السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بعض لوگ عبداللہ بن سبا یہودی کے وجود کا انکار کرتے ہیں۔آپ سے گزارش ہے کہ اس سوال کا مفصل جواب بیان فرمائیں تاکہ اصل حقیقت واضح ہوجائے۔(خالد بن علی گوہر دایو،ملخصاً)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عبداللہ بن سبا یہودی کا وجود ایک حقیقت ہے جس کا ثبوت صحیح بلکہ متواترروایات سے ثابت ہےمثلاً:
1۔امام احمد بن زہیر بن حرب عرف ابن ابی خیثمہ فرماتے ہیں:
"حدثنا عمرو بن مرزوق قال حدثنا شعبة عن سلمة بن كهيل عن زيد بن وهب قال قال علي: مالي ولهذا الخبيث الأسود، ثم قال: معاذ الله أن أضمر ... يعني عبد الله ابن سبأ، وكان يقع في أبي بكر وعمر"
"سیدنا علی( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) نے فرمایا:اس کالے خبیث یعنی عبداللہ بن سبا کامیرے ساتھ کیاتعلق ہے؟اور وہ(ابن سبا) ابوبکر اور عمر( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) کو بُرا کہتا تھا۔(التاریخ الکبیر لابن ابی خیثمہ ص 580ح1398،وسندہ صحیح)
2۔حجیہ الکندی سے روایت ہے کہ(سیدنا) علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے منبر پر فرمایا:یہ کالاابن السوداء اللہ اور رسول پر جھوٹ بولتاہے۔الخ(الجزء الثالث والعشرون من حدیث ابی الطاہر محمد بن احمد بن عبداللہ بن نصر الذہلی :157وسندہ حسن،تاریخ ابن ابی خیثمہ :1398،تاریخ دمشق 31/6)
ابن سوداء سے مراد ابن سبا ہے۔
3۔عبیداللہ بن عتبہ(بن مسعود) رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
"إني لست بسبائي ولا حروري"
میں نہ تو سبائی(عبداللہ بن سبا والایعنی شیعہ) ہوں اور نہ حروری(خارجی) ہوں۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ج 11 ص 299،300ح31227،دوسرا نسخہ ح 31761وسندہ صحیح)
4۔امام یزیدبن زریع رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 192ھ) نے فرمایا:
"حدثنا الكلبى - وكان سبائيا"
ہمیں(محمد بن السائب) الکلبی نے حدیث بیان کی اور وہ سبائی(یعنی عبداللہ بن سبا کی پارٹی میں سے )تھا۔(الکامل لابن عدی ج6 ص 2128 وسندہ صحیح ،دوسرا نسخہ ج 7ص275)
5۔محمد بن السائب الکلبی نےکہا:"اناسبائی"میں سبائی ہوں۔
(الضعفاء للعقیلی 4/77 وسندہ صحیح،المجروحین لابن حبان 2/253وسندہ صحیح)
لفظ سبائی کی تشریح میں امام ابوجعفر العقیلی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"هم صنف من الرافضة اصحاب عبد اللّه بن سبا"
یہ رافضیوں کی ایک قسم ہے،یہ عبداللہ بن سبا کے پیروکار ہیں۔(الضعفاء الکبیر 4/77)
6۔امام عامر بن شراحیل الشعبی رحمۃ اللہ علیہ ( متوفی 104ھ) نے فرمایا:
"فلم أر قوما أحمق من هذه السبئية"
میں نے ان سبائیوں سے زیادہ احمق کوئی قوم نہیں دیکھی(الکامل لابن عدی 6/2128 وسندہ صحیح ،دوسرا نسخہ ج7 ص 275)
7۔امام ابن شہاب الزہری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک ثقہ راوی عبداللہ بن محمد بن علی بن ابی طالب کے بارے میں فرمایا:
"وكان عبد الله يتبع السبئية"
"اور عبداللہ سبائیوں کے پیچھے چلتے تھے۔(التاریخ الکبیر للبخاری 5/187،وسندہ صحیح)
سبائیوں سےمراد رافضیوں(شیعوں) کی ایک قسم ہے۔(تہذیب الکمال ج 10 ص513)
8۔حافظ ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
"أن الكلبي سبئياً من أصحاب عبد الله بن سبأ....."
