہلے ہی لکھ دیاگیا تھا لہذا اس حدیث کا تعلق مسئلہ تقدیر سے ہے،مسئلہ تحقیق سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم فداہ ابی وامی سے نہیں۔امام فریابی کا اس حدیث(حدیث ابی ہریرۃ وحدیث میسرۃ الفجر) کو کتاب القدر میں ذکر کرنا اس استدلال کی زبردست دلیل ہے۔
محدث عبدالرحمٰن مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ نے بحوالہ ابن ربیع عن ابی نعیم فی الدلائل وغیرہ کی ایک روایت نقل کی ہے:
"كنت أول النبيين في الخلق وآخرهم في البعث"
"یعنی میں انبیاء علیہ السلام میں سے سب پہلے تخلیق کیاگیا ہوں اور سب سے آخر میں زندہ ہوکر اُٹھوں گا۔(تحفۃ الاحوذی ج4 ص 293 نسخہ ہندیہ)
یہ روایت دلائل النبوۃ لابی نعیم(1/6ح3) الفوائد لتمام الرازی(2/15ح1003) الکشف والبیان للثعلبی (108 الاحزاب :8) تفسیر ابن ابی حاتم کمافی تفسیر ابن کثیر(3/478وفی نسخہ6/383) ابوبکر بن لال کمافی ہامش فردوس الاخبار للدیلمی(3/331ح4883)اور الکامل لابن عدی(3/1209) میں:"سعيد بن بشير حدثنا قتاده عن الحسن عن ابي هريره رضي الله عنه قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم" كی سند سے مروی ہے۔
سعید بن بشیر ازدی ضعیف(راوی )تھا۔(دیکھئے تقریب التہذیب ص120)
اسے ابن معین اور جمہور محدثین نے ضعیف قراردیا ہے۔محمد بن عبداللہ بن نمیر نے کہا:
"وقال ابن نمير: "سعيد بن بشير: منكر الحديث، وليس بشيء، ليس بقوي الحديث. يروي عن قتادة المنكرات"
"سعید بن بشیر منکر حدیثیں بیان کرنے والا ،کچھ چیز نہیں ،حدیث میں قوی نہیں تھا ،وہ قتادہ سے منکر روایتیں بیان کرتا تھا۔(الجرح والتعدیل 4/7 وسندہ صحیح)
الساجی نے کہا:
"حديث عن قتادة بمناكير"
"اس نے قتادہ سے منکر روایتیں بیان کی ہیں"(تہذیب التہذیب 4/10)
یعنی سعید بن بشیر جب قتادہ سے روایت کرے تو وہ روایت منکر ہوتی ہے۔ کسی معتدل محدث نے اس کی قتادہ سے روایت کو صحیح یاحسن قرار نہیں دیا۔بقول ابن عدی خلید بن دعلج(ضعیف) نے سعید بن بشیر کی متابعت کررکھی ہے۔مجھے یہ روایت نہیں ملی۔
قتادہ اور حسن بصری :دونوں مشہور مدلس راوی تھے لہذا اگر ان تک سند صحیح ہوتی تو یہ بھی ضعیف تھی کیونکہ بشرط صحت وعن سے روایت کررہے ہیں۔
خلاصہ یہ کہ یہ سند ضعیف ومنکر ہے۔عصرحاضر کےمشہور محقق شیخ ناصر الدین البانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس روایت کو"ضعیف"قراردیاہے۔دیکھئے السلسلۃ الضعیفہ(2/115غ661)
طبقات ابن سعد میں ہے:
"عن قتادة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "كنت أول الناس في الخلق وآخرهم في البعث".(1/149)
اسی کی دو سندیں ہیں:
1۔عبدالوہاب بن عطاء(مدلس) عن سعید بن ابی عروبۃ(مدلس) عن قتادہ...الخ
یہ سند تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے۔
2۔عمرو بن عاصم الکلابی:اخبرنا ابوبلال(محمد بن سلیم الراسبی:ضعیف ضعفہ الجمہور...الخ یہ سند ضعیف ہے۔
یہ دونوں سندیں اگر صحیح بھی ہوتیں تو یہ روایت قتادہ تابعی کے ارسال کی وجہ سے ضعیف ہے۔(شہادت،اگست ستمبر 2003ء)
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب