سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(41) قبر میں نماز اور ثابت البنانی رحمۃ اللہ علیہ

  • 20934
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1082

سوال

(41) قبر میں نماز اور ثابت البنانی رحمۃ اللہ علیہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک روایت میں آیا ہے کہ ثابت البنانی  رحمۃ اللہ علیہ  اپنی قبر میں نماز پڑھتے تھے۔اس روایت کی حقیقت کیاہے؟ (ماسٹر انور سلفی،حاصل پور ضلع بہاولپور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حماد بن سلمہ سے روایت ہے کہ ثابت(بن اسلم البنانی  رحمۃ اللہ علیہ ) نے کہا:

"اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ أَعْطَيْتَ أَحَدًا الصَّلَاةَ فِي قَبْرِهِ ، فَأَعْطِنِي الصَّلَاةَ فِي قَبْرِي "

"(اے اللہ) اگر تو نے کسی کو اس کی قبر میں نماز پڑھنے کی اجازت دی ہے تو مجھے(بھی) میری قبر میں نماز پڑھنے کی توفیق عطا فرما۔(طبقات ابن سعد 7/233 وسندہ صحیح)

عبداللہ بن شوذب سے روایت ہے:میں نے ثابت البنانی کو کہتے ہوئے سنا:

"اللهُمَّ إِنْ كُنْتَ أَعْطَيْتَ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ ، يُصَلِّي لَكَ فِي قَبْرِهِ : فَأعْطِنِيهِ"

"اے میرے اللہ!اگر تو نے اپنی مخلوق میں سے کسی کوقبر میں نماز پڑھنے کی اجازت دی ہے تو مجھے(بھی) یہ اجازت دینا۔

(المعرفۃ والتاریخ لیعقوب بن سفیان الفارسی 2/99 وسندہ حسن،حلیۃ الاولیاء 2/319)

یہ ایک دعاہے جو ثابت البنانی  رحمۃ اللہ علیہ  نے مانگی ہے۔

یوسف بن عطیہ(متروک) نے کہا:

"فَأذن لِثَابِت أن يُصَلِّي فِي قَبره"

پس ثابت کو ان کی قبر میں نماز پڑھنے کی اجازت مل گئی۔(حلیۃ الاولیاء 2/319)

یہ روایت یوسف بن عطیہ کیوجہ سے موضوع ہے یوسف بن عطیہ کے بارے میں امام بخاری  رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا:"منکر الحدیث"(کتاب الضعفاء بتحقیقی:422)

نسائی نے کہا:"متروک الحدیث"(کتاب الضعفاء:617)

جسر(بن فرقد) سے روایت ہے کہ اس نے ثابت البنانی کوقبر میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا(حلیۃ الاولیاء 2/319)

اس کی سند درج ذیل ہے:

"حدثنا عثمان بن محمد العثماني ، قال : ثنا إسماعيل بن علي الكرابيسي ، قال : حدثني محمد بن سنان القزاز ، قال : ثنا شيبان بن جسر عن أبيه"(حلیةالاولیاء 2/319)

یہ سند موضوع ہے ۔جسر کے بارے میں امام دارقطنی  رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا"متروک"

(سوالات البرقانی:70) وہ ضعیف متروک ہے۔(تحفۃ الاقویاء فی تحقیق کتاب الضعفاء:54)

جسر کا شاگرد شیبان نا معلوم ہے ۔شیبان کا شاگرد محمد بن سنان(بن یزید) ضعیف ہے۔(تقریب التہذیب :5936)

محمد بن سنان کا شاگرد اسماعیل بن الکرابیسی مجہول الحال ہے۔اس کے شاگرد ابوعمروعثمان بن محمد بن عثمان بن محمد بن عبدالملک کی توثیق نامعلوم ہے یعنی یہ سند ظلمات ہے۔

تنبیہ:۔

اس مردود روایت کو عبدالحئی لکھنوی صاحب نے بحوالہ حلیۃ الاولیاء:

"حدثنا عثمان بن محمد العثماني ، قال : ثنا إسماعيل بن علي  الكرابيسي ، قال : حدثني محمد بن سنان :حدثنا سنان عن ابيه" کی سند سے نقل کیاہے۔

(دیکھے اقامۃ الحجۃ علی ان لاکثارفی التعبد لیس ببدعۃ ص 24مجموعہ رسائل لکھنوی ج2ص 174)

لکھنوی صاحب سے اسے زکریا دیوبندی صاحب نے اپنی کتاب"فضائل نماز"(ص 69،70/تیسرا باب:خشوع وخضوع کے بیان میں) میں نقل کرکے عوام الناس کے سامنے پیش کردیاہے۔)نیز دیکھئے فضائل اعمال ص 361)

زکریا صاحب سے اسے کسی نور محمد قادری(دیوبندی) نامی شخص نے بطور استدلال وحجت نقل کرکے"قبر میں نماز"اور "عقیدہ حیات قبر" کاثبوت فراہم کرنے کی کوشش کی ہے۔دیکھئے دیوبندیوں کا ماہنامہ"الخیر"ملتان(جلد 24 شمارہ:5جون 2006ءص 25/ 249)

عرض ہے کہ محمد بن سنان القزاز کے شدید ضعف اور الکرابیسی والعثمانی کی جہالت کے ساتھ ساتھ سنان اور اس کے باب(ابوسنان) کا کوئی اتا پتا معلوم نہیں ہے۔

عین ممکن ہے کہ عبدالحئی صاحب والے نسخے میں"شیبان بن جسر عن ابیہ" کو"سنان عن ابیہ" لکھ دیا گیا ہو۔

اس مردود روایت کو عبدالحئی لکھنوی صاحب کا بغیر تحقیق وجرح کے نقل کرنا اور پھر ان کی کورانہ تقلید میں زکریا صاحب،نور محمد قادری دیوبندی اور مسئولین ماہنامہ"الخیر" ملتان کا عام لوگوں کے سامنے بطور حجت واستدلال پیش کرنا غلط حرکت ہے۔علماء کو چاہیے کہ عوام کے سامنے صرف وہی روایات پیش کریں جوکہ صحیح وثابت ہوں۔اس سلسلے میں علماء کو چاہیے کہ پوری تحقیق کریں ورنہ پھر خاموش رہنا ہی بہتر ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے کہ:

"مَنْ صَمَتَ نَجَا " "جو خاموش رہا اس نے نجات پائی"(کتاب الزہد لابن المبارک :385 وسندہ حسن ،سنن الترمذی :2501)

خلاصہ التحقیق:۔

یہ بات تو ثابت ہے کہ مشہور تابعی ثابت بن اسلم البنانی  رحمۃ اللہ علیہ  قبر میں نماز پڑھنے کی دعا کرتے تھے مگر یہ بات ثابت نہیں ہے کہ انھوں نے قبر میں نماز پڑھی ہے۔ضعیف ومتروک راویوں کی روایات کی بنیاد پر اس قسم کے دعوے کرنا کہ ثابت  رحمۃ اللہ علیہ  قبر میں نماز پڑھتے تھے ،غلط اور مردود ہے۔(5/جمادی الاولیٰ 1427ھ) (الحدیث:28)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد1۔كتاب العقائد۔صفحہ171

محدث فتویٰ

تبصرے