اور کلبی سبائی تھا،وہ عبداللہ بن سبا کے پیروکاروں میں سے تھا۔۔۔(المجروحین 2/253)
9۔ابراہیم بن یعقوب الجوزجانی نے کہا:
"أن السبئية غلت في الكفر فزعمت أن علياً إلهاً حتى حرقهم بالنار....."
پھر سبائی ہیں،جب انھوں نے کفر میں غلو کیا تو یہ دعویٰ کیا کہ علی اُن کے الٰہ (معبود) ہیں حتیٰ کہ انھوں(علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) نے ان لوگوں کو جلادیا۔(احوال الرجال ص 37)
10۔امام یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ نے اعمش کے شاگرد ابو سلمان یزید نامی راوی کے بارے میں فرمایا:"وھو سبائی"اور وہ سبائی ہے۔(تاریخ ابن معین ،روایۃ الددری:2870)
ان کے علاوہ اور بھی کئی حوالے ہیں جن سے عبداللہ بن سبا یہودی کے وجود کا ثبوت ملتا ہے۔اہلسنت کی اسماء الرجال کی کتابوں میں بھی ابن سبا کا تذکرہ موجود ہے۔
مثلاً دیکھئے تاریخ دمشق لابن عساکر(31/3) میزان الاعتدال(2/426) لسان المیزان (3/289،دوسرانسخہ 4/22) وغیرہ۔
فرقوں پر جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں بھی عبداللہ بن سبا اور سبائیوں کا ذکر موجود ہے۔مثلاًدیکھئے ابو الحسن الاشعری کی کتاب"مقالات الاسلامیین"(ص86)
الملل والنحل للشہرستانی(ج2 ص11) اوزاالفصل فی الملل والاھواء والنحل(4/180) وغیرہ۔
حافظ ابن حزم اندلسی لکھتے ہیں:
"وقالت السبأية أصحاب عبدالله بن سبأ الحميري اليهودي مثل ذلك في علي ابن أبي طالب -رضي الله عنه"
اور سبائیوں:عبداللہ بن سباحمیری یہودی کے پیروکاروں نے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں اسی طرح کی باتیں کہی ہیں۔(الفصل فی الملل 4/180)
ابوالحسن الاشعری فرماتے ہیں:
"والصنف الرابع عشر من أصناف الغالية، وهم السبئية، أصحاب عبدالله بن سبأ، يزعمون أن عليًّا لم يمت، وأنه يرجع إلى الدنيا قبل يوم القيامة....."
"غالیوں میں سے چودھویں قسم سبائیوں کی ہے جو عبداللہ بن سبا کے پیروکار ہیں،وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ علی( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) فوت نہیں ہوئے اور بے شک وہ قیامت سے پہلے دنیا واپس آئیں گے۔۔۔(مقالات الاسلامیین ص 86)
حافظ ذہبی نے عبداللہ بن سبا کے بارے میں لکھا ہےکہ:
"من غلاة الزنادقة، ضال مضل"
"وہ غالی زندیقوں میں سے(اور) ضال مضل تھا۔(میزان الاعتدال 2/426)
اہل سنت کاعبداللہ بن سبا کے وجود پر اجماع ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
شیعہ فرقہ کے نزدیک بھی عبداللہ بن سبا کاوجودثابت ہے جس کی دس(10) دلیلیں پیش خدمت ہیں:
1۔امام ابوعبداللہ(جعفر بن محمد بن علی الصادق) رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا:
"لعن اللهُ عبدَ الله بنَ سبأ ، إنه ادعى الربوبية في أمير المؤمنين عليه السلام ، وكان والله أميرُ المؤمنين عليه السلام عبداً لله طائعاً ، الويل لمن كذب علينا, وإنّ قوماً يقولون فينا ما لا نقوله في أنفسنا، نبرأ إلى الله منهم، نبرأ إلى الله منهم"
"عبداللہ بن سبا پر اللہ لعنت کرے اُس نے امیر المومنین (علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) کے بارے میں ربوبیت (رب ہونے) کا دعویٰ کیا،اللہ کی قسم!امیر المومنین( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) تو اللہ کے طاعت شعار بندے تھے،تباہی ہے اس کے لیے جو ہم پر جھوٹ بولتا ہے،بے شک ایک قوم ہمارے بارے میں ایسی باتیں کرے گی جو ہم ا پنے بارے میں نہیں کرتے،ہم ان سے بری ہیں ہم ان سے بری ہیں۔(رجال کشی ص 107،روایت نمبر 172)
اس روایت کی سند ہمیشہ اسماء الرجال کی رُو سے صحیح ہے ۔محمد بن قولویہ القمی،سعد بن عبداللہ بن ابی خلف القمی،یعقوب بن یزید،محمد بن عیسیٰ بن عبید،علی بن مہز یار،فضالہ بن ایوب الازدی اور ابان بن عثمان یہ سب راوی شیعوں کے نزدیک ثقہ ہیں۔دیکھئے ما مقانی کی تنقیح المقال(جلداول)
2۔ہشام بن سالم سے روایت ہے کہ میں نے ابوعبداللہ کو اپنے شاگردوں کے سامنے عبداللہ بن سبا اور امیر المومنین علی بن ابی طالب کے بارے میں اس کے دعوی ربوبیت کے بارے میں فرماتے ہوئے سنا:اس نے جب یہ دعویٰ کیا تو امیر المومنین ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) نے اس سے توبہ کرنے کامطالبہ کیا،اس نے انکار کردیاتو انھوں نے اُسے آگ میں جلادیا۔(رجال کشی ص107 ،روایت:171،وسندہ صحیح عندالشیعہ)
اس روایت کی سندبھی شیعہ اصول کی رو سے صحیح ہے۔
3۔اسماء الرجال میں شیعوں کے امام کشی نے لکھا ہے:
"وذكر بعض أهل العلم أن عبد الله بن سبأ كان يهوديا فأسلم ، ووالى عليا عليه السلام ، وكان يقول وهو على يهوديته في يوشع بن نون وصى موسى بالغلو، فقال في إسلامه بعد وفاة رسول الله صلى الله عليه وسلم في علي مثل ذلك ، وكان أول من أشهر القول بفرض إمامة علي ، وأظهر البراءة من أعدائه وكاشف مخالفيه ، وكفرهم ، ومن هنا قال من خالف الشيعة ، إن التشيع ، والرفض ، مأخوذ من اليهودية"
"بعض اہل علم نے ذکر کیا ہے کہ عبداللہ بن سبا یہودی تھا پھر اسلام لے آیا اور علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے والہانہ محبت کی وہ یہودیت میں غلو کرتے ہوئے یوشع بن نون کے بارے میں کہتا تھا:وہ موسیٰ علیہ السلام کے وصی تھے،پھر مسلمان ہونے کے بعد وہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں اس طرح کہنے لگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ وصی ہیں۔
سب سے پہلے علی کی امامت کی فرضیت والا قول اُسی نے مشہور کیا اور آپ کے دشمنوں سے براءت کا اظہار کیا،آپ کے مخالفین سے کھلم کھلا دشمنی کی اور انھیں کافر کہا،اس وجہ سے جو لوگ شیعوں کے مخالف ہیں وہ کہتے ہیں:شیعوں اور رافضیوں کی اصل یہودیت میں سے ہے۔(رجال کشی ص108،109)
4،۔شیعوں کے ایک مشہور امام ابو محمد حسن بن موسیٰ النوبختی نے لکھا ہے:
"وحكى جماعة من أهل العلم من أصحاب علي عليه السلام ، إن عبد الله بن سبأ كان يهوديا فأسلم ، ووالى عليا عليه السلام ، وكان يقول وهو على يهوديته في يوشع بن نون بعد موسى عليه السلام بهذه المقالة ، فقال في إسلامه بعد وفاة النبي صلى الله عليه وسلم في علي عليه السلام بمثل ذلك ، وهو أول من أشهر القول بفرض إمامة علي عليه السلام ، وأظهر البراءة من أعدائه ، وكاشف مخالفيه ، فمن هناك قال من خالف الشيعة أن أصل الرفض مأخوذ من اليهودية "
"علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شاگردوں(اور متبعین ) میں سے علماء کی ایک جماعت نے ذکر کیا ہے کہ عبداللہ بن سبا یہودی تھا پھر اسلام لے آیا اور علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے والہانہ محبت کی،وہ اپنی یہودیت میں موسیٰ علیہ السلام کے بعد یوشع بن نون کے بارے میں ایسا کلام کرتا تھا پھر اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں ایسی بات کہی،سب سے پہلے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی امامت کی فرضیت کا قول اس نے مشہورکیا،اس نے آپ کے دشمنوں سے براءت کا اظہار کیا اور آپ کے مخالفین سے کھلم کھلا دشمنی کی، اس وجہ سے جوشیعہ کا مخالف ہے وہ کہتا ہے:رافضیوں کی اصل یہودیت سے نکالی گئی ہے ۔(فرق الشیعہ لنوبختی ص22)
یہ نسخہ سید محمد صادق آل بحرالعلوم کی تصیح وتعلیق کے ساتھ مکتبہ مرتضویہ اور مطبعہ حیدریہ نجف(العراق) سے چھپاہے۔
5۔شیعوں کے ایک مشہور امام مامقانی نے اسماء الرجال کی کتاب میں لکھا ہے:
"<عبد الله بن سبأ> غال ملعون حرقه أمير المؤمنين"
"عبداللہ بن سبا ملعون ہے،اسے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جلادیاتھا۔(تنقیح المقال ج1ص 89 راوی نمبر 6872)
6۔ابوجعفر محمد بن الحسن الطوسی(متوفی 460ھ) نے لکھا ہے:
"عبد الله بن سبأ الذي رجع إلى الكفر وأظهر الغلو"
عبداللہ بن سبا جو کفر کی طرف لوٹ گیا اور غلو کا اظہار کیا۔(رجال الطوسی ص51)
7۔حسن بن علی بن داود الحلی نے کہا:
"عبد الله بن سبأ رجع إلى الكفر وأظهر الغلو، كان يدعي النبوة وأن علياً عليه السلام هو الله....."الخ
عبداللہ بن سبا کفر کی طرف لوٹ گیا اور غلو کا اظہار کیا،وہ نبوت کادعویٰ کرتا تھا اور یہ کہتا تھا کہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اللہ ہیں۔(کتاب الرجال ص254،الجزء الثانی)
8تا10:دیکھئے المقالات والفرق لسعد بن عبداللہ الاشعری القمی(ص 21 بحوالہ الشیعۃ والتشیع للاستاذ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ ص 59)
قاموس الرجال للتستری(ج5 ص 463 بحوالہ الشیعہ والتشیع)
معجم رجال الحدیث للخوئی(ج10ص 200بحوالہ شیعت تصنیف ڈاکٹر محمد البنداری ،مترجم اردو ص 56)
معلوم ہوا کہ اہل سنت کی مستند کتابوں اور شیعہ اسماء الرجال کی رُو سے بھی عبداللہ بن سبایہودی کا وجود حقیقت ہے جس میں کوئی شک نہیں لہذا بعض گمراہوں اور کذابین کا چودھویں پندرھویں صدی ہجری میں ابن سبا کے وجود کاانکار کردینا بے دلیل اور جھوٹ ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
وماعلینا الاالبلاغ(11جون 2008ء)
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب